مجھے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کو لاہور میں دیکھ کر خوشی ہوئی، میں پکا پاکستانی ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایک صوبے کے سیاستدان لازمی طور پر دوسرے صوبوں میں جائیں جیسے ابھی کچھ روز پہلے بلاول بھٹو زرداری پنجاب تشریف لائے تھے تو ان سے گورنر ہاوس لاہور میں ملاقات اور گپ شپ کا موقع بھی ملا۔
دوسرے صوبوں میں رائے عامہ ہموار کرنے والے صحافیوں کےساتھ ملاقاتیں غلط فہمیوں کاازالہ کرتی ہیں، پبلک ریلیشننگ بہتر کرتی ہیں، ہاں، اگر بلاول بھٹو لاہور آئیں اور صرف پیپلز پارٹی والوں سے ملیں اور سہیل آفریدی بھی تمام وقت پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کو دے دیں تو یقینی طور پر یہ خود کلامی ہوگی اور خود کلامی کبھی کوئی فائدہ نہیں دیتی بالکل اسی طرح جیسے جماعت اسلامی والے انتظامی سطح پر اپنی بہت زیادہ مجالس اور سیمینار وغیرہ کرتے ہیں مگر سب کی سب خود کلامی۔
سہیل آفریدی نے اچھا کیا کہ بائی ائیر نہیں آئے، انہوں نے جی ٹی روڈ کی بجائے موٹروے کا انتخاب کیا، جی ہاں، نواز شریف کی بنائی ہوئی موٹر وے پر جس نے لاہور سے پشاور ہی نہیں اب تو پشاور سے سندھ تک کا سفر بہت آسان کر دیا ہے، اسے ایک مصیبت کی بجائے ایک تفریح بنا دیا ہے۔ ویلکم، وہ پنجاب اس بھرم کے ساتھ آئیں کہ یہ خیبرپختونخوا کے مقابلے میں امن، تعمیر، ترقی اور محبت والا صوبہ ہے۔ اگر وہ جی ٹی روڈ سے آتے تو انہیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں پختون پنڈی سے لاہور تک ملتے جو اپنے صوبے میں امن اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب میں کاروبار اورنوکریاں کر رہے ہیں۔
وہ یقینی طور پر اپنے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کرتے کہ اگر وہ اپنے صوبے میں امن اور روزگار پر توجہ دیتے تو انہیں اپنے گھر بار اور پیارے چھوڑ کے یوں پنڈی، لاہورنہ آنا پڑتا جیسے کوئی دوبئی کمانے کے لئے جاتا ہے۔ پنجاب میں انہیں کوئی ڈر نہیں کہ کسی بھی وقت وہ کسی بم دھماکے میں ہلاک کئے جا سکتے ہیں کیونکہ پنجاب کی حکومت دہشت گردوں اور غیر قانونی مقیم افغانوں کی میزبان اور سہولت کار نہیں ہے۔ اس سے انہیں اپنی پالیسیوں کے بارے سوچنے کا موقع ملتا کہ وہ کس طرح آگ سے کھیل رہے ہیں۔
وہ جب پنجاب میں داخل ہوتے تو انہیں یہاں لہلہاتی ہوئی فصلیں دکھائی دیتیں کیونکہ پنجاب پاکستان کا اناج گھر ہے۔ انہیں پتا چلتا کہ یہاں کسانوں کو بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں، انہیں کسان کارڈ مل رہے ہیں، ہائی ٹیک میکانائزیشن کے لئے فنڈنگ ہو رہی ہے، سہیل آفریدی کو کھیتوں میں پنجاب حکومت کی طرف سے دئیے گئے گرین ٹریکٹر اور تھریشر چلتے ہوئے دکھائی دیتے اوروہ بھی جو کسانوں کو گندم کی بہترین پیداوار پر بطور انعام دئیے گئے۔
وہ جب پنجاب کے شہروں سے گزرتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ صاف ستھرے شہر کیسے ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ابھی تک پشاور کو بھی کوڑے کے ڈھیروں سے پاک نہیں کر سکے جبکہ یہاں شروع کیا گیا ستھرا پنجاب پروگرام اب برطانیہ تک کے شہروں میں کاپی کیا جا رہا ہے۔ انہیں تجاوزات سے پاک سڑکیں اوربازار نظر آتے تو وہ یقینی طور پر محسوس کرتے کہ وہ واقعی کسی ایسی جگہ آ گئے ہیں جہاں کوئی حکومت موجود ہے۔
