Friday, 29 August 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Nawaz League, Aik Ba Shaoor Jamaat

    Nawaz League, Aik Ba Shaoor Jamaat

    حالیہ ایسی کئی پیش رفت ہیں جن میں سیاسی جماعتوں اوران کے کارکنوں کے رویوں کا تقابلی جائزہ لیا جاسکتا ہے جیسے ابھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور مسلم لیگ نون کے حامیوں کا اس پر سوشل میڈیا پر ردعمل۔ پارٹی کے جو لوگ معاشی معاملا ت اور وزیراعظم کی نیت اور اہلیت دونوں کوجانتے اور سمجھتے ہیں انہوں اُمید ظاہر کی کہ جو حکومت سوا تین سو روپے لیٹر پر پہنچنے والا پٹرول واپس اڑھائی سو روپے سے بھی نیچے لائی تھی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوبارہ بہتری کرے گی مگر جذباتی ہو کے فوری ردعمل دینے والوں نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرینڈز کو مضبوط کیا مگر اس کا بھی ایک پہلو شاندار ہے، مزے دار ہے کہ مسلم لیگ نون کے پاس ایسے کارکن اورسوشل میڈیا ایکٹیویسٹ موجود ہیں جو ذہنی غلام نہیں ہیں، جو قیادت کے ہر فیصلے کی آنکھیں بند کرکے حمایت نہیں کرتے، یہ جس بات کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اس پر ردعمل دیتے ہیں۔ یہ سوال کرتے، بہتری کے مطالبے کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ماضی میں پی ٹی آئی کی اندھی حمایت کرنے والے مقبول اینکر پرسن اقرار الحسن نے بھی اس فرق کو محسوس کیا اور اس کا اعتراف کیا۔

    مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ان کے مقابلے میں کوئی سیاسی کارکن نہیں، نہ کوئی انقلابی ہے اور نہ جمہوری۔ پاکستان کی خالق جماعت کو پی ٹی آئی کی صورت میں ایک کلٹ کا سامنا ہے جس کے بیشتر لوگ رفتہ رفتہ اپنے لیڈر کے سکھائے تعصب اور دی ہوئی نفرت میں اندھے ہو چکے ہیں، فہم و فراست اور جرأت والے کم ہی رہ گئے ہیں۔ یہ اپنے لیڈر کے کردار پر سوال نہیں کرتے۔ میں کیلی فورنیا کی عدالت سے کالاباغ اور پاک پتن تک سے وابستہ معاملات کو ڈسکس نہیں کرنا چاہتا مگرا تنا ضرور کہوں گا کہ جو اپنے لیڈر کے کردار پر سوال نہ کرے اسے سیاسی کارکن کہلانے کا حق ہی نہیں ہے۔ یہ اچھے سیاسی کارکن کی سوچ اور فکر کی ترجیحات سے محروم ہوچکے۔

    ایک اچھا سیاسی کارکن ہمیشہ اپنے مذہب اور اپنے وطن کو اپنے سیاسی مفاد پر اہمیت دیتا ہے مگر یہ ایسے نامراد ہیں کہ پاک بھارت جنگ میں تجزیے دیتے ہیں کہ نریندر مودی کے لئے بھارت پر حملہ کرنے کا یہ بہترین وقت ہے کیونکہ ان کی جماعت اس وقت اقتدار میں نہیں ہے۔ یہ سوچ کہتی ہے کہ اگر ان کے پاس حکومت نہیں ہے تو پھر خدانخواستہ یہ ملک ہی نہیں ہے۔ ان کے لیڈر نے بھی ایسا ہی کہا تھا کہ اگر اس کی حکومت بحال نہیں ہوتی تو پاکستان پر ایٹم بم گراد یا جائے مگر دوسری طرف بغاوت نیچے سے اوپر تک ہر جگہ موجود ہے۔ آپ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیانات ہی پڑھ لیجئے یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کا کوئی رکن، سپیکر اورچیئرمین سینٹ کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید کر رہا ہے۔

    مسلم لیگ نون کا کارکن اس جدید سوچ کا حامل ہے جس پر ترقی یافتہ ممالک میں انتخابی مہمیں چلتی ہیں جن میں اوئے توئے نہیں بلکہ کارکردگی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ عوام کے لئے بنائے گئے پراجیکٹس کی بات ہوتی ہے۔ معیشت میں بہتری کے اعداد وشمار پیش کئے جاتے ہیں۔ میں اگر یہ کہوں کہ مسلم لیگ نون کا کارکن، مسلم لیگ نون سے بھی پہلے اپنے وطن کو رکھتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ میاں نواز شریف کے ساتھ اس لئے نہیں ہے کہ وہ پنجابی ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ اس ملک کو معاشی طاقت بنانے کی بات ہویا ایٹمی طاقت بنانے کی، سب کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو ہی جاتا ہے۔

