Tuesday, 29 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Muhammad Irfan Nadeem
    4. Ijtemai Azab Ke Asaar

    Ijtemai Azab Ke Asaar

    اگر آپ واقعی انسان ہیں، آپ کے سینے میں دل دھڑکتا ہے، آپ کی آنکھیں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور آپ کا شعور مردہ نہیں ہے تو آپ نے وہ مناظر ضرور دیکھے ہوں گے جو اس وقت غزہ، خان یونس، رفح اور دیگر فلسطینی علاقوں میں پیش آ رہے ہیں۔ آپ نے وہ تصاویر اور ویڈیوز ضرور دیکھی ہوں گی جن میں بھوک سے نڈھال فلسطینی بچوں کے جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں۔ وہ ویڈیوز بھی ضرور دیکھی ہوں گی جن میں فلسطینی نوجوان ایک گھونٹ پانی اور روٹی کے ایک نوالے کے لیے گتھم گتھا ہیں۔

    آپ نے ماؤں کو اپنے جگر گوشوں کی لاشوں سے لپٹ کر بین کرتے بھی دیکھا ہوگا۔ آپ نے فلسطینی مساجد سے یہ اعلانات ہوتے ہوئے بھی سنے ہوں گے کہ اے اللہ دنیا ہمیں بھوک سے مارنا چاہتی ہے آپ غیب سے ہماری مدد فرمائیے۔ آپ نے اس بوڑھے کی ویڈیو تو ضرور دیکھی ہوگی جو کئی دن بعد کھانا ملنے پر کھانے کے آداب بھول گیا تھا اور آپ نے خان یونس سے ہجرت کرتی وہ بچی تو ضرور دیکھی ہوگی جو گدھا گاڑی پر اپنی جمع پونجی کھینچتی جاتی تھی اور آنسوؤں کے وضو سے اپنے رب کے سامنے شکایت کنندہ تھی۔

    فلسطین انسانی تاریخ میں سب سے طویل المیے کا شکار خطہ بن چکا ہے، جو ظلم و ستم ہم دیکھ رہے ہیں یہ آج کی بات نہیں فلسطینیوں کی پچھلی تین نسلیں اسی ظلم کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔ فلسطینی عوام پچھلی کئی دہائیوں سے ظلم، محاصرے، قتل عام، جبر، بھوک، جبری بے دخلی اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ہو ا وہ آٹھ ارب انسانوں کے ماتھے پر ایسا بدنما داغ ہے جو شاید کبھی نہ دھل سکے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں اس عہد میں زندہ ہونے پر شرمسار ہوں۔

    میری آنکھوں کے سامنے اسرائیل نے غزہ کو اجتماعی قبرستان بنا دیا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، ہزاروں بچے شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں معذور ہو چکے ہیں، طبی سہولیات ختم ہو چکی ہیں، ہسپتال تباہ و برباد ہو چکے ہیں، تعلیمی ادارے ختم ہو چکے ہیں اور اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے، این جی اوز، دو سو سے زائد ممالک اور آٹھ ارب انسان خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ سب سے افسوسناک اور شرمناک رویہ عرب ممالک کا ہے۔ وہ عرب دنیا جس کے دل بیت المقدس کے ساتھ دھڑکتے تھے آج خاموش، مصلحت آمیز، مفاد پرست اور عالمی طاقتوں کی غلام بن چکی ہے۔ یہ وہی عرب ہیں جنہیں اسلام سے قبل قرآن نے "اشد کفرًا ونفاقًا" کا خطاب دیا تھا اور آج یہ اپنے رویوں کی وجہ سے پھر اسی خطاب کے مستحق ٹھہر رہے ہیں۔

    تاریخ اور اسلامی نصوص بتاتی ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے اورصاحب اختیار افراد اور اقوام خاموش تماشائی بن جاتے ہیں تو اللہ کا اجتماعی عذاب نازل ہوتا ہے۔ اللہ نے اسی وجہ سے ماضی میں مختلف اقوام پر اجتماعی عذاب نازل فرمائے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ تباہ شدہ قوموں میں جولوگ نیک تھے مگر خاموش رہے وہ بھی عذاب سے نہ بچ سکے کیونکہ انہوں نے اجتماعی برائی کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

    رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ جب لوگ کسی برائی اور ظلم کو دیکھیں اور اسے روکنے کی تدبیر نہ کریں تو اللہ ان سب پر اجتماعی عذاب نازل فرماتا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم روا رکھا گیا ہے اگر یہ نہ رکا تو مجھے ڈر ہے کہ کل کو اگر اللہ کا عذاب آیا تو وہ صرف اسرائیل پر نہیں آئے گا بلکہ اس کے ساتھ ریاض، قاہرہ، بحرین، عمان، دوحہ، دبئی اور اسلام آباد سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ یہ عذاب ضروری نہیں کہ صرف جنگ، بمباری یا تباہی کی صورت میں آئے یہ قحط، وبا، زلزلے، بدامنی، اخلاقی و اقتصادی زوال اور بیرونی طاقتوں کے حملوں اور غلامی کی صورت میں بھی آ سکتا ہے۔

    آج اہل فلسطین جس حد تک پس چکے ہیں اس کے پیش نظر اسرائیل کو لگام دینا صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ وہ عالمی طاقتیں جو خود کو جمہوریت، انسانیت اور عالمی امن کا علمبردار قرار دیتی ہیں ان کی آزمائش کا وقت ہے۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جنیوا کنونشن اور عالمی ضمیر کی بھی توہین ہے۔

    ان عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی برادری کو یہ امر ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ظلم اور خاموشی کا یہ امتزاج ایک ایسا طوفان برپا کر سکتا ہے جو مستقبل میں صرف ظالم کی بستی کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ اگر آج فلسطین میں بہنے والے خون پر دنیا خاموش ہے تو بعید نہیں کل یہی خون عالمی ضمیر کی بنیادوں کو بہا لے جائے۔ اللہ کی سنت ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے اور انصاف کرنے والے خاموش ہو جائیں تو پھر زمین چیختی ہے، آسمان گرجتا ہے اور فطرت وہ توازن کھو دیتی ہے جس پر یہ نظام قائم ہے۔

    یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں، یہ فضا جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور یہ کائنات جس سے ہم فیض یاب ہوتے ہیں سب اللہ کی امانت اور اس کے حکم کی پابند ہے۔ جب انسان ظلم کے خلاف بولنا چھوڑ دے، جب ضمیر پر مفادات غالب آ جائیں، جب قومیں طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے خاموش ہو جائیں تو تاریخ گواہ ہے کہ یہ زمینی کرہ اللہ کے غضب کا شکار ہوتا ہے۔ یہ غضب زلزلوں کی صورت میں بھی آ سکتا ہے، قحط، وبا، سیلاب، عالمی جنگ، اخلاقی انہدام اور مکمل تمدنی زوال کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ کی یہ بھی سنت ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو وہ صرف مجرموں کو نہیں پکڑتا بلکہ سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔

    قدرت کے نظام میں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔ یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں کسی قوم یا ملک کی ملکیت نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو انصاف، عدل اور انسانیت کی بنیاد پر قائم ہے۔ جب یہ بنیادیں ہلا دی جائیں تو پھر زلزلے، وبائیں، جنگیں اور تمدنی زوال جیسے مظاہر سامنے آتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اجتماعی غفلت، ظلم پر خاموشی اور مفادات کی سیاست کا انجام بالآخر وسیع تباہی کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ تباہی نہ قوم دیکھتی ہے، نہ سرحدیں، نہ مذہب اور نہ ہی نسل۔