Thursday, 25 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Najam Wali Khan
  4. PIA Ke Mamay

PIA Ke Mamay

اس وقت وہ لوگ پی آئی اے کے مامے بنے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں قومی ائیرلائن کی برطانیہ اور یورپ کے لئے پروازیں بند کروا دیں، جنہیں ہر کسی کی طرف صرف مغلظات بکنے کی عادت تھی انہوں نے وہی کام اپنے اداروں اور اپنے لوگوں کے ساتھ شروع کر دیا۔ اب چیخم دھاڑم ہے کہ پی آئی اے کو بہت سستا بیچ دیا مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے مہاطمع کے دور کی پالیسی بھی نجکاری ہی تھی۔

میرے سامنے16نومبر 2019، پانچ مارچ2020,29اکتوبر 2021 کے کئی اردو، انگریزی اخبارات کھلے پڑے ہیں جن میں اس وقت کے وزیراعظم نے نجکاری کو تیز کرنے کی ہدایت کی مگر ان سے کوئی بھی قابل ذکر ادارہ پرائیویٹائز نہ ہوسکا کیونکہ باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور کام کرنا بہت مشکل۔ پی آئی اے کی نجکاری پر مجھے ان کے لئے اسی بابے کے قابل اعتراض لطیفے کو دہرانے دیجئے جس نے کہا تھا کہ ہُن شکایت ای لگے گی، ظاہر ہے جب آپ خود کچھ نہ کرسکتے ہو تو کرنے والوں کی شکایت ہی لگائیں گے اور جو آپ نے کیا وہ کتنا ذلت آ میز تھا کہ پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ سمیت بہت سارے ممالک کیلئے پروازیں بند کرواتے ہوئے اسے اربوں روپے سالانہ کے نقصان میں دھکیل دیا۔

یہی وجہ تھی کہ گذشتہ برس جب اس کی نجکاری کی کوشش کی گئی تو کوئی گاہک ہی نہیں آیا۔ اب دوبارہ نجکاری اس لئے ممکن ہوسکی کیونکہ وزیراعظم، فیلڈ مارشل، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کی مسلسل کوششوں سے یورپ کے لئے پروازیں کھلیں۔ آپ کو اس پر شرم تو نہیں آتی ہوگی؟

اعتراض کیا کہ نجکاری کیوں تو جواب ہے کہ حکومتوں کاکام کاروبار کرنا، کمرشل بزنس والے ادارے چلانا نہیں ہے۔ جدید ریاست بہت پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ وہ اپنا کردار ایک ریگولیٹر کے طور پر برقرار رکھے۔ کاروبار شہری کریں، کمرشل ادارے کریں اور حکومت ان پر نظر رکھے کہ کہیں کارٹل نہ ہوتاکہ عوام کو فئیر کمپی ٹیشن میں سستی اور بہترین سہولتیں مل سکیں۔

ہمیں مان لینا چاہئے کہ ترقی پذیر ممالک کی بیوروکریسی کی یہ کپے سٹی ہی نہیں کہ وہ کاروباری ادارے چلا سکیں کہ اگر وہ اس قابل ہوتے تو نوکری کرنے کی بجائے اپنی بزنس ایمپائرز چلا رہے ہوتے۔ پھر کہا کہ صرف ایک سو پینتیس ارب میں بیچ دیا، حکومت کو صرف دس ارب ملیں گے تو اس کی وضاحت گذشتہ روز کی حکومتی پریس کانفرنس میں ہوگئی کہ حکومت کو دس نہیں پچپن ارب کا شئیر ملا ہے اور یوں بھی اصل معاملہ یہ نہیں کہ ایک سو پینتیس ارب ملے یا دس، اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم ہر برس عوام کے ٹیکسوں کے ستر سے اسی ارب روپے اس کنویں میں ڈبونے سے بچ گئے اور یہی اصل منافع ہے۔

دوسرے اگر یہ پیسے پی آئی اے میں گئے ہیں تو یہ پاکستان میں ہی گئے ہیں۔ یہ اپنے ہی ملک کی جی ڈی پی اور اکنامک گروتھ میں کردارادا کریں گے جب پی آئی اے کے طیارے اٹھارہ سے بڑھ کے اڑسٹھ ہوجائیں گے جیسا کہ عارف حبیب نے اعلان کیا ہے۔ میں سیلف میڈ بزنس ٹائیکون عارف حبیب، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ان داتا اور مثالی ہاوسنگ سوسائٹی لیک سٹی کے مالک گوہر اعجاز اور سٹی سکولز والوں کی کاروباری صلاحیتوں پرا عتماد کرتا ہوں اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ پی آئی اے کسی غیر ملکی کمپنی کے ہتھے نہیں چڑھا کیونکہ اس کی ادارہ جاتی ہی نہیں بلکہ سٹریٹیجک اہمیت بھی ہے۔

اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ پاکستان سے منافع باہر نہیں جائے گا۔ ویسے مجھے اس کی قیمت پر اعتراض کرنے والوں سے سوال پوچھنا ہے کہ سب سے بڑے منافقو، اسکی قیمت تو گری ہی تمہاری حرکتوں کی وجہ سے تھی ورنہ ایک وقت تھا کہ پی آئی اے دنیا کی دوسری بہترین ائیرلائن تھی اور تم ہی اس پر تھانے دار بن رہے ہو، حیرت ہے۔

چلیں، اس پر بات کرلیتے ہیں کہ کیا پی آئی اے کی نجکاری شفاف ہوئی توجواب ہے کہ اس پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتا۔ سب نے پی ٹی وی پر اسے لائیو دیکھا اور اس کی بیس ویلیو ایک سو ارب سے بولی ایک سو پندرہ ارب پر ہی نہیں گئی بلکہ جب لکی گروپ اور عارف حبیب کنسورشیم کے درمیان مقابلہ ہوا تو یہ مزید بیس ارب روپے بڑھ گئی۔ جو اس کی شفافیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ وہاں بولی لگانے والے گٹھ جوڑ بھی نہیں کرسکے جس کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ اس سے آگے بڑھتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا پی آئی اے کے ملازمین کا خیال رکھا گیا جو مظاہرے کر رہے تھے تو جواب ہے، جی ہاں، ملازمین کو ایک برس تک فارغ نہیں کیا جا سکے گا اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن، میڈیکل اور رعایتی ٹکٹیں کمپنی کے ذمے ہی ہوں گی۔

مجھے امید ہے کہ جب طیارے اٹھارہ سے اڑسٹھ ہوں گے تو یہ ملازم بھی ناکافی ہوجائیں گے، مزید ملازمین کی ضرورت ہوگی اور پھر وہی ملازمت کرے گا جو بہترین سروسز دے سکے گا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے کچھ لوگ بھی اس پر تنقید کر رہے ہیں مگر مان لیجئے کہ اب پی پی پی کی نیشنلائزیشن کی پالیسی پچھلی صدی کی متروک پالیسی ہوچکی۔ اب کاروبار شہری ہی کریں گے اور حکومت اس کی ریگولیٹر ہوگی۔

جان لیجئے کہ پاکستان نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا۔ ہمارے ہمسائے میں ٹاٹا گروپ کی ائیرلائن کو قومیا یا گیا تھا مگر پھر وہ ٹاٹا گروپ کو ہی واپس کر دی گئی۔ برٹش ائیرلائنز کی 1987ء میں نجکاری ہوئی اور اب اسے آئی اے جی گروپ چلا رہا ہے۔ جاپان ائیر لائئز (جے اے ایل) جب دیوالیہ ہوئی تو اس کی ری سٹرکچرنگ کرکے2012 میں پرائیویٹائز کر دیا گیا۔ جرمنی کی لفتھانسا، فرانس کی ائیر فرانس، اٹلی کی ایلی ٹیلیا یا آسٹریلیا تک میں دیکھ لیں یا ترکش ائیرلائنز جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر لایا گیا ہے۔

ریاست کا کام شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے اور اگر ان کا کام شہری کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگر ان کی قیمتیں مناسب ہوں اور اس میں مجھے موبائل کمپنیوں کی مثال دینی ہے کہ جب پی ٹی سی ایل کی نجکاری ہوئی اور تواس کے بعد یوفون نے دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے مقابلے میں وہی پیکج دئیے بلکہ دوسری کمپنیوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ مقابلے میں رہیں۔ اس طرح قیمتوں اور سروسز کا مقابلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان میں آپ سو روپے کے کارڈ پر پورا مہینہ موبائل فون استعمال کر سکتے ہیں۔

مجھے پوری امید ہے کہ اس تبدیلی کے بعد پی آئی اے بہتر ہوگی کیونکہ عارف حبیب ہوں یاگوہر اعجاز، یہ سب بہترین کاروبار کرنا اور کوالٹی پراڈکٹ دینا جانتے ہیں۔ چیخم دھاڑم گروپ سے کہنا ہے کہ پی آئی اے پاکستان کی ائیرلائن ہی رہے گی مگر تم بھی پاکستانی بن جائو، مجھے اس کا طریقہ بتائو۔