Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Laadlon Ne Chand Manga Hai

Laadlon Ne Chand Manga Hai

یہ بات فردوس عاشق اعوان اور عثمان ڈارکو بتانے والوں نے بتا د ی تھی کہ آپ ڈسکے سے ظاہرے شاہ کی سیٹ نہیں جیت سکتے، نون لیگ کی ٹکٹ پر ظاہرے شاہ خود کبھی نہیں ہارے تو اس فضا میں ان کی بیٹی کیسے ہار سکتی ہے۔ ان کے سامنے رائے عامہ کے ظاہر کئے جانے والے اور نہ ظاہر کئے جانے والے تمام سروے رکھے گئے تھے جن کے مطابق نواز لیگ کی مقبولیت پی ٹی آئی کے کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ انہیں یہ بھی کہا گیا تھاکہ مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن نے صورتحال عام انتخابات سے بھی بری کر دی ہے لہٰذا گر نون لیگ کی سیٹ نون لیگ کو ہی جانے دی جائے تو کوئی حرج نہیں کہ کون سا اس ایک سیٹ سے حکومت تبدیل ہوجائے گی مگرلاڈلوں کااصرار تھا کہ وہ انہیں کھیلنے کے لئے چاند ہی چاہیئے۔ دونوں سمجھتے تھے کہ انہوں نے سیالکوٹ ہی نہیں بلکہ ملحقہ اضلاع گوجرانوالہ، گجرات اور نارووال میں بھی اپنی کرشماتی قیادت سے انقلاب برپا کر دیا ہے جس کا اس الیکشن کے ذریعے ظاہر کیا جانا ضروری ہے۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس پورے گروپ کا خیال تھا کہ اگر چیف سیکرٹری اورآئی جی آپ کے وفادار ہوں تو کوئی بھی الیکشن جیتا جا سکتا ہے۔ ان کی منصوبہ بندی تھی کہ ڈسکہ، سیالکوٹ سے بہت قریب ہے اور اگروہ ڈسکہ جیت جائیں تو جیت کے اس کے سفر کو سیالکوٹ تک بھی لایا جا سکتا ہے۔

دروغ بہ گردن راوی، پی ٹی آئی والوں کا خیال تھا کہ انہیں اسی ضمنی الیکشن سے اگلے عام انتخابات میں کامیابی کے لئے پریکٹس شروع کر دینی چاہئے اور یہ کامیابی ناقص حکمرانی کے ایک تاریخ ساز دور کے بعد دھونس اور دھاندلی سے مل سکتی ہے جس کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ صوبے کے انتظام و انصرام اور سیکورٹی کے تمام اعلیٰ ترین دفاتر کو پیغامات بھجوائے جا چکے تھے کہ آپ نے پی ٹی آئی کی بی ٹیم نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی بن کر کام کرنا ہے۔ پلاننگ یہ بھی تھی کہ جن جن علاقوں میں نواز لیگ کی مقبولیت دو تہائی سے بھی زیادہ ہے وہاں اتنی ہنگامہ آرائی کی جائے کہ وہاں کا شریف ووٹر جان کے خوف سے پولنگ سٹیشن کا رخ ہی نہ کرے اور اس کے بعد کی ذمہ داری پریذائیڈنگ افسران پر تھی اور اس کے لئے نئے پاکستان کے حامیوں کے نام مارک کرلئے گئے تھے۔ الزام یہ بھی ہے کہ ضمنی انتخاب کے موقعے پر ڈسکے میں ہونے والی فائرنگ اوراموات باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ تھیں اور یہ بھی کہ اگر اس میں اپنا بھی جانی نقصان ہوجائے تو اسے کولیٹرل ڈیمج سمجھا جائے کہ جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔

