Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Apne Apne Sar Bacha Lo Dosto

Apne Apne Sar Bacha Lo Dosto

صدر مملکت عارف علوی ڈینٹسٹ ہیں، و زارت صحت اگرچہ وزیراعظم کے پاس ہے مگر مشیر صحت فیصل سلطان ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہیں، حکومت نے پی ایم ڈی سی ختم کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن بنا دیا ہے اوراس کے سربراہ ایک ڈاکٹر ہیں، پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نہ صرف ڈاکٹر ہیں بلکہ پی ایم اے کے پلیٹ فارم سے سکہ بند ٹریڈ یونینسٹ رہی ہیں مگر دوسری طرف صحت کے شعبے کے سٹیک ہولڈرز میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اپنی بقا کی دہائیاں نہ دے رہا ہو، ا حتجاج نہ کر رہا ہو۔ سب سے پہلے پی ایم اے کو ہی دیکھ لیں، اس کے ڈاکٹر اشرف نظامی، ڈاکٹرشاہد ملک اور ڈاکٹراظہار چوہدری تک تمام ایکٹیویسٹ ڈاکٹر یاسمین راشد کی وجہ سے پی ٹی آئی کے لئے خصوصی نرم گوشہ رکھنے والے رہے ہیں اور یہ پروفیسر لوگ بھی جو کسی سڑک پر کھڑے ہونے کو بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں، اس سخت گرمی کے موسم میں دوپہر دو بجے لاہور کے پریس کلب کے سامنے کھڑے پی ایم سی اور این ایل ای کے خلاف سیاہ بینرز اور پلے کارڈ اٹھائے احتجاج کر رہے تھے۔ میں نے انہیں دیکھا تو اپنے دوستوں پر طنز بھی کیا اور جگتیں بھی لگائیں کہ اپنی لائی ہوئی حکومت کا مزا آیا، ایسا وقت تو سابق دور میں بھی نہیں آیا تھا جس کے خلاف وہ سارے تھے۔

چلیں، پی ایم اے سے شائد قارئین کی زیادہ واقفیت نہ ہو مگر آپ سب وائے ڈی اے کو تو جانتے ہیں، وہی وائے ڈی اے جو سابق دور میں بات، بات پر آوٹ ڈور بلکہ ایمرجنسیاں اور آپریشن تھیٹر تک بند کر دیتی تھی۔ یہ وہ نوجوان ڈاکٹر تھے جو نسخوں کی پرچیوں پر ٹھپہ لگا کر دیتے تھے، دوا دو وقت لو اور ووٹ بلے کو دو، ، وہ اس کو علاج کی شرط قرار دیتے تھے۔ وائے ڈی اے کے صدر حامد بٹ ہوا کرتے تھے جو منہ پھٹ ہونے کی خاص شہرت رکھتے تھے، ایسی خاص شہرت کہ سابق وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے ان کے ساتھ پروگرام میں بھی بیٹھنے سے بھی انکار کر دیا کہ بٹ دے نال نئیں بیٹھنا، بٹ گالاں ای بہت کڈدا اے، اور پھر وہی حامد بٹ تھا جو ایم ٹی آئی کے خلاف مظاہرے میں سروسز ہسپتال کے سامنے ننگی سڑک پر بیٹھا ہوا کیمرے کے سامنے پی ٹی آئی کی حکومت کو سپورٹ کرنے پر معافیاں مانگ رہا تھا، توبہ کر رہا تھا کہ بہت بڑی غلطی ہوگئی۔ چلیں آگے بڑھنے سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ایم ٹی آئی کیا ہے، یہ میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس ایکٹ ہے جس کے تحت حکومت کے مطابق سرکاری ہسپتالوں کو خود مختاری دی جا رہی ہے جبکہ پی ایم اے او روائے ڈی اے اسے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا بل قرار دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی پروفیشنل تنظیمیں یہاں تک کہتی ہیں کہ ٹیچنگ ہسپتالوں کو پی ٹی آئی کے فنانسروں کے حوالے کیا جا رہا ہے جو ان کی زمینیں تک بیچنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ایم ٹی آئی کے بعد ڈاکٹر وہاں بنائے ہوئے بورڈز کے ملازم ہوجائیں گے اور یوں ہسپتالوں میں ٹھیکیداری نظام آجائے گا۔ یہ بورڈ ہسپتالوں کی آمدن بڑھانے کے بھی ذمے دار ہوں گے یعنی مریضوں سے زیادہ سے زیادہ وصولی تاکہ ہسپتال اپنے اخراجات میں خود کفیل ہوسکے۔

