میں اس وقت سٹی فارٹی ٹو میں پروگرام کر رہا تھا اور ہمارے موضوعات سیاسی کم اور غیر سیاسی زیادہ ہوتے تھے۔ سینئر صحافی شاہین عتیق نے فیملی کورٹس کے مقدمات کے حوالے سے مفصل اعداد وشمار شیئر کئے جن میں بتایا گیا تھا کہ طلاق (یعنی خُلع) کے مقدمات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ میں نے اس رپورٹ پر افسوس کا اظہار کیا تو میرے سامنے بیٹھی ہوئی خاتون اینکرنے فوری تبصرہ کیا کہ کیا یہ بات اچھی نہیں کہ عورتوں میں شعورآ رہا ہے۔ میری حیرانی پر ا نہوں نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ ایک عورت کسی مرد سے مار کھاتی رہے، اپنے حقوق گنواتی رہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ خلع لے لے۔ میں گھر ٹوٹنے کی مخالفت کرنے کے باوجود ان کی بات سے اختلاف نہیں کر سکا۔
دراڑیں صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی نہیں آ رہیں بلکہ ہر رشتے میں ہی آ رہی ہیں جیسے عائشہ خان کے بعدحمیرا اصغر والا معاملہ۔ عائشہ خان اپنے بچوں سے الگ رہتی تھیں اور حمیرا اصغر اپنے والدین سے الگ۔ ہم سب بہت زیادہ آزاد خیال ہو بھی جائیں تو ہمارے ایک عورت کا بالکل تنہا رہنا ایک عجیب وغریب بات ہے بلکہ ایک مرد کا بھی۔ چونکہ ہم پدر سری معاشرے میں رہتے ہیں اس لئے عورتوں کا زیادہ حیران کن لگتا ہے اور مردوں کا کم مگر عورتیں ہوں یا مرد، دونوں انسان ہوتے ہیں، گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان، ان کے اندر دل ہوتے ہیں، جذبات ہوتے ہیں اور ان کی ضروریات ہوتی ہیں جو بالکل ایک جیسی ہوتی ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ فلم اورڈرامہ انڈسٹری میں یہ باتیں نسبتاً زیادہ ہیں مگر باقی معاشرے میں بھی کم نہیں ہیں۔ ہم بہت سارے لوگ بیٹھے ایسے واقعات کوڈسکس کر رہے تھے تو کہا گیا کہ فیس بک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک وغیرہ نے معاملات زیادہ خراب کر دئیے ہیں مگر میرا کہنا تھا کہ انسانی فطرت شروع سے ہی ایسی ہے۔ یہ واقعات اس وقت بھی ہوتے تھے جب نہ بجلی ہر جگہ تھی اور نہ ہی ٹی وی۔ اسی دور کے واقعات حکایت، سرگزشت اور اردو ڈائجسٹ وغیرہ میں کار، شلوار اور دوپٹہ، جیسی کہانیوں کی صورت میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ پہلے الیکٹرانک اور پھر سوشل میڈیا آنے کے بعد اب یہ ہوا ہے کہ ایسے واقعات کی اطلاعات ملنی شروع ہوگئی ہیں ورنہ شہر کے ایک علاقے کے کسی گھر سے لاش نکلتی تھی تو دوسرے علاقے کے بہت سارے لوگوں کو پتا بھی نہیں ہوتا تھا اور اب سوشل میڈیا آنے سے بات چوبارے چڑھنے لگی ہے، ملک ملک پھیلنے لگی ہے۔
مجھے کسی نے کہا کہ ساسیں، بہووں کو برداشت نہیں کرتیں اور میں نے اختلاف کیا۔ میرا کہنا تھا کہ بہوویں بھی ساسوں کو برداشت نہیں کرتیں۔ ہم نے اس بات کو گالی بنا دیا ہے جب مائیں کہا کرتی تھیں کہ بیٹی جس گھر میں تیری ڈولی جا رہی ہے وہاں سے تیرا جنازہ ہی نکلے۔ اب کوئی ماں ایسی بات نہیں کہتی۔ اب مائیں کہتی ہیں تم وہاں جارہی ہو توکس کی ایک نہ سننا، ہم موجود ہیں، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہم نمٹ لیں گے۔
میں پھر کہوں گا کہ میں ڈولی جا رہی ہے اور جنازہ ہی نکلے والی بات کی حمایت کرکے ہیومن رائٹس اور ویمن رائٹس والوں سے گالیاں نہیں کھانا چاہتا مگر اس کے باوجود میں اس کلچر اور روئیے کی بھی حمایت نہیں کرتا جس میں مائیں اپنی بچیوں کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں کہ وہ اگلے گھر کو اس طرح چلائیں جس طرح ان کا گھر چلتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر گھر کے چلنے کے اپنے اپنے طریقے ہیں اور ہر گھر کی اپنی اپنی پسند ناپسند ہے۔