    ایک وقت تھا کہ شیر شاہ سوری کا نام جی ٹی روڈ بنانے کی وجہ سے بہت بڑا تھا مگر اس شیرشاہ سوری کے مقابلے میں میاں نواز شریف کی بنائی ہوئی موٹرویز اور ہائی ویز کی لمبائی کہیں زیادہ ہے اور اب میاں شہباز شریف کے دور میں ماضی کے بھی تمام ریکارڈز توڑے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا کارکن فخر محسوس کرتا ہے کہ اس کی پارٹی کی حکومت میں بھارت کا مقابلہ یوں کیا گیا کہ چارگھنٹے میں دشمن کو سیز فائر پر مجبور کر دیا گیا مگر کیا پی ٹی آئی کا کارکن سوال کرتا ہے کہ جب سقوط سری نگر ہوا تھا تو اس کی حکومت اور وزیراعظم نے کیا ردعمل دیا تھا۔ وہ دو جمعے ایک ٹانگ پر آدھے گھنٹے کھڑے رہے تھے۔ پاکستان پر عمران خان اور کورونا آگے پیچھے ہی مسلط ہوئے تھے اور دونوں نے ایک ساتھ مل کر معاشی تباہی دی تھی، مہنگائی اور بے روزگاری دی تھی۔

    عمران خان گرفتار ہوا تو پی ٹی آئی کے سیاست کے نام پر کلٹ نے نو مئی برپا کیا۔ اس سے پہلے بدمعاش ٹولہ مبینہ طور پرفیض حمید کے بھیجے ہوئے ریٹائرڈ بریگیڈئیروں کی قیادت میں پولیس اور رینجرز پر پٹرول بموں سے حملے کرتا رہا۔ اسلام آباد میں آگ لگاتا رہا۔ چھبیس مئی کی فائنل کال ان کے فساد اور جھوٹ کی انتہا تھی۔ سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف بھی اس سے پہلے گرفتار ہوئے اور ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئے۔ اس وقت بھی ہوئے جب وہ وطن واپس لوٹے تھے اور انہیں ائیرپورٹ سے ہی بیٹی کے ساتھ ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

    ان کی ہوائی جہاز میں لے جانے کے دوران بھی ہتھکڑیاں لگانے کی تصویریں وائرل ہوئیں تو کیا مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے بھی اپنے ملک اور اداروں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو پی ٹی آئی والوں نے باقاعدہ طور پراپنے عہدیداروں کی قیادت میں کیا، ہرگز نہیں، وہ شہباز شریف کی قیادت میں ایک بڑے جلوس کی صورت میں ائیرپورٹ کے قریب تک گئے مگر ایک گملا نہیں توڑا کیونکہ ہر گملا ان کے اپنے ملک کا تھا، ان کا اپنا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میاں نواز شریف اور ان کے کارکنوں کو ان کے صبرو تحمل کا پھل دیا۔ نواز شریف تین بار منتخب وزیر اعظم ہی نہیں بنے بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مارشل لا کو شکست دے کر اقتدار میں آنے والے سیاستدان بھی بنے۔ یہ سب کچھ ان کے تدبر اور فراست سے ہی ممکن ہوا۔ انہوں نے کبھی اپنے کارکنوں کو ملک کے خلاف نہیں اکسایا، بھڑکایا۔

    میں جانتا ہوں کہ بہت کچھ اچھا ہونا چاہئے جیسے پنجاب میں کسانوں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ معاملات۔ کسان نالاں ہیں کہ ان کی چار چار ہزار روپے من میں بکنے والی گندم اڑھائی ہزار من میں بھی نہیں بکی اور یہ کہ بہت سارے اساتذہ نے مجھے بتایا ہے کہ ان کی تنخواہوں سے اسی، اسی ہزار ا ور ایک، ایک لاکھ تک کی کٹوتی کر لی گئی ہے کہ انہیں غلط ٹیکس ریبیٹ دیا گیا تھا اور یہ بھی کہ پنجاب کے سرکاری ملازمین کو ہمیشہ سے وہ اضافہ نہیں ملتا جو وفاق، سندھ اور کے پی کے ملازمین کو مل جاتا ہے مگر یہ سب قربانی دیتے ہیں، صبرکرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا ووٹراپنا مفاد اپنے ملک پر قربان کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی ترقی چاہتا ہے، اس کا ہر کارکن سونے سے تولے جانے کے لائق ہے۔