یہ ایک قومی، علمی یا تحقیقی بحث نہیں ہے بلکہ محض بغض اور نفرت کا اظہار ہے جس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے دئیے ہوئے ظہرانے میں شرکت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پر ایسے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں جیسے پاک بھارت جنگ سے پہلے مودی کی فوجی طاقت کے حوالوں کے ساتھ پاکستان کی کامیابی پرظاہر کئے جا رہے تھے۔ اگر ہم سوالات اٹھانے والوں کو دیکھیں تو یہ ایک مخصوص گروہ ہے جو جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور سے ہی متحرک ہے۔ جو چاہتا تھا کہ فوج، سابق وزیراعظم عمران خان کے اتحادیوں پر ڈنڈا چلاتے ہوئے انہیں مجبور کرتی کہ وہ ایک نااہل اور ناکام حکومت کا بوجھ اٹھائے رکھیں۔
جب فوج نے یہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام نہیں کیا تو انہوں نے اسی فوجی سربراہ کے خلاف میر جعفر اور میر صادق ہونے کی مہم چلا دی جس کے بارے میں ان کے اپنے رہنما کہتے ہیں کہ وہ ان کے لئے باپ کادرجہ رکھتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے نو مئی برپا کیا، پاکستان کو دیوالیہ کرنے کی سازش کی اور پاکستان کے خلاف امریکی ایوانوں سے قراردادیں تک منظور کروائیں۔ اب اسی امریکہ نے پاکستان کو عزت دی ہے، اسی امریکہ کے صدر نے پاکستان کو شاندار کہا ہے اور اس کی قیادت کو مضبوط تو انہیں سادہ سے الفاظ میں مرچیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ ایک پروپیگنڈہ مہم ہے جس میں بھارت سے مودیے اور پاکستان سے یوتھیے یکساں طورپر شامل ہیں، ان کے سوالوں کے جواب دئیے جانے ضروری ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اس وقت امریکی صدر سے ملاقات نہیں کرنی چاہئے تھی جب اسرائیل اور ایران میں جنگ ہو رہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ملاقات دس مئی کے بعد اس وقت طے ہوئی جب امریکی افواج نے پاک فوج کے سربراہ کو اپنی تاسیسی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کا فیصلہ کیا، یہ ملاقات تیرہ جون کو اچانک شروع ہونے والی ایران اسرائیل جنگ کے بعد نہ تجویز ہوئی نہ شیڈول۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ فوج کے سربراہ کی بجائے حکومت کے سربراہ کو امریکی صدر سے ملاقات کرنی چاہئے تھی تواس کے دو جواب ہیں کہ پہلے یہ بات امریکی صدر کے سوچنے کی ہے کہ وہ کس سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اگر وہ امریکی تاریخ کے پہلے صدر بن گئے ہیں جو پاکستان کے کسی آرمی چیف کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں تواس کی دلیل اور منطق موجود ہے۔ پاکستان کی فوج کے سربراہ نے دس مئی کو آپریشن بنیان مرصوص میں ایک تاریخ رقم کی ہے۔
دنیا کی جدید ترین جنگ میں کم ترین وقت میں اپنے سے چھ سے آٹھ گنا بڑی طاقت کوگھٹنوں پر لائے ہیں۔ اس ملاقات کو خود امریکی صدر اپنے لئے اعزاز کہہ رہے ہیں اور مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ ملاقات خود پاکستان کے لئے اعزاز ہے۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا پاک فوج کے سربراہ نے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کی، ہرگز نہیں، اس وقت فوجی اور سیاسی طاقتوں میں بہترین ورکنگ ریلیشن شپ موجود ہے۔ غلط وہ اقدامات ہوتے ہیں جو آئینی حکومتوں اور سیاسی قیادتوں کو لاعلم رکھ کر کئے جائیں اور پھر ان کے نتائج کی قیمت پوری قوم ادا کرے۔
