یہ ایک مہم ہے جو سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی ہے۔ اس میں بنیادی مدُعا یہ ہے کہ جیسے ہی یونٹس دوسو سے کراس کرتے ہیں بل میں کئی گنا تک کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ مڈل کلاس، دو سو تک یونٹس استعمال کرنے والے ا نتہائی غریب طبقے کی طرف دیکھتی ہے جنہیں ایک سے تین ہزار بل آتا ہے اور انہیں پانچ، دس ہزار یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے زیادتی ہو رہی ہے لہٰذا گر سلیب سسٹم ختم ہوجائے تو ان کا بل آدھا رہ جائے گا، کیا وہ درست سوچتے ہیں اس بارے حتمی فیصلہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم سلیب سسٹم کا بنیادی فلسفہ نہ سمجھ لیں کیونکہ اس سے پہلے میں بھی اس عمومی پروپیگنڈے سے بہت متاثر ہوتا تھا کہ اگر آپ پھل والے سے ایک کلو آم لیں تو وہ آپ کو سو روپے کلو دے اور دس کلو لیں تو تین سو روپے کلو، اس کی کیا منطق ہے؟
سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیرف میں سلیب سسٹم غریب کوسستی بجلی دینے کے لئے ہے، خاص طور پر انتہائی غریب کو جس کے گھر میں ایک دو پنکھے چلتے ہیں یا دو، چار بلب۔ کوئی چھوٹا موٹا فریج بھی ہے تو وہ اسے رات بھر بند ہی رکھتا ہے۔ اس وقت پروٹیکٹڈ صارفین کے سو یونٹ تک بل میں ایک یونٹ 11روپے 69پیسے اور دو سو یونٹ تک 14روپے 16پیسے کا ہے جبکہ نان پروٹیکٹڈ ہونے کے بعد یہ بالترتیب 23روپے 59پیسے اور 30روپے 7پیسے کا ہوجاتا ہے لیکن پانچ، سات سو یونٹ استعمال کرنے والوں کے لئے یہی ریٹ 48روپے 84پیسوں سے 69روپے 27پیسوں تک جا پہنچتا ہے۔ بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ یونٹ کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہئے۔ میں نے بہت سارے ماہرین سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بجلی کے ایک یونٹ کا خالص یعنی بغیر ٹیکسوں کے اوسط ریٹ 33روپے جبکہ ٹیکسوں کے ساتھ 45روپے سے کچھ زائد بنتا ہے۔
جب آپ بنیادی ریٹس کو سمجھ لیں تو اس کے بعد دوسری بات یہ سمجھیں کہ کوئی بھی حکومت آپ کو مفت یا سستی بجلی نہیں دے سکتی کیونکہ یہ ٹیکسوں سے ہوگا جس کی وصولی پہلے ہی کم ہے۔ اب حکومت اگر ایک ریٹ لگاتی ہے تویقینی طور پر اوسط پر جائے گی جو 45سے 50 روپے کے درمیان ہے۔ اوسط سے غریب کا سو سے دوسو یونٹ کا بل جو اس وقت ایک، دو یا اڑھائی ہزار کے لگ بھگ ہوسکتا ہے وہ سیدھا چھلانگ لگا کے دوگنا سے بھی زیادہ ہو جائے گا لیکن دوسری طرف امیر آدمی جو گھر پر ایک سے زائد اے سی چلا کے ایک ہزار یونٹس استعمال کر رہا ہے اس کا بل پچاس ہزار سے بھی کم ہوجائے گا یعنی اسے بیس سے پچیس ہزار کا فائدہ ہوجائے گا مگر امیر آدمی کے فائدے کا بوجھ غریب اور مڈل کلاس والا اٹھائے گا جو اس وقت غریبوں کو دیکھتے ہوئے یونٹ کا ریٹ یکساں کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اوسط ریٹ سے تین سو سے پانچ سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہر سو یونٹ پر ریٹس تبدیل ہورہے ہیں اور وہ پہلے ہی درمیان والے نرخوں پر ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی کا بل چار پانچ ہزار کم ہوجائے مگر کسی کا چار پانچ ہزار بڑھ بھی سکتا ہے۔
