فرصت کے لمحات میں کبھی کبھار یوٹیوب پر انتہائی مقبول ومعروف نجومیوں کے وی لاگ سے سیاروں اور ستاروں کی چال سمجھنے والے "علم" کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بالآخر ککھ سمجھ نہ آیا تو اقبال کے اس شعر سے دل کو مطمئن کرلیا جو سمجھاتا ہے کہ گردش افلاک میں گم ستارہ کسی فرد کی تقدیر کیسے طے یا بیان کرسکتا ہے۔
صحافت اگرچہ اہم امور پر تبصرہ فرماتے رپورٹر سے کالم نگار ہوئے خواتین وحضرات سے پیش گوئی نہ سہی پیش بینی کا تقاضہ کرتی ہے۔ اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کئی مضامین، ٹویٹ اور یوٹیوب پروگراموں کو دیکھنے کے بعد اسرائیل-ایران جنگ کے بارے میں یہ کہنے کو مجبور ہوا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ٹرمپ کو اعتماد میں لئے بغیر ایران پر چڑھ دوڑا ہے۔
دو کالم یہ دعویٰ ثابت کرنے کی نذرہوگئے تو یہ دعویٰ کردیا کہ جلد یا بدیر ٹرمپ کا امریکہ نیتن یاہو کی حمایت میں ایران پر حملہ کردے گا۔ اپنے ٹی وی شو میں اسی موضوع پر 16جون کی شام گفتگو کرتے ہوئے یہ بڑھک بھی لگادی کہ غالباََ اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ میں فیصلہ کن موڑ (یعنی امریکہ کی مداخلت) 21جون تک سامنے آسکتا ہے۔ 21جون کا ذکر ستاروں کی چال پڑھ کر نہیں ہوا تھا۔ فقط منطقی انداز میں نکتے سے نکتہ ملایا تھا۔ مجھے ہرگز خوشی نہیں ہوئی کہ 22جون کی صبح سوکر اٹھا تو میرا اندازہ درست ثابت ہونے کی اطلاع ملی۔ ناخوش محسوس کرنے کے باوجود ذاتی ٹویٹر(ایکس) اکائونٹ پر "میں نے تو پہلے ہی بتادیا تھا" والی شیخی بگھارنے سے باز نہ رہ پایا۔
شیخی بگھارلی تو باقاعدہ فالورز کی کثیر تعداد "اب کیا ہوگا؟" والا سوال اٹھانا شروع ہوگئی۔ اپنی بساط کے مطابق اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اچانک دریافت ہوا کہ سوشل میڈیا کے پاکستانی صارفین کی اکثریت یہ طے کرچکی ہے کہ ایران کے بعد پاکستان اسرائیل کا اگلا نشانہ ہوگا۔ اس خدشے کو رد کرنے کے لئے میں نے چند سوالات اٹھائے تو متعدد سوشل میڈیا صارفین نے نیتن یاہو کے ایک انٹرویو کی کلپ بھیجنا شروع کردی۔ اس کلپ کو سرسری طورپر سنا جائے تو نیتن یاہو یقیناََ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھی اپنے ملک کے لئے خطرہ بناکر پیش کررہا ہے۔ اسی کلپ کا وہ پہلو مگر نظرانداز کردیا جاتا ہے جس میں وہ "اگر مگر" کا اضافہ کررہا ہے۔
پانچ سے زیادہ بار نیتن یاہو کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے متعلق کلپ کو غور سے سننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ درحقیقت یہ کہہ رہا ہے کہ اگر پاکستان میں بقول اس کے ایران کی طرح مذہبی اعتبار سے "متشدد اسلامی حکومت" قائم ہوگئی تو ہمارا ایٹمی پروگرام بھی اسرائیل کے لئے خطرہ بن جائے گا۔ اس پہلو کی جانب توجہ دلائی تو ٹویٹر پر چھائے محبانِ پاکستان مجھ جاہل کے لتے لینے لگے۔ چند نرم دل حضرات نے اگرچہ پدرانہ انداز میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسرائیل اور امریکہ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک کو ایٹمی ہتھیار سے لیس ہوا برداشت نہیں کرسکتے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے کیونکہ ہم "اسلامی جمہوریہ پاکستان" ہیں۔
بے شمار ٹویٹس پڑھ لینے کے باوجود میں ابھی تک اس خدشے سے متفق نہیں ہوپارہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام "تباہ" کرنے کے بعد اسرائیل اور اس کا سرپرست پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کردیں گے۔ ایٹمی توانائی کوبجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ پاکستان نے 1960ء کی دہائی ہی میں باندھ لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے وزیر برائے تیل اور توانائی تھے۔
اپنے منصب کی بدولت انہوں نے فزکس جیسے مضمون میں امتیازی نمبر حاصل کرنے والوں کا پتہ لگاکر انہیں ذاتی ملاقاتوں یا رابطوں کے ذریعے بیرون ملک کے تعلیمی اداروں سے ایٹمی توانائی کو بجلی پیدا کرنے کا ہنر سیکھنے کو اُکسایا۔ اس عمل کے لئے یورینیم اور اس کی افزودگی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یورینیم کی افزودگی اپنی انتہا تک پہنچنے کے بعد ہی ایٹم بم بنانے کے لئے استعمال ہوسکتی ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے پاکستان نے کینیڈا سے باہمی تعاون کے معاہدے کئے اور چند منصوبوں پر کام بھی شروع ہوگیا۔
