بالی ووڈ کی ساڑھے تین کروڑروپوں سے بنی ہوئی فلم دھرندر، ثابت کر رہی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ویژن اور پاکستان کا قیام سوفیصد درست تھا اور یہ بھی بھارت کے شہریوں کی اکثریت نفرت اور تعصب کا شکار ہے۔ انہیں کوئی بھی پاکستان کے خلاف باتیں کرکے بے وقوف بنا سکتا ہے جیسے بہار کے انتخابات سے پہلے نریندر مودی نے اپنی اور بی جے پی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو بچانے کے لئے پہلگام کا فالس فلیگ کیا، سات اور آٹھ مئی کو پاکستان پر حملہ کیا اور دس مئی کو دندان شکن جواب میں بدترین شکست کھائی۔
یہ بھارت کی بدترین ناکامی تھی مگر بی جے پی بہار کے انتخابات میں کامیاب ہوگئی۔ یہ بھارتیوں کی کم فہمی ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اب بھی ان کے دیہات میں آدھے لوگ لیٹرینوں سے محروم ہیں اور ہر روز ان کے دو سے تین درجن کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ نریندر مودی کا بدترین ایڈمنسٹریشن پر گریبان پکڑیں، وہ اس کے ڈبے میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔
بالی ووڈ نے بارڈر ٹو، کاٹریلر بھی جاری کر دیا ہے اور اس سے پہلے دھرندر فلم ریلیز ہوئی ہے۔ یہ انہی فلموں کا تسلسل ہے جو پہلے بنائی جاتی رہیں جیسے ایک تھا ٹائیگر یا ٹائیگر زندہ ہے، فانٹم، مشن مجنوں اور اُری دی سرجیکل سٹرائیک۔ اُری دی سرجیکل سٹرائیک کا پروڈیوسر بھی وہی ہے جو دھرندر کا ہے یعنی آدتیہ دھر۔ کہانی اس کی یوں بنائی گئی ہے کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد بھارتی خفیہ ایجنسی را کا افسر جے سنیال (آر مادھون) فیصلہ کرتا ہے کہ دشمن کے گھر میں گھس کے اس کا نیٹ ورک تباہ کیا جائے جس کے لئے رنویر کو فلم کا ہیرو جسکرنت سنگھ بنا کے حمزہ علی عباسی کے روپ میں پاکستان میں داخل کردیا جاتا ہے۔ وہ کراچی میں پہنچتا ہے اور وہاں اکشے کھنہ رحمان ڈکیت، سنجے دت ایس پی چودھری اسلم اور ارجن رام پال کو آئی ایس آئی کے میجر اقبال کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔ ساڑھے تین گھنٹے سے زیادہ کی بکواس فلم کے آخر میں انڈین ایجنٹ، رحمان ڈکیت کو مار دیتا ہے اور ابھی اس فلم کا سیکوئل مارچ میں ریلیز کیا جا رہا ہے۔ فلم یہ بتاتی ہے کہ ہندوستانیوں کو پاکستان کی دشمنی کے نام پر آسانی سے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور بیشتر ہندوستانی آج بھی ویسے ہی انتہا پسند اور احمق ہیں جیسے وہ برصغیر کی تقسیم کے موقعے پر تھے۔
میں اس فلم کے بارے بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ فلم بالی ووڈ کی اپنی ہی خفیہ ایجنسی را کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ جب اس فلم کو بنایا جا رہا ہے، سنسر بورڈ اس کو سرٹیفیکیٹ جاری کر رہا ہے اور بھارتی سینما گھروں میں اس کی نمائش ہو رہی ہے تو یہ ثابت کر رہی ہے کہ پاکستان کی حکومت، فوج اور آئی ایس آئی کے یہ الزامات سو فیصد درست ہیں کہ بھارت سرحد پار ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اس کا ثبوت ہمارے پاس کلبھوشن کی صورت بھی موجود ہے اوراس کے جعفر ایکسپریس کوئٹہ ریلوے اسٹیشن اور بنوں کینٹ پر حملوں سے بھی۔ مگر یہ فلم خود ظاہر کر رہی ہے کہ بھارت اپنے ایجنٹوں کو غیر قانونی طور پر سرحد پار کرواتا ہے اور وہ بارڈر پار جا کے قتل وغارت اور دہشت گردی کرتے ہیں۔
