مرتے دم تک یہ واقعہ میرے لئے بھلانا بہت مشکل ہے۔ 45سے پچاس سال کے درمیان عمر والا ایک شخص جو نہایت دیانتداری اور خودداری کے ساتھ گھروں میں کھانا پکاتا ہے چند روز قبل میرے کمرے میں آیا۔ وہاں داخل ہونے سے پہلے اسے یقین تھا کہ میرے سوا اس کمرے میں کوئی اور موجود نہیں اور نہ ہی کسی کے آنے کا امکان ہے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سلام کے بعد میرے ہاتھ میں تہہ ہوا ایک کاغذ تھمایا اور میرے گھٹنے پر سررکھ کر رونے لگا۔ میں نے نہایت شرمساری اور عاجزی سے اسے اٹھ کر اپنے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کو مجبور کیا۔ وہ بیٹھ گیا تو اسے پانی پلاکر خود پر کنٹرول کو مائل کیا۔ ملازم کو فون پر کہا کہ اس کے لئے آم والا ملک شیک لائے۔
وہ تھواڑ سنبھل گیا تو مجھے احساس ہوا کہ اس نے میرے ہاتھ اپنے ہاں آیا بجلی کا بل تھمایا ہے۔ اس کی ماہانہ آمدنی تیس ہزار روپے ہے۔ تنہا رہتے میاں بیوی کے گھر کھانا پکاتا ہے۔ چار بچوں کے اس باپ نے اسلام آباد کی نواحی بستی میں رہائش کے لئے دو کمرے لے رکھے ہیں۔ ماہانہ کرایہ اس گھر کا سولہ ہزارہے۔ گھرچلانے کے لئے اس کی بیوی دیگر گھروں میں جاکر صفائی ستھرائی کرتی، کپڑے دھوتی اور استری کرتی ہے۔ وہ دونوں میاں بیوی مشقت بھری زندگی گزارنے کے باوجود بجلی کا بل ادا کرنے کے قابل نہیں تھے جو بارہ ہزار کے قریب تھا۔ اس کی درخواست تھی کہ میں اسے بارہ ہزار روپے قرض دے دوں۔ وہ ہر ماہ ایک ہزار کی قسط دے کر اسے اتاردے گا۔
اس کی بے بسی سے پریشان ہوکر میں نے دفتر گئی بیوی کو کمرے سے نکل کر فون کیا۔ گھر آئے بے بس شخص کی داستان سنانے کے بعد فیصلہ ہوا کہ اسے قرض دینے کے بجائے میں اسے بارہ ہزار روپے ادا کردوں۔ ان میں سے چھ ہزار روپے وہ مجھے دفتر سے لوٹ کر ادا کردے گی۔ میں اسے لے کر اے ٹی ایم گیا۔ پیسے نکلواکر اس کے حوالے کئے تو خودداری کا ڈرامہ لگائے بغیر وہ مصر رہا کہ ہر ماہ ایک ہزار روپے کی قسط ادا کرے گا۔ مجھے ڈانٹ کر اسے قائل کرناپڑا کہ وہ میری دی رقم کو قرض شمار نہ کرے۔
وہ چلا گیا تو کمرے میں لوٹ کر میں نے ریموٹ دباکر ٹی وی آن کیا تاکہ ٹی وی شو کے لئے مواد جمع کرسکوں۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہوئی آواز کے ساتھ نیوز ریڈر یہ بتارہے تھے کہ سٹاک ایکس چینج میں نیا مالی سال شروع ہونے کیساتھ ہی شیئرز کی ریکارڈ بناتی خریداری ہوئی ہے۔ ملک یوں نئے بجٹ کا خوش حال پاکستان کی امید کے ساتھ خیر مقدم کرتا محسوس ہورہا ہے۔ "ملک بھر میں خوشحالی لوٹنے کے امکان" کے ذکرنے مجھے یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ جو شخص ابھی چند ہی لمحے قبل مجھ سے جدا ہوا ہے اسی ملک کاباشندہ ہے یا نہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ وطن عزیز کے کتنے فی صد باسی سٹاک ایکس چینج سے آشنا ہیں۔ میں ایک نام نہاد پڑھالکھا شخص ہوں۔ سفید پوشی کے باوجود ہر ماہ کچھ رقم بچ بھی جاتی ہے۔ اسے بینک ہی میں پڑے رہنے دیتا ہوں اور وہاں سے منافع بھی نہیں ملتا۔ کیونکہ میرا اکائونٹ "کرنٹ" ہے جس میں ان اداروں سے تنخواہ آتی ہے جن کے لئے میں لکھتا یا بولتا ہوں۔ اس پر واجب الادا ٹیکس رقم بھجوانے سے قبل ہی منہا کرلیا جاتا ہے۔ جو رقم بینک میں بچی پڑی ہے اسے میں نے کبھی کسی کمپنی کے شیئرز خریدنے کے لئے خرچ کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اس کالم کے باقاعدہ قارئین کی بے پناہ اکثریت کوبھی یہ علم نہیں ہوگا کہ اسٹاک ایکس چینج کی مندی یا تیزی ان کی روزمرہّ زندگی کے معاشی پہلو پر کیا اثر ڈالتی ہے۔ وہ اس کے دھندے میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں۔
