Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Lockdown, Maaf Kar Dijiye

Lockdown, Maaf Kar Dijiye

میں ان لوگوں کی نیت پرشک نہیں کرتا جو کرونا وائرس کے پھیلاو سے روکنے کے لئے لاک ڈاون پر اصرار کر رہے اورا ٹلی کی خوفناک دلیل پیش کر رہے ہیں مگرکیا آپ ایک ایسی حکومت سے کسی موثر لاک ڈاون کی امید رکھ سکتے ہیں جو ملک میں داخلے کے چند راستوں کی نگرانی نہیں رکھ سکی، حکومتی وزیروں مشیروں پر الزامات ہیں کہ انہوں نے سینکڑوں مریضوں کو زمینی سرحدیں پار کروا کر سندھ میں داخل کروا دیا، جب کرونا وائرس کا شور ہر طرف مچ چکا تھا تو انہوں نے پہلے ملک سے تمام سرجیکل آلات کی ایکسپورٹ پر پابند ی لگائی اور نو دن کے بعد اکٹھے چھ این او سی جاری کر دئیے، ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کے مطابق کروڑوں ماسک اور دیگر سرجیکل آلات ملک سے باہر بھیج دی گئیں۔ یہ پنجاب کی تاریخ کی وہ بدترین حکومت ہے جس کے اقدامات کے مقابلے میں کم از کم ربع صدی میں پہلی مرتبہ سندھ کے اقدامات کو مثالی قرار دیا جا رہا ہے اور آدھے سے زیادہ پاکستانیوں کا چیف ایگزیکٹو دودن تک اجلاسوں کی صدارت کرنے کے بعد پوچھ رہا ہے کہ کرونا کاٹتا کیسے ہے؟ ۔

میرے خیال میں یہ اپوزیشن ہوسکتی تھی جو کرونا کی آمد پر شور مچاتی، اسے حکومت کی نااہلی قرار دیتی مگر یہ حکومت ہے جو اپنے عوام کو اعتماد دینے کی بجائے ڈرا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا واحد مثبت بیان یہی آیا ہے کہ وہ لاک ڈاون کرنے نہیں جا رہے کہ اس کے نتیجے میں جو افراتفری پھیلے گی وہ سنبھالی نہیں جا سکے گی۔ یہ سو فیصد درست ہے کہ اگر لاک ڈاون ہوا تو ہم ایک انسانی المیہ سنبھالتے سنبھالتے دوسرا المیہ تخلیق کر لیں گے۔ لاک ڈاون کا بنیادی تعلق شہریوں کے ساتھ ہے۔ جب لاک ڈاون ہوتا ہے تو پھر شہریوں کو اپنی ضرورتیں اپنے گھر سے ہی پوری کرنی پڑتی ہیں کہ باہر نہ کوئی سرگرمی ہوتی ہے اور نہ روزگار۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کا گروتھ ریٹ اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق دو فیصد سے بھی نیچے آ چکا ہے۔ پاکستان کی تقریبا ًایک چوتھائی آبادی ایسی ہے جن کو اپنے گھر کا باورچی خانہ آباد رکھنے کے لئے ہر روز محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے اور جس روز دیہاڑی نہ لگے عین ممکن ہے کہ بہت ساروں کے باورچی خانے کا بھی اس دن لاک ڈاون ہوجائے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کے کچن بھرے ہوں، آپ نے اپنی گاڑی کی ڈگی ہی نہیں بلکہ اگلی پچھلی سیٹوں پر بھی خوراکوں کے ڈبے بھر کے لے آئے ہوں اور اب آپ ایک تھرل کے لئے تیار ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سرکاری یا کسی بڑے نجی ادارے کے ملازم ہوں اوراسی طرح چھٹیوں کا انتظار کر رہے ہوں جیسے محکمہ تعلیم والوں کو بچوں کو محفوظ رکھنے کے نام پر مل گئی ہیں۔ آپ نے نیٹ فلیکس کی پے منٹ بھی کر دی ہو اور اب آپ کرونا وائرس سے شہریوں کو بچانے کے لئے سوشل میڈیا پر ایک خوفناک قسم کے لاک ڈاون کی مہم چلا رہے ہوں۔ ویسے میری تجویز یہ ہے کہ حکومت اعلان کر دے کہ اگر لاک ڈاون ہوتا ہے تو تمام سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے اسی فیصد کٹوتی ہوجائے گی کیونکہ اس عڑصے میں نہ تو کوئی کاروبار ہو گا اور نہ ہی حکومت کو ٹیکسوں سے کوئی آمدن ہوگی لہٰذا وہ بھی قربانی دیں۔

