Saturday, 20 April 2024
    1.  Home/
    2. Muzamal Suharwardy/
    3. Young Doctors Ki Hartal (2)

    Young Doctors Ki Hartal (2)

    آجکل ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کا موسم پھر آیا ہوا ہے۔ کراچی سے لاہور تک ڈاکٹرز نے ہڑتالیں شروع کی ہوئی ہیں۔ اسپتالوں کی او پی ڈی بند کی جا رہی ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کو این ایل ای امتحان لینے پر سخت اعتراض ہے۔ وہ میڈیکل پریکٹس اور کام کرنے کے لیے یہ امتحان دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کی ہے۔ ان کی ہڑتال کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں کا نظام دھرم بھرم ہو جاتا ہے۔ مریض علاج سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ینگ ڈکٹرزنے ایک پریشر گروپ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ان کا جب دل چاہتا ہے ہڑتال کرتے ہیں۔

    سرکاری اسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز کی تنظیموں کی وہی صورتحال ہو گئی ہے جو کبھی تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں کی ہوا کرتی تھی۔ جس طرح تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں نے اپنی حاکمیت قائم کر لی تھی۔ اسی طرح اب ینگ ڈاکٹرز نے بھی اسپتالوں میں اپنی حاکمیت قائم کر لی ہے۔

    دنیا میں کہیں بھی ڈاکٹرز اس طرح ہڑتال نہیں کرتے جیسے یہ رواج پاکستان میں آگیا ہے۔ افسوس سنیئر ڈاکٹرز بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں مریض بیچارے مفت میں خوار ہوتے ہیں۔ گزشتہ دس سال سے ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالیں چل رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے پہلے تحریک انصاف نے ہی اپنے سیاسی مفادات کے لیے ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کی حمایت کی تھی۔

    قدرت کی ستم ظریقی دیکھیں آج یہی ہڑتالیں تحریک انصاف کی حکومت کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں پہلے ہی علاج کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں اور یہ ہڑتا لیں اس لولے لنگڑے نظام کو مزید مفلوج کر دیتی ہیں۔

    پروفیسرز تو پہلے ہی ان سرکاری اسپتالوں کو اپنی ذ اتی پریکٹس کو بڑھانے اور مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ہڑتالیں ان کی ذاتی پریکٹس اور آمدنی کو بڑھانے کا ایک ذریعہ بن گئی ہیں۔ جب سرکاری ہستالوں میں ہڑتال ہوتی ہے تو مریض انھی سنیئر ڈاکٹرز کی پرائیویٹ "دکانوں " پر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

    پاکستان میں مسئلہ صرف ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کا نہیں ہے۔ آپ دیکھیں وکلا عدالتوں میں ہڑتالیں کرتے ہیں۔ جس سے نظام انصاف مفلوج ہو جاتا ہے۔ عدالتوں میں وکلا کی ہڑتالوں اور ہنگامہ آرائی کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے۔ یہ رواج بھی صرف پاکستان میں ہی ہے۔ وکلا کی ہڑتالیں بھی نظام انصاف کے لیے اسی طرح زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے ڈاکٹرز کی ہڑتالیں صحت کے نظام کے لیے زہر قاتل ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن کسی نہ کسی بات کو بہانہ بنا کر عدالتوں میں ہڑتا لیں کی جاتی ہیں۔

    آجکل کوئی ڈاکٹرز کی مذمت نہیں کر رہا ہے کہ انھوں نے ہڑتال کیوں کی۔ ایسے جیسے ہم نے ڈاکٹروں کے حق ہڑتال کو جائز مان لیا ہے۔ ان کا ہڑتال کرنا جائز ہے۔ حکومت کا اس ہڑتال کو روکنا ناجائز ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہڑتال کرنے والے ڈاکٹرز کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

