دُنیا کا آسان ترین کام تنقید کرنا ہے اور یہ کام ہر نہلا، نکما اور نشئی بھی کر سکتا ہے بلکہ وہی زیادہ کرتا ہے۔ بجٹ سازی ایک ٹیکنیکل کام ہے مگر اس کی بنیاد بہت آسان ہے سو جب میں یہ کہہ رہا ہوں تو آپ کم از کم پہلے پیراگراف کو سمجھنے کے لئے کیلکولیٹر یا کاپی پنسل ڈھونڈ لیں کیونکہ اب ہم نے خود بجٹ بنانا ہے۔ میں نے کہا کہ بجٹ بنانے کی بنیاد بہت آسان ہے کہ ہم نے اپنی آمدن لکھنی ہے اور اس کے سامنے اخراجات، لیں جناب بجٹ تیار۔
ہماری اس برس آمدن کا ٹیکس اور نان ٹیکس دونوں ذریعوں کو ملا کے تخمینہ 19ہزار 278ارب لگایا جا رہا ہے یعنی ایف بی آر کے محصولات 14 ہزار 131ارب اور نان ٹیکس ریونیو 5 ہزار 147 ارب۔ اس سوا 19 ہزار ارب کو ہم نے اپنے اخراجات میں تقسیم کرنا ہے جس میں سب سے پہلے قرضوں پر سُود کی ادائیگی ہے (اب اس پر بحث مت شروع کیجئے گا کہ قرض کس نے لئے، کیوں لئے اور کہاں خرچ کئے کیونکہ میرے پاس ایک وزیراعظم کا ساڑھے تین برس کا دور بطور دلیل موجود ہے جس نے نہ کوئی جنگ لڑی اور نہ ہی کوئی میگا پراجیکٹ دیا مگر 74برس کے قرضوں کا 70 فیصد بوجھ قوم پر لاد کر چلا گیا)۔
سُود کی ادائیگی 8ہزار 207ارب ہے اور وفاق نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو 8 ہزار 206ارب لازمی دینے ہیں۔ تیسرا خرچ دفاع کا ہے جو2 ہزار 550 ارب ہے اوریہ پچھلے برس کے مقابلے میں 20فیصد زیادہ ہے (مجھے علم ہے کہ آپ کو دفاع پر بھی مرچیں لگ رہی ہیں مگر موقع دیجئے گا کہ میں پہلے اس مرکزی موضوع پر بات مکمل کر سکوں اور اس کے بعد ایک الگ پیراگراف میں آپ کی تسلی تشفی) سو یہ تین خرچے مل کر 18ہزار 963 ارب ہو گئے اور باقی بچے 315 ارب۔ اب ان 315ارب س آپ نے پورا ملک چلانا ہے، بہت محتاط ہو کے بھی سوچا جائے تو باقی تمام اخراجات کے لئے چھ سے آٹھ ہزار ارب روپے درکار ہیں، وہ کہاں سے آئیں گے؟
سب سے پہلے سرکاری ملازمین کی بات، جو دس فیصد اضافے پر مطمئن نہیں۔ وہ خود بتا دیں کہ تنخواہوں میں اضافے کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافوں پر تنقید بجا، میں ذاتی طور پرریاستی اور آئینی عہدوں پر موجود غیر مستقل عہدیداروں کی اچھی تنخواہوں کا حامی ہوں مگرانہوں نے اضافے کے لئے غلط وقت کا انتخاب کیا۔ ان کے اضافے کا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے موازنہ ہوا جو سیاسی تنقید کا باعث بنا۔
میری تجویز ہے کہ آئینی اور ریاستی عہدوں پر موجود عہدیداروں کی تنخواہوں کا ایک قومی فارمولہ بننا چاہئے جس کی انتہائی اور کم سے کم دونوں سطحیں واضح ہوں۔ جب یہ فارمولہ بن جائے تو اس کے بعد ان کی تنخواہوں میں اتناہی اضافہ ہو جتنا عام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہوتا ہے چاہے وہ وزیراعظم ہوں یا چیف جسٹس۔ ہمیں کبھی نہ کبھی تو انصاف اور مساوات کی طرف جانا ہوگا اور میرے خیال میں عدلیہ اور فوج کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف سے بڑھ کے کوئی دوسرا یہ انقلابی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