اب یہ پی ایم سی کیا ہے، یہ پاکستان میڈیکل کمیشن ہے جو اس سے پہلے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ہوا کرتی تھی۔ پی ایم ڈی سی، ڈاکٹروں کو ریگولیٹ کرنے والا ایک منتخب پروفیشنل ادارہ تھا جیسے وکیلوں کے لئے بارکونسلیں ہیں یا انجینئروں کے لئے ان کی اپنی کونسلیں مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے پی ایم سی بنا دیا ہے جس میں منتخب پروفیشنلز کے بجائے نامزد پیارے ہیں حالانکہ پاکستان صحت کے حوالے سے دنیا بھر میں دستخط کئے گئے معاہدوں کے مطابق الیکٹڈاور پروفیشنل میڈیکل کونسل رکھنے کا پابند ہے، کمیشن نہیں۔ اب مزید کام یہ کیا گیا ہے کہ اس کمیشن میں ڈاکٹروں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے وائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر ایک علی رضا نامی وکیل کو نامزد کر دیا گیا ہے جس نے امریکا سے این ایل ای کا نظام یہاں کاپی پیسٹ کر دیا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ این ایل ای کیا ہے تو یہ نیشنل لائسنسنگ ایگزام ہے اور اب ہر ڈاکٹر کو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پریکٹس کرنے کے لئے یہ امتحان پاس کرنا ہو گا یعنی وہ پانچ سال بار بار الگ امتحان دے گا اور جب ملک کی سب سے مشکل پڑھائی کو مکمل کرلے گا تواس کے بعد ایک اور ٹیسٹ سامنے ہوگاجسے پاس کرنے کے لئے اسے ستر فیصد سے زائد نمبر درکار ہوں گے۔ میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا، بھائی لوگو، ٹیسٹ تو اچھے ہوتے ہیں تو جواب ملا کہ امریکا میں پانچ برس تک ایکسٹرنل ایگزام نہیں ہوتے اور ڈاکٹر ایک ہی مرتبہ لائسنس کے لئے امتحان دیتے ہیں مگر پاکستان میں دوہری مصیبت بنا دی گئی ہے، اس کی ہزاروں روپے فیس رکھی گئی ہے اور پاسنگ مارکس غیر معمولی یعنی آپ پانچ، چھ برس محنت کے بعد پاس ہونے والے ڈاکٹروں کو محض نوکری نہ دینے کے لئے ایک مرتبہ پھر فیل کرنا چاہتے ہیں۔

ا ب دلچسپ امر یہ ہے کہ پی ایم سی کے وکیل صاحب اور ان کے سرپرست سرکاری ہسپتالوں اور میڈیکل کی تعلیم کو ہی تباہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ پرائیویٹ میڈیکل اداروں کی بربادی بھی چاہتے ہیں۔ پامی، نے جو کہ پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ہے، چوہدری عبدالرحمن اس کے صدر ہیں، کہا ہے کہ ملک میں چینی، آٹے اور رنگ روڈ سے بھی بڑا سکینڈل جنم لے رہا ہے، ایک منظم طریقے سے طبی تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، وکیل نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایڈمیشن ریگولیشنز 2020 کے تحت سرکاری اور نجی میڈیکل کالجز کے داخلے ایک ساتھ کھول دئیے، ایم ڈی کیٹ کی ایک نئی دوہری شرط لگا دی جس کے نتیجے میں سندھ کے بارہ میڈیکل کالجوں میں داخلے ہی نہیں ہوسکے اور وہ تمام کالجز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ یہ وکیل صاحب جو ڈاکٹر دشمن ہیں، کھلے عام کہتے پھر رہے ہیں کہ انہیں نوشیرواں برکی کی سپورٹ حاصل ہے اوروہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو ختم کر دیں گے، سوال ہے کیوں، جبکہ حالات یہ ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی رینکنگ میں پاکستان 192ممالک میں 165ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ جہاں ہر ستر ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے وہاں ایک لاکھ چالیس ہزار کے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ ایک میڈیکل کالج اربوں ر وپوں کی سرمایہ کاری سے بنتا ہے تو ایک وکیل کو میڈیکل کالجز تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ غیر ملکی میڈیکل کالجوں کی ایما پر اپنے اداروں کی تباہی کا گھناونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ چوہدری عبدالرحمن ایک محبت کرنے والی اور ملنسار شخصیت کا نام ہے مگر وہ میڈیکل پروفیشن کی تباہی پر دکھی بھی ہیں اور غصے میں بھی، میں نے ان کی پریس کانفرنس سنی ہے، وہ میڈیکل پروفیشن کو بچانا چاہتے ہیں، وہ میڈیکل ایجوکیشن کو بچانا چاہتے ہیں۔

ہمارے ڈاکٹروں کی عرب ممالک سے لے کر امریکا، برطانیہ تک میں ڈیمانڈ ہے جو 174 سرکاری اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی معیاری تعلیم کی وجہ سے ہی ہے مگر حکومت نے پی ایم ڈی سی کی نمائندہ حیثیت ختم کر دی ہے، ایک وکیل کو ڈاکٹروں پر نگران بنا دیا ہے جو خود میرٹ پر نہیں تو آگے میرٹ کیسے لا سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حکومت اسمبلی کو منتخب کرنے کی بجائے نامزد کرنے پر اتر آئے یا وکیلوں پر ایک ڈاکٹر کو نگران اور صدر لگا دیا جائے۔ کیا حکمران اپنا علاج کروانے کے لئے کسی وکیل کے پاس جا سکتے ہیں تو پھر میڈیکل کے شعبے کو ایک وکیل سے کیسے ریگولیٹ کرواسکتے ہیں۔ مولانا روم کی حکایت کے مطابق اگر انصاف نہیں ہوگا، طوطی کو طوطے کی بجائے الو کی بیوی قرار دیا جاتا رہے گا تو بستیاں اجڑ جائیں گے۔ میں حکومتی فیصلہ سازی میں اتنے بہت سارے ڈاکٹروں کو دیکھتا ہوں اور ان کے مقابلے میں پہلی مرتبہ پی ایم اے سے وائے ڈی اے اور پامی تک تمام تنظیموں کو صحت کے نظام او رتعلیم کے حوالے سے خطرے کی گھنٹیاں بجاتے ہوئے متفق اور متحدیکھتا ہوں تو پی ایم سی کے اقدامات پر میرے ذہن میں یہ شعر آجاتا ہے، "اپنے اپنے سر بچا لو دوستو، ناریل ہیں بندروں کے ہاتھ میں "، سو میں خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ صحت کے نظام کے سٹیک ہولڈرز کے متفقہ او رمتحدہ مطالبے پر اگر وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر مذاکرات کا آغاز نہ کیا، منڈلاتے ہوئے خطرات کو دور نہ کیا تو میڈیکل پروفیشن میں ہونے والی تباہی کا ازالہ آنے والے کئی عشروں تک نہیں ہوسکے گا۔