پولنگ ختم ہو چکی تھی اور ہر طرف سے یہی آواز آ رہی تھی کہ نون لیگ نے میدان مار لیا ہے۔ سب سے بڑی خبر تو خیبرپختونخوا سے آئی تھی جہاں نواز لیگ کے اختیار ولی نے اکیس ہزار ووٹ لیتے ہوئے پی ٹی آئی کی خالی کی ہوئی خیبرپختونخوا اسمبلی کی سیٹ جیت لی تھی۔ وزیر آباد بھی کلئیر تھا مگر سب کی توجہ قومی اسمبلی کے حلقے پر تھی۔ پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے مرکزی دفاتر میں بھی براہ راست پولنگ اسٹیشنوں سے نتائج کی وصولی کا کام جاری تھا جن میں نون لیگ آگے تھی کہ اچانک اطلاعات ملنا بند ہو گئیں۔ دو درجن کے قریب پریذائیڈنگ افسران ایسے تھے جنہوں نے نتائج جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مریم نواز نے ان اطلاعات کے ملنے پر ہی نتائج تبدیل کرنے والوں کے لئے نتیجہ بھگتنے کا ٹوئیٹ کر دیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق مقامی سطح پر پوری طرح رابطے میں تھے ااور سب سے پہلے ان کا ہی تہلکہ خیز ٹوئیٹ آیا تھا کہ پولنگ بند ہوئے آٹھ گھنٹے گزر چکے مگر بیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسران جو بمعہ پولنگ بیگز کے ریٹڑننگ افسر کے دفتر جانے کے لئے نکلے تھے وہ وہاں پہنچے ہی نہیں تھے۔ انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں کے نمبر بھی دے دئیے تھے جودو، تین، چھ، سات، آٹھ، نو، گیارہ، بائیس، تئیس، چوبیس، چھبیس، پینتالیس، سینتالیس، انچاس، پچاس، اکاون، نوے، اکانوے، بانوے اور ایک سو چالیس تھے۔ ڈان کے گجرات سے سینئر کارسپانڈنٹ وسیم اشرف بٹ نے بھی صورتحال ٹوئیٹ کر کے بتا دی تھی اور سب سے اہم یہ کہ چیف الیکشن کمشنر بھی ان پریذائیڈنگ افسران کو تلاش کر رہے تھے۔ ان کے فون نمبروں پر بار بار کال کی جا رہی تھی مگر ان سب کے فون بند تھے۔ چیف الیکشن کمشنر، رات کو تین بجے تک آئی جی، کمشنر، ڈپٹی کمشنر ہر عہدے دار سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر الیکشن کے ضلعے کی سب سے بڑی اتھارٹی حکومتی عہدیداروں سے کسی قسم کے رابطے میں کامیاب نہیں ہورہی تھی۔ اس سے پہلے نواز لیگ کے کارکن ان لوگوں کوپکڑ چکے اور ان کی ویڈیوز بناچکے تھے جو پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹوں کے بیگ لے کر غائب ہو رہے تھے اور ان میں جعلی ووٹ بھرے جا رہے تھے۔

یہ بات الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز سے بھی واضح ہوتی ہے کہ پوسٹ پول رگنگ بھی آئی جی پنجاب کی سرپرستی میں ہو رہی تھی اور بہت کوشش کے بعد چیف الیکشن کمشنر کو جو عہدے دار دستیاب ہوا تھا وہ چیف سیکرٹری تھے اور انہوں نے پولیس کی نفری کے ساتھ غائب ہوجانے والے پریذائیڈنگ افسران کو آر او آفس پہنچانے کی یقین دہانی کروائی مگر وہ گھنٹوں بعد پہنچے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ جب ایک جنگ لگی ہوئی تھی تو اس وقت آئی جی صاحب سو رہے ہوں یا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر دستیاب نہ ہوں۔ صبح سورج نکلنے کے بعد بیس سے زائد پریذائیڈنگ افسران ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچے تھے مگرجہاں ان کی صبح ان کی رات کی کہانی سنا رہی تھی وہاں ان کے ووٹوں کے تھیلے اسی طرح بول رہے تھے جس طرح اس لڑکی کے کپڑے بولتے ہیں جس کی اغواکے بعد رات بھر عصمت دری ہوتی رہی ہو۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا کہ وہ نتائج کو روک دے مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے کی تحقیقات سے کچھ نہیں بنے گا کیونکہ پورا ریاستی نظام اوربیوروکریٹک ڈھانچہ اس دھاندلی کو سپورٹ کر رہا ہے۔

سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ لاڈلے بچے اکثر کھیلنے کے لئے چاند مانگ لیتے ہیں۔ ان کا دل ایسے قیمتی کھلونوں پر مچل جاتا ہے جو وہ قانونی اور اخلاقی طور پر حاصل نہیں کرسکتے تو ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کوان کی اوقات سمجھائیں لیکن اگر والدین بچوں کی ضد کے سامنے مجبور ہوجائیں تو بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ والدین کو چوری کرتے ہوئے بدنامی مول لینا پڑتی ہے۔ میں جناب عمران خان کی بات کر ررہا ہوں جو کچھ ماہ پہلے ہی الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے ایسے انتخابات کے وعدے کر رہے تھے جو سب کے لئے قابل قبول ہوں مگران کے دعووں کے بعد ہونے والی پہلے ضمنی انتخابات میں ہی سب پول کھل کر رہ گئے ہیں۔ یقینی طورپر ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں دھونس اور دھاندلی کی ایک نئی تاریخ لکھی گئی ہے۔ ایک کامن سینس کا سوال سب کر رہے ہیں کہ ہر طرف مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، کرپشن ہے مگر پنجاب کے ایک ضلعے میں ہونے والے الیکشن میں حکمران جماعت نے اپوزیشن کے گڑھ میں، اس کی طرف سے جیتی گئی نشست پر، عام انتخابات سے بھی کہیں زیادہ ووٹ حاصل کر لئے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