مجھے کوئی پوچھے کہ گھر نہ چلنے میں بہووں اور ساسوں کی ذمے داری کی پرسینٹج کیا ہے تو میرا جواب بالترتیب ستر اور تیس فیصد ہوگا کیونکہ میں یہ بھی ہرگز نہیں کہتا کہ تمام ساسیں بہت معصوم اور بھولی بھالی ہوتی ہیں مگر میں آج کل کی لڑکیوں کو معصوم اور بھولی بھال سمجھوں، توبہ توبہ، مجھ سے یہ جھوٹ بھی نہیں بولا جا سکتا۔ جیسے عائشہ خان والا معاملہ۔ ساس اپنی بہووں کے ساتھ بری تھی یا بہوویں اپنی ساس کے ساتھ، مجھے اس کا ہرگز علم نہیں ہے مگر اس کا نقصان بہرحال ساس کو ہوا اور وہ ایک فلیٹ میں اکیلے رہتے رہتے مر گئی اور یہی معاملہ حمیرا اصغر کے ساتھ ہے۔
وہ اکیلی رہ رہی تھی اور کیوں رہ رہی تھی میں اس پر ہرگز رائے نہیں دینا چاہتا کیونکہ ہمارا معاشرہ کہتا ہے کہ مرے ہووں کے بارے میں اچھی بات ہی کرنی چاہئے۔ وہ بہت اچھی ہوگی اور بہت مہربان بھی جیسے اس کی بہت ساری تصویریں اور ویڈیوز یتیموں وغیرہ کے ساتھ شیئرکی جار ہی ہیں۔ ایک سوال اور بھی ہے کہ جب ہم دوسروں کے ساتھ بہت اچھے ہوتے ہیں تو اپنوں کے ساتھ کیوں نہیں ہوتے؟ ہم دوسروں کو معاف کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو اپنوں کو معاف کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں کرتے۔
بہرحال حمیر ااصغر والے معاملے کے بعد میرا لڑکیوں کو، ہیومن رائٹس اور ویمن رائٹس والوں سے معذرت کے ساتھ، یہی مشورہ تھا کہ اگر انہیں اپنی فیملی اور اپنے کیرئیر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ فیملی کا کریں۔ شوبز کے بعد ٹک ٹاکرز کے حوالے سے کچھ ایسی روایات سامنے نہیں آ رہیں اس کا اندازہ ویڈیو لیکس سے ہی لگا لیں۔
مجھے علم ہے کہ بہت ساری خواتین میری اس بات پر بھی برا منائیں گی مگر میں کنوینس ہوں کہ کسی بھی گھر کو جوڑنے اور توڑنے کی نوے فیصد ذمے داری عورت پر عائد ہوتی ہے۔ مرد تو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے درمیان سینڈوچ بنا ہوتا ہے۔ یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو اپنی اولادوں میں ایک دوسرے کے لئے عزت اور محبت ڈالتی ہیں یا نفرت اور کدورت۔ یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو اولاد کی نظر میں ان کے باپوں کو ہیرو بناتی ہیں یا ولن۔
یہ عورتیں ہی ہوتی ہیں جو خالاؤںا ور پھپھوؤں میں فرق پیدا کرتی ہیں اورکسی نے کیا خوب کہا کہ اگر تمہیں اپنی خالہ اچھی لگتی ہے اور پھپھو بری تو مبارک ہو تمہاری ماں فیملی پالیٹیکس بہت مہارت کے ساتھ کھیل گئی ہے۔ ایک خاتون نے شکایت کی کہ اس کا شوہر بدتمیز ہے، گالیاں دیتا اور ہاتھ اٹھاتا ہے، اسے مشورہ دیا گیا کہ تم اپنے بیٹے کو ایسا مت بنانا، اس کی تربیت ایسی کرنا کہ وہ خواتین کی عزت کرے، گالی اور تشدد سے نفرت کرے اور یہ عین ممکن ہے کہ اولاد کی نوے فیصد فطرت بذریعہ تربیت ان کی ماں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
مجھے نہیں علم کہ آپ اسے مجبوری کہیں گے یا نعمت کہ ہمارے ہاں ابھی فیملی سسٹم باقی ہے، میں اسے نعمت ہی کہتا ہوں۔ ہمارے بزرگ اپنے بچوں کے پاس اور ہمارے بیٹیاں اپنے باپوں یا شوہروں کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہیں کہ ہمیں عائشہ خان اور حمیرا اصغر والے معاملات بہت عجیب لگے اور میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ سب کچھ بھی معمول ہوجائے، ہمیں کچھ بھی عجیب نہ لگے۔