سٹاک ایکس چینج کا اتارچڑھائو فی الحال میرا درد سر نہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے سوئی محض اس بات پر اٹکی رہی کہ وہ شخص جو میری آنکھوں کے سامنے کئی برسوں سے نہایت دیانتداری اور لگن کے ساتھ کھانا پکاتا رہا ہے اپنی خودداری بھلاکر میرے گھٹنے چھونے کو کیوں مجبور ہوا۔ اس کی آنسوئوں سے ہچکی کیوں بندھ گئی۔ اس کا شمار ان غریب گھرانوں میں ہونا چاہیے جو بجلی کے 200یونٹ سے زیادہ غیر معمولی حالات ہی میں استعمال کرسکتے ہیں۔ کچی بستی میں 16ہزار روپے ماہوار پر لیا مکان دو کچے کمروں پر مشتمل ہوگا۔ وہاں زیادہ سے زیادہ بجلی کے تین بلب یا دوپنکھے استعمال ہوتے ہوں گے۔ بجلی کو 200یونٹ کی حد تک استعمال کرنے والوں کو ہماری سرکار مائی باپ "مراعات یافتہ" گردانتی ہے۔ ان کے ساتھ رحم بھری فیاضی کے ڈرامے لگاتی ہے۔ جس فیاضی کا ڈرامہ لگایا جاتا ہے اسی کے باوجود میرے پاس آئے شخص کابل بارہ ہزار روپے کیوں تھا۔
یہ سوال ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے 20کے قریب گھریلو ملازمین اور ڈرائیوروں سے گفتگو کی۔ ان کی اکثریت بھی اپنے ہاں آئے بل کے بارے میں بلبلاتی محسوس ہوئی۔ نچلے متوسط طبقے کے ایک سفید پوش نے مجھے سمجھایا کہ اگر کوئی صارف 200سے ایک یونٹ بھی زیادہ خرچ کرلے تو وہ ایک اور سلیب (Slab)میں چلا جاتا ہے۔ اس کے ہاں بجلی کے بل کی اوسط 3سے ساڑھے تین ہزار کے درمیان رہتی تھی۔ گزشتہ ماہ حبس سے پریشان ہوکر اس نے اپنے کمرے کو ٹھنڈا رکھنے کی خاطر ایک کولر لے لیا۔ وہ کولر چلا تو اس کا بل محض اس کی وجہ سے 13ہزار روپے ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ میرے پاس آئے شخص نے بھی حبس سے پریشان ہوکر کولر خریدلیا ہوگا جس کا خمیازہ اسے 12ہزار روپے کی صورت بھرنا پڑا۔
مزید تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ میٹر ریڈروں کی اکثریت مبینہ طورپر جان بوجھ کر مہینے کی اس تاریخ میٹر ریڈنگ کے لئے آتی ہے جب ان کی دانست میں صارف نے 200سے زیادہ یونٹ صرف کرلئے ہوتے ہیں۔ یوں صارف ایسی سلیب میں دھکیل دیا جاتا ہے جہاں فی یونٹ بجلی کی قیمت میں ازخود اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں موسم کی شدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر کوئی مہربان حکومت ہوتی تو سستی قیمت والی بجلی کی حد 200کے بجائے 300یونٹ کردیتی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا ویسے بھی کلیدی اصول تو یہی ہے کہ آپ کسی یوٹیلٹی کے استعمال کی اتنی ہی قیمت ادا کرتے ہیں جو آپ نے خرچ کی ہے۔
ہمارے ہاں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت مگر وہ سلیب طے کرتا ہے جو بجلی کے اجتماعی خرچ کی بدولت طے ہوتا ہے۔ جن حقائق کا مجھے ایک واقعہ کی مدد سے تھوڑا ادراک ہوا ہے وہ مگر ہمارے پالیسی ساز حلقوں میں زیر بحث ہی نہیں آتے۔ ٹی وی کھولیں تو سرکاری اجلاسوں میں موجود ہر شخص نے ناقابل برداشت حبس کے اس موسم میں قیمتی شرٹ کے اوپر جدید فیشن کی رنگین دھاری والی ٹائیوں کیساتھ مہنگا ترین کوٹ پہن رکھا ہوتا ہے۔ ان سے حبس کے مارے لوگوں کے دُکھ کے ادراک کی توقع رکھنا کارعبث ہے۔