    کیاہمیں اندازہ ہے کہ ان کی ہڑتال کی وجہ سے مریض کس تکلیف سے گزرتے ہیں۔ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ او پی ڈی بند کرنے سے مریضوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ او پی ڈی اور دیگر سہولیات کے بند ہونے سے ان سنیئر پروفیسرز کی پرائیویٹ پریکٹس کو کیسے چار چاند لگ جاتے ہیں۔ کیا کسی مہذب ملک میں ڈاکٹرز کی اس طرح ہڑتالوں کی کوئی گنجائش ہے۔ کیا دنیا میں کبھی کہیں ڈاکٹرز نے مریضوں کو علاج کی سہولت دینے سے ایسے انکار کیا ہے۔ اس لیے ہمیں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ جو ڈاکٹر ایک لمحہ کے لیے بھی ہڑتال کرے اس کا لائسنس ہمیشہ کے لیے منسوخ ہونا چاہیے اور حکومت کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس سے ڈاکٹرز آرگنائزیشنز ہڑتال نہ کرسکیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ کڑی سزا مقرر کی جانی چاہیے۔

    پاکستان میں نظام صحت ویسے ہی خر اب ہے۔ پرائیویٹ پریکٹس کی فیسوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک عام ڈاکٹر اب پانچ منٹ مریض دیکھنے کے پچیس سو روپے فیس لینے لگ گیا ہے۔ ڈاکٹر کے ساتھ پروفیسر لگا تو فیس تین سے چار ہزار روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس فیس کی اکثر اوقات رسید بھی نہیں دی جاتی۔ کوئی ٹیکس بھی نہیں دیاجاتا۔

    ہم تو آج تک یہ بھی نہیں کر سکے کہ جو ڈاکٹر سرکار کے ملازم ہیں وہ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کر سکتے۔ یہ سب سرکاری اسپتالوں سے مریض لیتے ہیں اور اپنی پرائیویٹ پریکٹس چلاتے ہیں۔ یہ ہمارے نظام صحت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں نے بھی خوب لوٹ مچائی ہوئی ہے۔ ان پر بھی حکومت کا کوئی چیک نہیں ہے۔

    میری حکومت سے گزارش ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کو روکنے کے لیے سخت اقدمات اٹھائے۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ ان کی ہڑتال کا جواز کتنا جائز ہے۔ ہڑتال کا جواز کتنا بھی جائز ہو تب بھی ہڑتال کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ڈاکٹرز نے تو جنگ کے حالات میں بھی انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ یہ تو جنگ میں بھی ہڑتال نہیں کر سکتے۔ پھر یہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے لیے ہڑتال کیسے جائز قرار دی جا سکتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی تمام تنظیموں کو فوری ختم کرنا چاہیے۔

    ینگ ڈاکٹرز کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کس طرفٖ جا رہے ہیں۔ انھیں بھی سمجھنا چاہیے کہ جب وہ ہڑتال کرتے ہیں تو لوگ انھیں کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ لوگ انھیں دعائیں نہیں بد دعائیں دیتے ہیں۔ اگر ان کی ہڑتال سے ایک بھی مریض کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ پوری انسانیت کو نقصان پہنچنے کے مترادف ہے۔

    اس لیے ا س سے پہلے کہ معاشرہ اور حکومت ان کے ساتھ سختی کرے، انھیں خود ہی ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ کیا کوئی ینگ ڈاکٹر سے سوال کر سکتا ہے کہ یہ صرف سرکاری اسپتالوں میں ہی ہڑتال کیوں کرتے ہیں۔ یہ ہڑتالیں پرائیویٹ اسپتالوں میں کیوں نہیں ہوتیں۔ یہ ہڑتالیں ان کے پرائیویٹ کلینکس پر کیوں نہیں ہوتیں۔ وہاں پیسے کمانے ہوتے ہیں اس لیے ہڑتال نہیں کرتے۔ سرکار سے تو تنخواہ ہڑتال کے باوجود ملتی ہے جب کہ پرائیوٹ پریکٹس کو بھی چار چاند لگتے ہیں۔