اسی فلم کا دوسرا پہلو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کا آپس میں ناپاک گٹھ جوڑ ہے کیونکہ فلم کے ہیرو کو واہگہ سمیت پاک بھارت کسی بھی کراسنگ سے نہیں بلکہ افغانستان سے داخل کروایا جاتا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو یہ کہنا کہ اس کی طرف سے دہشت گرد آتے ہیں لہذا سرحد بند رکھی جائے اور یہ کہ بغیر ویزہ کوئی انٹری نہ ہو، سو فیصد درست ہے۔ بنیادی طور پر یہ فلم ان بھارتیوں کے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے اور ان کے سیاستدانوں کے آنسو پونچھ رہی ہے جو دس مئی کو پاکستان کی بہادر افواج کے ہاتھوں بدترین شکست کھا چکے اور اب ان کے پاس اپنی فلموں میں فاتح ہونے کا ہی آپشن باقی بچا ہے۔
دھرندر، کی سٹوری پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت کی دنیا بھر میں کی جانے والی دہشت گردی کو بے نقاب کرتی ہے جیسے کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل جس کے بعد کینیڈا کی حکومت نے بھارت سے سفارتی تعلقات تک ختم کر لئے۔ مودی حکومت نے سکھ فارجسٹس کے سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں پر امریکہ میں قاتلانہ حملہ کروایا جس کا مقدمہ بھارتیوں پر درج ہے اور فرد جرم عائد ہوچکی۔ یہی بھارت ہے جس کی انہی حرکتوں کے خلاف مالدیپ میں تین، چار برس پہلے بھارتیو نکل جائو، نامی مہم چلی اوراس مہم کو چلانے والی سیاستی جماعتوں نے الیکشن جیت لیا۔
نیپال میں اگرچہ ہندو اسی فیصد سے زائد ہیں مگر اسی نیپال نے انڈیا کے کیمپ سے نکل کر چین کے کیمپ میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ پاکستان اور چین کے بارے بھارت کی دشمنی سب کے علم میں ہے مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام نے بھی حسینہ واجد کوایک بڑی عوامی تحریک کے نتیجے میں فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور اس وقت وہ مودی کی گودی میں بیٹھی ہوئی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس طرح نریندر مودی کو ہر دوسرے روز جوتے مارتے ہیں وہ بھی ایک دلچسپ پیش رفت ہے۔ میری گنتی کے مطابق وہ ساٹھ بار سے زیادہ ذکر کر چکے کہ پاکستان نے بھارت کے چھ، سات یا آٹھ طیارے گرائے تھے۔ امریکہ کی طرف سے بھارت پر لگایا جانے والا پچاس فیصد سے زائد کا ٹیرف الگ ہے جس نے بھارت کی برامدات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
کہنا یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہونے کے دعوے دار ملک کے شہری یعنی بھارتی نااہل بھی ہیں کہ اگر وہ نااہل نہ ہوتے تو ان کی فوج پاکستان کی فوج کے مقابلے میں سات سے آٹھ گنا تک زائد بجٹ رکھنے کے باوجود دس مئی کو چار گھنٹوں میں ہی ڈھیر نہ ہوجاتی اور بھارت کا وزیراعظم امریکہ کے ذریعے پاکستان سے سیز فائر کی بھیک نہ مانگ رہا ہوتا۔
بھارتی احمق بھی ہیں کہ اگر وہ احمق نہ ہوتے تو اُری دی سرجیکل سٹرائیک اوردھرندر جیسی فلموں کو کبھی سنسر سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے کہ خود ان کی سرحد پار دہشت گردی کی دلیل ہے۔ ان کی دہشت گردی اب آسٹریلیا تک پہنچ چکی ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہاں فائرنگ کرنے والا ساجد اکرم تلنگانہ، بھارتی حیدر آباد کا شہری تھا اور بھارتی پاسپورٹ پر اس نے فلپائن کو وزٹ بھی کیا تھا۔
نفرت اور تعصب نے ان کی مت مار کے رکھ دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ نریندر مودی جیسے قصائی کی پارٹی کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور دھرندر جیسے فلموں کو پذیرائی بھی۔ برصغیر کی تقسیم کو ستر، اسی برس گزرنے کو آئے، مجھے افسوس ہے کہ بھارتی ہندو آج تک ذرا سے بھی نہیں بدلے۔