آج کل تو دھند چل رہی ہے مگر انہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پنجاب کی حکومت نے کس طرح محنت کرکے سموگ پر قابو پایا اور اس مرتبہ عثمان بزدار کی حکومت کے سالوں کی نسبت بیالیس فیصد سموگ اور فضائی آلودگی کم رہی۔ ویسے وہ بائی ائیر بھی آتے تو لاہور انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہیں، رنگ روڈ تک آتے آتے وہ لاہور کے سحر میں مبتلا ہوجاتے اورمجھے یقین ہے کہ بذریعہ موٹروے ٹھوکر نیاز بیگ سے کینال روڈ پر اس کی فراخی اوراس کی ہریالی دیکھ کر ہی ان کے منہ سے کئی مرتبہ سبحان اللہ نکل گیا ہوگا۔
انہوں نے کئی بار پوچھا ہوگاکہ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر اتھارٹی کس طرح کام کر رہی ہے کہ لاہورسر سبز ہے۔ انہیں اسی روٹ پر فیروز پور روڈ پر وہ میٹرو بس بھی مل گئی ہوگی جسے ان کا لیڈر جنگلہ بس کہتا تھااورپھر اسی کو کاپی کر لیا مگر لاہور کی میٹرو تو صرف اٹھائیس، انتیس ارب میں بنی تھی اور پشاور میں اس کی کاپی سوا سو ارب میں بنائی گئی اور پھرانہیں اورنج لائن بھی نظر آتی۔ وہ میٹرو بس کو ملتان اور پنڈی میں بھی دیکھ سکتے ہیں اور ہاں، اگر وہ جی ٹی روڈ سے آتے توانہیں شہر، شہر الیکٹرک بسیں چلتی ہوئی دکھائی دیتیں، چکر ذرا لمبا ہوجاتا مگر وہ میانوالی بھی دیکھ آتے جو عمران خان کو منتخب کرتا ہے مگر وہاں بھی الیکٹرک بسوں سمیت تعمیر وترقی مسلم لیگ نون کی ہی دی ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی خود کو نوجوانوں کی پارٹی کہتی ہے اگرچہ ان کے لیڈر سترے بہترے سے اوپر کے ہوچکے مگر جب وہ لاہور کے نوجوانوں سے ملیں اور میری خواہش ہے کہ وہ نالائق لونڈوں لپاڈوں اور ٹک ٹاکروں کی بجائے حقیقی معنوں میں مہذب اور تعلیم یافتہ طالب علموں سے ملیں تو وہ بتائیں گے کہ پنجاب میں برس ہا برس سے اعلیٰ تعلیمی کارکردگی کے حامل نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دئیے جا رہے ہیں، لڑکیوں کو سکوٹیاں دی جا رہی ہیں اور یہی نہیں بلکہ عشروں سے پیف موجود ہے جس کے تحت ہونہار بچوں کی فیس ادا کی جاتی ہے چاہے وہ لمز میں ہی کیوں نہ پڑھ رہے ہوں اور اب موجودہ حکومت کی ہونہار سکالرشپ سکیم۔
وہ اپنے صحت کا رڈ کا بہت چرچا کرتے ہیں مگروہ لبرٹی میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے پنجاب کے پی آئی سی، پی کے ایل آئی، چلڈرن ہسپتال سمیت دیگر کادورہ کرتے تو دیکھتے کہ پختون بزرگوں اور بچوں کی کتنی بڑی تعداد یہاں علاج کروانے کے لئے آتی ہے۔ وہ اپنا وقت اگر اچھی بریفنگز میں صرف کرتے تو انہیں علم ہوتا کہ یہاں معذوروں اور اقلیتوں کو کیا سہولتیں دی جا رہی ہیں اور ان کے لئے کس طرح کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔ نوجوان ان کو آسان روزگار سکیم بارے بھی بتاتے جس میں نوجوانوں کو کاروبار کے لئے کروڑوں روپے کے بلاسود قرض مل رہے ہیں۔ گھر بنانے کا وعدہ سہیل آفریدی نے کیا تھا مگر پنجاب میں اب لاکھوں گھر اپنی چھت پراجیکٹ کے تحت تعمیر ہو رہے ہیں جس میں گھر بنانے کے لئے بلاسود قرض مل رہے ہیں۔
سہیل آفریدی فخریہ طور پر عشق عمران کے مریض ہیں اور اگر وہ عشق عوام اور عشق پاکستان کے گھائل ہوتے تو پنجاب سے بہت کچھ سیکھ کر جاتے۔ آج بھی ان کا قیام لاہور میں ہی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ یہاں سے اپنے لئے بہت کچھ سیکھ کر اور اپنے عوام کو دینے کے لئے بہت کچھ ساتھ لے کر جائیں گے کیونکہ اگر انہوں نے بھی موقع ضائع کر دیا، اپنا عشق نہ بدلا تو پھر پشاور اور ایبٹ آباد سے ہمارے بھائی پنجاب کے شہروں کویوں دیکھنے آیا کریں گے جیسے کوئی دوبئی، لندن یا نیویارک کو دیکھنے جاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ جب واپس جائیں تو اس عزم کے ساتھ جائیں کہ وہ خیبرپختونخوا کو پنجاب بنائیں گے، مریم نواز کا پنجاب!