Monday, 21 April 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Najam Wali Khan
  4. Hum Madaniyat Na Nikalen?

Hum Madaniyat Na Nikalen?

یہ ایک نکتہ نظر ہے جو پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم کے مخالفین کی طرف سے اپنا یا جا رہا ہے، جی ہاں، وہی سرمایہ کاری فورم جس سے وزیراعظم شہباز شریف اورآرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے خطاب کیا، نو اور دس اپریل کو اسلام آباد میں ہونے والے اس فورم میں دو ہزار مندوبین نے شرکت کی جن میں سے تین سو غیر ملکی تھے۔

عمومی طور پر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ پاکستان میں چھ سے نو ٹریلین ڈالرز کے ساڑھے نو سو سے زیادہ معروف معدنی ذخائر موجود ہیں جیسے پنجاب کا نمک اور لوہا، سندھ کا کوئلہ، بلوچستان کی گیس تانبا سونا، خیبرپختونخواہ کا ماربل اور جیم سٹونز، گلگت بلتستان کے ہیرے جواہر وغیرہ وغیرہ مگر جی ڈی پی میں معدنیات کا شئیر تین چار فیصد کے ارد گرد بھی نظر نہیں آتا۔

میں جب معدنیات نہ نکالنے کا نکتہ نظر بیان کرنے لگا ہوں تو وہ بھی یاد آ رہے ہیں جو کہتے تھے کہ میٹروز او رموٹرویز نہیں ہونی چاہئیں، جو سی پیک، گوادر پورٹ اور ریکوڈک جیسے منصوبوں کے آج بھی مخالف ہیں۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ بنیادی طور پر یہ پاکستان کی ترقی کے مخالف ہیں۔

میں نے سفید بالوں اور پکی عمر والے ایک ماہر کو سنا، میں نام نہیں بتائوں گا کیونکہ میرا دل ایسے نام نہاد ماہرین کی باقاعدہ بے عزتی کرنے کو کرتا ہے۔ اس نے کہا، معدنیات گورے کی امانت ہیں اور اس نے افریقہ کی مثال دی۔ اس نے کہا غریب ملک معدنیات نکالنے جائے گا تو خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا (مجھے یہ بات تجزیئے سے زیادہ دھمکی لگی)۔ جب تک اس کی اپنی ٹیکنالوجی اس قابل نہیں ہوجاتی، ادارے مضبوط نہیں ہوجاتے معدنیات کو زمین کے نیچے ہی رہنے دیں ورنہ گورا نکال کے لئے جائے گا، ایک کھڈا چھوڑ جائے گا جو آپ کو خود بھرنا پڑے گا اوراس میں اس نے ریکوڈک اور سینڈک کی بھی مثالیں دیں۔

مجھے اس کی مثالوں پر ہنسی آ گئی کہ ایسی ہی نام نہاد حب الوطنی کے نام پر ایک سابق چیف جسٹس، پاکستان کو کئی سو ارب ڈالر کا جرمانہ کروا چکا ہے، خدا کا شکر ہے کہ وہ ہمیں ادا نہیں کرنا پڑا ورنہ ہم اسی چکر میں دیوالیہ ہوجاتے۔ ہمارے پاس ہرجگہ ایسے نام نہاد ماہرین موجود ہیں جو دلائل دیتے پھرتے ہیں معدنیات نہ نکالو، ایٹمی پروگرام مت چلائو، میٹرو اور موٹرویز مت بناو وغیرہ وغیرہ یعنی ہر کام سے روکنے والے ماہرین۔ کیا انہیں ماہرین کہنا چاہئے، کام روکنے والا کب سے ماہر ہوگیا؟

بہرحال، میں نے اس گھونچو کی مختصرسی ویڈیو سنی، یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ خزانے اپنی آنے والے نسلوں کے لئے محفوظ رکھے جائیں۔ پہلے میں ذرا نسلوں والی بات سے تو نمٹ لوں۔ ہماری مائیں بچے پیدا کرتے ہوئے مر رہی ہوں، بچے بھوک اورجہالت کا شکار ہوں، غربت اور بے روزگاری سے تنگ ہوں تو میں گھر میں خزانہ آنے والی کون سی نسلوں کے لئے محفوظ رکھوں۔ مجھے ان گھونچوئوں سے کہنا ہے کہ آنے والا دور نالج اور ٹیکنالوجی کا ہے اور یہ دولت سے ملتے ہیں۔

میرے گھر میں پڑا ہوا سونا اگر میرے بچوں کی زندگی، صحت اور تعلیم پر خرچ نہیں ہونا تو پھر اس سونے کو چاٹنا ہے؟ بچوں کے لئے جائیدادیں چھوڑ کر جانے کی وکالت کرنے والو، اگر تمہارے بچے ذہین اور قابل ہیں تو ان کے لئے جائیدادیں چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں، وہ خود بنا لیں گے اور اگر وہ نکمے اور نااہل ہیں تو ان کے لئے بھی جائیدادیں چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں، وہ انہیں تباہ کر دیں گے اور خود برباد ہوجائیں گے۔