1974ء میں لیکن پاکستان جائز بنیادوں پر یورینیم افزودگی کے ہنر کو ایٹم بم بنانے کے لئے استعمال کرنے کو مجبور ہوا۔ اس سے تین برس قبل بھارت نے فوجی مداخلت کے ذریعے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا تھا۔ اس کے چند ہی برس بعد اس نے ایٹمی دھماکے کے ذریعے خود کو جنوبی ایشیاء کا پردھان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اپنی بقاء یقینی بنانے کے لئے ہمارے پاس ایٹم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی کے حصول کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہ بچا۔ اس ٹیکنالوجی کی تلاش شروع ہوئی تو صرف امریکہ ہی نہیں یورپ کے تمام ممالک نے بھی ہماری کاوشوں کو "اسلامی بم" کی تلاش ٹھہراکر برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ بالآخر 1976ء میں امریکہ کے مشہور ڈاکٹر ہنری کسنجر پاکستان آئے اور یہ پیغام دیا کہ پاکستان کی ایٹم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے ہنر کی تلاش ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
جولائی 1977ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ جیل سے وہ مسلسل یاد دلاتے رہے کہ ان کی زندگی ڈاکٹر ہنری کسنجر کے پیغام کے مطابق اجیرن بنائی جارہی ہے۔ حق بات مگر یہ ہے کہ بھٹو کو پھانسی لگوانے کے باوجود جنرل ضیاء بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوئے۔ ربّ کی مہربانی سے موصو ف کے دورِ اقتدار میں سوویت یونین کی افواج دسمبر1979ء کے مہینے میں افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ روسی فوج کی افغانستان آمد نے امریکہ کو ویت نام کا بدلہ لینے کا موقعہ فراہم کردیا اور "افغان جہاد" کا آغاز ہوگیا۔
پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان کو "کمیونزم کے غلبے" سے آزاد کروانے والے امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کو بخوبی علم تھا کہ جنرل ضیاء کی حکومت نے بھی ایٹمی پروگرام ترک نہیں کیا ہے۔ چین کی مبینہ مدد سے بلکہ اس میں مزید تیزی اور توانائی لائی جارہی ہے۔ چین مگر ان دنوں امریکہ کا بھی لاڈلا بن چکا تھا۔ سستی اجرت نے امریکہ اور یورپ کے صنعت کاروں کو وہاں سرمایہ کاری کو اُکسایا۔ یوں اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ"کمیونسٹ" کہلوانے کے باوجود چین روس کا حمایتی نہ بن جائے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام تقریباََ مکمل ہوکر ہتھیار بنانے کے قابل ہوگیا تو سوویت یونین سے افغانستان کو آزاد کروالینے کے بعد ہی 1988ء کے قریب امریکہ کو شدت سے احساس ہونا شروع ہوا کہ پاکستان "ایٹمی ملک" بن چکا ہے۔ "ایٹمی ملک" بن جانے کے جرم میں پاکستان پر بتدریج اقتصادی پابندیاں سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی گئیں۔ 1990ء کی دہائی میں پاکستان دنیا کے ان ممالک کی صف اوّل میں شامل تھا جو امریکہ اور اس کے حواریوں کی جانب سے لگائی اقتصادی پابندیوں کی زد میں جکڑے ہوئے تھے۔
دریں اثناء فقط ایک بار جنرل اسلم بیگ کے دور میں یہ فیصلہ ہوا کہ لیبیا اور ایران کو "ایٹمی ٹیکنالوجی بیچ کر" پاکستان کی اقتصادی مشکلات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ کوشش پاکستان کے لئے عذاب برپاکرسکتی تھی مگر ایک اور فوجی آمر-جنرل مشرف- کے دور میں امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان میں مداخلت کرنا پڑی۔ نائن الیون نے پاکستان کی امریکہ کو یاد دلادی۔ جنرل مشرف اور صدر بش ٹچ بٹنوں کی جوڑی کی طرح "اک مِک"ہوگئے۔ پاکستان نے اس دوران اس امر کو امریکہ کی متحرک شراکت سے یقینی بنایا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اور صرف بھارت کے مقابلے میں اپنی بقاء یقینی بنانے کے لئے استعمال ہوگا۔
ہم پاکستانیوں کی اکثریت مگر سازشی نظریات کے شوروغوغا سے خود کو خواہ مخواہ کا نشانہ ہوئی محسوس کررہی ہے۔ انگریزی میں Wish Death کی اصطلاع استعمال ہوتی ہے۔ اس کا سادہ ترجمہ "موت کی خواہش" ہے۔ ایران کے بعد پاکستان کو "اگلانشانہ" تصور کرنے والے محبان وطن مجھے اس خواہش کے مریض محسوس ہوتے ہیں۔ ان سے بحث کا حوصلہ نہیں۔ ایک سوال مگر اٹھاتے ہوئے انہیں تسلی دینا چاہوں گا اور وہ یہ کہ 21اور 22جون کی درمیانی رات ہوئے امریکی حملے کے بعد ایران کا ایٹمی پروگرام واقعتا تباہ ہوگیا ہے؟ میرے ناقص خیال میں امریکی حملے کے بعد اسے شدید زک پہنچی ہے۔ کامل فراغت مگرنہیں ہوئی۔ قصہ مختصر ابھی ایران کا "سیزن" ختم نہیں ہوا۔