آن اے لائیٹر نوٹ، جو سرکاری ملازمین سمجھتے ہیں کہ ان کی تنخواہ ان کے کام اور صلاحیتوں کے مقابلے میں کم ہے وہ فوری طور پر سرکاری نوکری کو لات ماریں، فوری طور پر پرائیویٹ سیکٹر کو جوائن کریں جہاں وہ اپنی محنت اور ٹیلنٹ کا مارکیٹ ریٹ پر بہترین معاوضہ لے سکتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں نہ کم از کم تنخواہ کے حکم پر عمل کیا جاتا ہے اور اس برس تو حکومت نے کاروباروں کو تحفظ دینے کے لئے کم از کم تنخواہ میں اضافہ ہی نہیں کیا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ سرکاری ملازمین، پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کے مقابلے میں بہت کم کام کرتے مگر بہت زیادہ تنخواہیں او ر مراعات لیتے ہیں۔
ہمارے پاس بہت سارے چھوٹے چھوٹے مُودیے، موجود ہیں جو معرکہ حق کے دوران بھی بھارت کی زبان بولتے رہے اور اب انہیں دفاعی بجٹ پر بھی بہت زیادہ تکلیف ہے۔ انہیں بتانا ہے کہ پاکستان کا مالی سال 2024-25ءمیں، جس میں جنگ ہوئی مجموعی دفاعی بجٹ 10ارب ڈالر سے کچھ زیادہ تھا جبکہ جس دشمن سے مقابلہ تھا اس کا ساڑھے 82ارب ڈالر، وہ آپریشن سندور کے نام پر اسے 88ارب ڈالر پر لے گیا۔ کیا آپ داد نہیں دیں گے کہ ہماری مسلح افواج نے اس صدی کی سب سے جدید جنگ لڑی اور اس دشمن سے جیتی جس کا فوجی بجٹ ہم سے آٹھ گنا تھا، جس کی آبادی اور وسائل بھی ہم سے کم و بیش اتنے ہی زیادہ۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وہ اپنے فوجی بجٹ میں 21 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے جا رہا ہے یعنی مجموعی طور پر 110 ڈالر اور ہم اس میں صرف بیس فیصد اضافے پر اعتراض کر رہے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ کسی نے کہا کہ تعلیم اور صحت پر خرچ کرو، میں نے حمایت کی اور ساتھ ہی واضح کیا کہ اگر ہم اور ہمارے بچے دشمن کے حملے سے بچیں گے تب ہی وہ سکول جائیں گے۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم بھارت کے ہمسائے ہیں۔ ایک سانپ، ایک بھیڑئیے کے ہمسائے۔
کئی دوستوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک فضول خرچی ہے اور ان میں میرے وہ دوست بھی شامل ہیں جنہوں نے چند ماہ پہلے ایک کروڑ سے زائد مالیت کی نئی گاڑی لینے کی تصویر شیئر کی۔ ان سب کا کہنا ہے کہ حکومت سات سو ارب کی اس رقم سے کارخانے بنا کے ان سے کام کروائے اور میرا سوال ہے کہ ان سب کا کیا کیا جائے جو بزرگ ہیں، معذور ہیں یا بیمار ہیں۔ ان عورتوں سے کیا کام کروائیں گے جو تعلیم یافتہ نہیں اور بیوائیں ہیں۔
پوری دنیا میں سوشل ویلفیئر کا تصور موجود ہے اور ہمارے مذہب میں بھی۔ میں نے لائنوں میں لگی ہوئی سینکڑوں عورتوں کو تین تین ماہ کے بعد چند ہزار روپے وصول کرتے ہوئے دیکھا ہے جن سے ان کے گھروں میں کچھ راشن آجاتا ہے، کسی کچھ ادویات او رکسی کا بجلی کا بل ادا ہوجاتاہے۔ کہتے ہیں کہ اس پروگرام میں کرپشن ہے تو میرا کہنا ہے کہ آپ کرپشن ختم کریں پروگرام نہیں۔
ایک وزیراعظم توشہ خانہ لوٹ کر اور ملک ریاض سے سینکڑوں کنال زمین رشوت میں لے کر چلا گیا تو کیا ہم نے وزیراعظم کا عہدہ ہی ختم کر دیا، ہرگز نہیں، ہم نے ایسا وزیراعظم منتخب کیا جس پر ایک روپے کی کرپشن کا الزام نہیں، جو اپنی تنخواہ عطیہ کرتا ہے اور جس کی طرف سے حکومتی اخراجات کو ہر برس ایک تسلسل کے ساتھ کم کیا جا رہا ہے۔۔ اصل بات بیچ میں رہ گئی، باقی بچے تین سوپندرہ ارب روپے، ان سے ملک چلانا ہے کیسے چلائیں گے؟