مگر یہاں ایک طبقہ اور بھی ہے جس کے ایک گھر میں، میں آپ کو لے چلتا ہوں۔ آج سے کچھ برس پہلے لاہور کے ستو کتلہ تھانے کی حدود میں ایک ناکے پر ایک نوجوان قتل ہو گیا۔ خبر کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ وہ اپنے ایک رشتے دار کی عیادت کے بعد جنا ح ہسپتال سے سائیکل کے کیرئیر پر اپنی ماں کو بٹھائے واپس آ رہا تھا کہ لاہور کی اتھری پولیس کے جوانوں نے اسے روک لیا۔ ایک اہلکار جو اختیارات کے نشے میں چور تھا، نے اس سے پوچھا کہ یہ عورت کہاں لے جا رہے ہو۔ اس لڑکے نے وضاحت کی کہ یہ اس کی ماں ہے اور وہ ہسپتال سے واپس آ رہے ہیں۔ اہلکارموج مستی کے موڈ میں تھا، اس نے کہاکہ یہ تو اتنی جوان ہے کہ تیری ماں لگتی ہی نہیں، تم جوعیاشی کرنے جا رہے ہو وہ ہمیں بھی کروا دو، جس پر نوجوان غصے میں آ گیا اور اس اہلکار کو برا بھلا کہہ دیا۔ اس کا منطقی نتیجہ وہی نکلا جو پنجاب پولیس نکالا کرتی ہے کہ اس نے گولی چلائی اور لڑکا سڑک پر ماں کے سامنے ہی قتل کر دیا گیا۔ مجھے اس واقعے کی خبر ملی تومیں مقامی ایم پی اے کو لے کر اس عورت کے کچے ایک کمرے کے گھر میں لے گیا۔ ایم پی اے سے یقین دہانی لی کہ وہ اس غریب خاندان کی قانونی و اخلاقی مدد کرے گا اور پھر اس بات کو کئی ماہ گزر گئے۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ اس قتل کا فالو اپ کرنا چاہئے تو میں اپنی ٹیم کے ساتھ ستوکتلہ پہنچ گیا۔ اسی گھر کا لکڑی کادروازہ کھٹکھٹایا گیا تو اسی عورت نے جھانک کر باہر دیکھا اور دروازے کی کنڈی لگا لی۔ میرے لئے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔ بار بار کھٹکھٹانے پر اس نے صرف مجھے اندر آنے کی اجازت دی اور کیمرے پر بات کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ وہ کس طرح بتائے کہ اس نے پولیس والوں سے صلح کر لی ہے۔ یہ خبر میرے لئے کسی بم سے کم نہ تھی۔ میں نے تلخی سے پوچھا کہ پیسے لے لئے ہوں گے۔ جواب ملا کہ میرے گھر کی حالت کو دیکھو، لگتا ہے کہ یہاں چند سو روپے بھی آئے ہوں۔ میرے لئے اس عورت کی کہانی ناقابل فرامو ش تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ جب بھی اپنے بیٹے کے قتل کے مقدمے میں ستوکتلے سے سیشن کورٹ جاتے تھے تو جیب سے سو، ڈیڑھ سو روپے خرچ ہوجاتے تھے اور بڑھئی شوہر کی دیہاڑی الگ ٹوٹ جاتی تھی۔ انہوں نے کئی ماہ تک یہ نقصان برداشت کیا اور پھر سوچا کہ بیٹا تو چلا گیا اور اب کیا مقدمے کی تاریخوں پر جاتے ہوئے روٹی سے بھی جائیں۔ میں نے سوچا، آہ، یہ لوگ لاک ڈاون میں کیا کریں گے جواکلوتے بیٹے کے لہو کا حساب محض اس لئے نہیں لے سکتے کہ اس میں سو ڈیڑھ سو کرایہ لگ جاتا ہے۔

میرے ارد گرد ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جن کی میں نے اپنے پروگرام میں جمعے کے روزملاقات بھی کروائی۔ میں نے لال پُل، اچھرہ، چونگی امرسدھو، سیون اپ پھاٹک پر ہزاروں مجبور اور بے کس مردوں کو دیکھا ہے جو مزدور ہیں، راج ہیں، رنگ ساز ہیں، بڑھئی ہیں۔ وہ پھٹی قمیضوں میں ہیں اور ہر روز اتنا ہی کما کر لے جاتے ہیں کہ بیوی، بچوں کے پیٹ کا جہنم بھر سکیں۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ وہ بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے مرنے کو بہتر سمجھتے ہیں کہ بچوں کو بھوک سے بلکتا اور مرتا دیکھیں۔ وہ بار بار مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا عمران خان لاک ڈاون کی صورت میں انہیں روزانہ کا خرچہ دے گا تو میرے پاس اس کاکوئی جواب نہیں تھا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ جب بھی لاک ڈاون ہوا اس کے بعد اشیاءوخدمات کی فراہمی رک جانے سے ایک بدترین چکرشروع ہوجائے گا۔ اشیائے ضروریہ کا قحط ہی نہیں پڑے گا جس میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز فروشوں کی چاندی ہو گی بلکہ اصل بحران اس کے بعد ہو گا جب اپریل اورمئی میں اسی فیصد ادارے اسی اکنامک سلو ڈاون اور پھر ممکنہ لاک ڈاون کو بنیادبنا کے ادائیگیوں سے انکا رکر دیں گے۔ میرا اندازہ ہے اس کے بعد بجٹ بنانا بھی ممکن نہیں رہے گا لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ ہم لاک ڈاون کے ذریعے کرونا کے پھیلاو کو کسی حد تک روک لیں مگر اس کے بعد جو ہو گا اس کے بارے میں صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔ لاک ڈاون کی عیاشی بھرے ہوئے پیٹوں اور بڑی بڑی جی ڈی پی رکھنے والے ممالک ہی کر سکتے ہیں۔ ہم اس ©" دیانتدار" اور " عوام دوست" حکومت سے لاک ڈاون کروا رہے ہیں جس پر کرونا وائرس کے مریض امپورٹ اور ماسک ایکسپورٹ کرنے کا ہی الزام نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ چین سے آنے والی کرونا کی ہزاروں ٹیسٹنگ کٹس وزیراعظم کے پرائیویٹ ہسپتال کو فراہم کر دی ہیں جو اس پر نو سے دس ہزار روپے لے کر کرونا ٹیسٹ کر رہا ہے اور اربوں روپے چھاپ رہا ہے۔