پروپیگنڈہ ہے کہ فیلڈ مارشل کی ملاقات میں پاکستان نے ایران کے خلاف اڈے دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے جو اسی بھارتی میڈیا کی ہرزہ سرائی ہے جو دس مئی کو پاکستان کے کراچی سے لاہور تک ہر شہر پر قبضے کر رہا تھا۔ یہ گروہ انڈین ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ابھی تک امریکہ نے ایران پر حملے کا فیصلہ ہی نہیں کیا اور دوسری یہ کہ امریکہ کے پاس خطے میں ایسی متعدد بیسز موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان کی مدد لئے بغیر کارروائی کر سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس مکالمے میں تنازعے کے پر امن حل پر اتفاق ہوا۔ جیسے ہی یہ ملاقات ختم ہوئی اس کے ساتھ ہی امن والے راستے کی رکاوٹیں دور ہونے لگیں جیسے امریکی صدرکا بیان کہ وہ ایران سے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کرتے اور نہ ہی ڈیل کا امکان رد کرتے ہیں جیسے سلامتی کونسل کے اجلاس کے انعقاد اور جنیوا میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ سے مذاکرات کی خبر۔ اب یہ ایران پر تھا کہ وہ ان موقعو ں کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ ایران کے جنگی یا سفارتی فیصلوں میں پاکستان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ پاکستان اصولی اور نظریاتی بنیادوں پر ایران پر ہونے والی جارحیت کی مخالفت کر رہا ہے۔
ایک اور پروپیگنڈہ عروج پر ہے کہ دنیا میں کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا اور خاص طور پر امریکہ کا لنچ۔ سوال ہے، کس نے کہا پاکستان کو ملنے والا لنچ مفت ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ مین فرنٹ لائن سٹیٹ رہا ہے، اس نے نوے ہزار جانوں اور بلین ڈالرز کا معاشی نقصان برداشت کیا ہے، اس کی قربانیوں کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو یہ لنچ معرکہ حق کی کارکردگی پر ملا ہے اور اگر وہ بھارت کو ناکوں چنے نہ چبواتا یا خدانخواستہ دس مئی کا منظرنامہ اس کے برعکس ہوتاتو یہی پارٹی بھارت انجوائے کر رہا ہوتا۔
دنیا بہادروں اور فاتحین کو ہمیشہ سے اعزاز دیتی، ان سے ملنا اعزاز سمجھتی آئی ہے جیسے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے منہ پھٹ لیڈر نے کہا۔ اگر سقوط سری نگر پرجنگ لڑنے اور فاتح ہونے کا رسک عمران خان لے لیتے، ابھینندن کی رہائی جیسی پیٹھ نہ دکھاتے تو انہیں بھی عزت ملتی۔ کہتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ سے اسی قسم کے روئیے کا خطرہ تھا جیسا انہوں نے یوکرین کے صدر کے ساتھ رکھا مگر یہ خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا، غیر منطقی تھا کیونکہ پاکستان نے جنگ بندی کے حوالے سے ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ مہذب اور ذمے دار لوگوں کے ساتھ مہذب اور ذمہ دارانہ طرز عمل ہی روا رکھا جاتا ہے، فیلڈ مارشل ایک پروفیشنل فوجی اورایک بہادر قوم کے لیڈر کے طور پر مدعو تھے وہ نہ کوئی سابق کرکٹر تھے اور نہ ہی اداکار۔
پاکستان کی عزت، وقار اور خود مختاری کا عالم تو دیکھیں کہ جس روز فیلڈ مارشل امریکی صدر سے ملاقات کر رہے تھے عین اسی روز وہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت بھی کر رہے تھے اور اسی روز کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف بھی ایران کی حمایت کا اعلان۔
ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ ہمارے پاس ایسی کرشمہ ساز قیادت موجود ہے جو امریکہ ہی نہیں چین اور روس تک سے ایک ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے، عزت کرتی اور کرواتی ہے، وہ کارٹون نہیں جن پر دوست اسلامی ممالک کے معزز ترین سربراہان تحفے میں دی گھڑی کی فروخت کا الزام لگاتے ہیں، انہیں عزت کے ساتھ اپنا طیارہ دیتے ہیں مگر غلطی کا احساس ہونے پر وہ طیارہ راستے سے ہی واپس منگوا لیتے ہیں، یہ قیادت ایک عالمی لیڈر کی بیوی کے ساتھ فوٹو شوٹ کی قیمت پر کشمیر بیچ کے آنے والی نہیں ہے۔