ہمارے بجلی کے مسئلے کو سولر نے بھی گھمبیر کیا ہے کہ امیر لوگ دھڑا دھڑ سولر لگوا رہے ہیں اور اس سے وہ صرف لوڈ شیڈنگ اور بھاری بلوں سے ہی نہیں نکل رہے بلکہ گردشی قرضوں اور ٹیکسوں میں اپنے حصے سے بھی نکل رہے ہیں۔ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی بنا کے فروخت بھی کر رہے ہیں یعنی ان کی چپڑی بھی ہیں اور دو دو بھی ہیں۔ اس وقت موج انہی ڈومیسٹک کنزیومرزکی ہے جنہوں نے ایک ساتھ دس سے پچیس لاکھ کے درمیان خرچ کے ہیوی سولرلگا لئے ہیں۔ ہماری زراعت اور انڈسٹری بھی تیزی سے سولر پر شفٹ ہو رہی ہے اور لاہور کے انڈسٹریل ایریا کی لیسکو سے ڈیمانڈ ہر برس کم ہو رہی ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا کہ حکمران چاہے آصف زرداری ہوں، عمران خان ہوں یا شہباز شریف، کسی نے بھی یہ بل اپنے پلے سے نہیں دینے بلکہ مینجمنٹ ہی کرنی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس مینجمنٹ میں سب سے بہتر کون ہے۔
ہو یہ رہا ہے کہ سولر والوں کا لوڈ بھی ان پر آ رہا ہے جو ابھی تک سرکاری بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ ریاست کے پاس پہلے بجلی نہیں تھی اور اب بجلی وافر موجود ہے مگر اس کا ریٹ زیادہ ہے۔ اس سے جڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری ریاست میں براہ راست ٹیکس دینے کا رجحان نہیں ہے، پچیس کروڑ کی آبادی میں پچاس لاکھ فائلر ہیں اور ان میں سے بھی ایک تہائی زیرو پر فائلنگ کرتے ہیں۔ ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے دس فیصد پر بھی نہیں ہیں اور دنیا اس وقت چالیس فیصد تک پہنچی ہوئی ہے۔ ایسے میں جب ڈائریکٹ ٹیکس وصول نہیں ہوں گے تو حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے گی جو جی ایس ٹی کے ساتھ پٹرول، گیس اور بجلی جیسی چیزوں پر ہی وصول ہوں گے جب سولر والے اس سے نکلیں گے تو پھر ٹیکس کس کی طرف جائے گا، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
مجھے یہ فیصلہ دینے میں عار نہیں کہ بجلی بل میں سلیپ سسٹم کاخاتمہ کرنے کا مطالبہ غریبوں اور لوئر مڈل کلاس کے خلاف سازش ہے کہ یہ فیصلہ ایک سو سے تین سو یونٹس تک کے بلوں میں اضافہ کر دے گا اور یہ اضافہ دوگنا یا تین گنا تک بھی ہوسکتا ہے مگر دوسری طرف یہ فیصلہ مہنگے داموں یعنی ساٹھ ستر روپے کا یونٹ خریدنے والوں کے لئے ایک ریلیف ہوگا۔ اگرچہ یہ صارف تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں مگر ان کے بل ایک تہائی تک کم ہوجائیں گے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ غریب یہاں پر ایک اور بھی کام کرتا ہے کہ وہ اپنے دو سو سے زائد یونٹس کو دو یا زیادہ میٹروں میں تقسیم کردیتا ہے جو وہ رجسٹریوں یا کرایہ نامہ وغیرہ دکھا کے لگوا لیتاہے۔
اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مین گیٹ کے اندر الگ راستہ اور الگ کچن شو کر دیں۔ جب مجموعی یونٹس پر پیسوں کی تقسیم ہوتی ہے تو اس کا بوجھ بھی مڈل کلاس پر پڑجاتا ہے یوں مجموعی طور پرہمیں بہت غریب یا بہت امیر اپنی مینجمنٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اورمارا مڈل کلاس والا جاتا ہے۔ سلیب سسٹم ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والے بیشتر یہی اپر مڈل کلاس والے ہے جن کے بل سات آٹھ سو یونٹس تک پہنچ جاتے ہیں اور وہ غریبوں کے بل دیکھ کے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی ریٹ لگا دو۔ مگر کیا انہیں دس یا بیس روپے یونٹ کا ریٹ لگ سکتا ہے، ہرگز نہیں، یہ اوسط پر جائے گا اور پینتالیس روپے کے لگ بھگ ہوگا۔ یہ اپنی بوٹی کے لئے غریبوں کے پورے بکرے ذبحہ کروا دیں گے۔