یہ دنیا بدل چکی، یونیورسل ویلج بن چکی، اب کسی کے پاس معدنیات ہیں تو کسی کے پاس اس کی تعلیم، کسی کے پاس مہارت ہے تو کسی کے پاس مشینری، یہی سب مل کر انہیں نکال سکتے ہیں اور یہ قدرت کا اس دو ر میں دیا ہوا توازن ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ سی پیک بنے نہ گوادر، نہ ہی معدنیات سے فائدہ اٹھایا جائے، بس انہیں ترقی اور خوشحالی سے دور کرتے ابہاموں میں الجھائے رکھو، انہیں آپس میں لڑائے رکھو جیسے نہروں کا معاملہ۔ بھارت نے ہزاروں ڈیم بنا لئے اور سینکڑوں نہریں نکال لیں مگر ہم کتنے عجیب ہیں کہ ڈیم نہیں بنانے دیتے، نہریں نہیں کھودنے دیتے، ہم یہاں اپنے ہر دشمن کے مفاد کو پورا کرتے ہیں خود کو پسماندہ رکھ کے۔

آج کے دور میں تعمیر اور ترقی کے خلاف ہر دانش اور ہر دلیل کچرے کا ڈھیر ہے، غلیظ ہے، بدبُودار ہے۔ جو بلوچ کہتے ہیں کہ گوادر کو دوبئی بنائیں گے مگر گوادر میں پنجاب، سندھ اور کے پی والوں کو نہیں بسنے دیں گے کہ وہاں کے مقامی اقلیت بن جائیں گے تو دوبئی کی آبادی تقریباً چار ملین ہے اور اس میں اماراتی تو صرف آٹھ سے بارہ فیصد کے درمیان ہیں، پچاسی سے نوے فیصد تو غیر ملکی ہیں جنہوں نے دوبئی کوواقعی دوبئی بنا دیا ہے، ہم تو غیر ملکیوں کی بات ہی نہیں کرتے، ہم تو پاکستانیوں کی کرتے ہیں، اپنوں کے آباد ہونے کی کرتے ہیں۔

واپس معدنیات کی طرف آتے ہیں، اگر ہم ان لال بجھکڑوں کی بات مان لیں تو پھر سعودیوں اور اماراتیوں نے کیوں نہیں تیل اپنی آنے والی نسلوں کے لئے بچا کے رکھا جب سعودیوں نے 29 مئی1933ء کو امریکی کمپنی سٹینڈرڈ آئل آف کیلیفورنیا کے ساتھ معاہدہ کیا اور بعد میں اسی کمپنی کانام عربین امریکن آئل کمپنی رکھا گیا جسے آپ آرامکو کے نام سے جانتے ہیں، 1988ء میں یہ مکمل طور پر سعودی قبضے میں سعودی آرامکو بن گئی۔ تیل کی تلاش، ڈرلنگ اور پیداوار کے عمل میں ٹیکساکو، ایکسن اور موبیل کمپنیوں نے بھی اہم کردارادا کیا۔

سوچیں، اگر وہاں بھی ایسے ہی دانشور ہوتے تو اس صدی میں سعودی اپنا تیل کسے بیچتے جب دنیا تیزی کے ساتھ سورج اور ہوا جیسی متبادل توانائیوں پر منتقل ہو رہی ہے اور اگر سعودی اپنی اگلی نسلوں کے لئے تیل بچا کے رکھ لیتے تو اسے پھر اب خود ہی پیتے کیونکہ تیل کی مارکیٹ اگلی ربع صدی میں بڑی حد تک ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس عرصے میں سعودی بڑے آرام کے ساتھ ہزاروں ارب ڈالر کما چکے ہیں، اسی سے اندازہ لگائیں کہ 2018ء میں اس کمپنی نے ایک سو گیارہ جبکہ2022ء میں 161 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا منافع کمایا اور ہم ایک ایک ارب ڈالر کے لئے منتیں محتاجیاں کر رہے ہیں۔ یہی کہانی کم و بیش یو اے ای کی ہے جس کی مدد برٹش پٹرولیم اور شیل جیسی کمپنیوں نے کی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم خام مال نہیں بلکہ ویلیو ایڈیشن کرکے دیں گے جو بہترین حکمت عملی ہے۔ پیارے پاکستانیو! جو ہوسکتا ہے کر گزرو اور ایسے دانشوروں سے نجات حاصل کروجیسے ہم موٹروے بنانے لگے تو وہ چیخے مت بناؤ۔ نوے کی دہائی میں جو موٹروے ہم نے چالیس ارب میں بنائی اب ہم موٹرویز کی دیکھ بھال کے ٹھیکے اس سے زیادہ میں دیتے ہیں۔ یااللہ ہمیں ایسے نہلے، نکمے، عاقبت نااندیش دانشوروں سے بچا، آمین۔