28 جون 1914 کو جب سربیا کے ایک قوم پرست نوجوان نے آسٹریا کے ولی عہد فرڈینینڈ کو قتل کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ ایک گولی پوری دنیا کی بربادی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ فرڈینینڈ کے قتل سے شروع ہونے والی پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں لاکھوں انسان مارے گئے تھے، بیسیوں سلطنتیں ٹوٹ کر بکھر گئی تھیں اور اس جنگ کے بطن سے ایک نئی عالمی سیاست نے جنم لیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس جنگ کے پسِ پردہ صرف ایک قتل تھا؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ اجتماعی بے حسی، طاقت کی ہوس، اخلاقی انحطاط اور روحانی زوال تھا جس نے یورپ کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ قدرت کا اصول ہے کہ جب انسانیت اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھتی ہے، اجتماعی مظالم پر بے حسی کی چار اوڑھ لیتی ہے اور مظلوم کے بجائے ظالم کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ کسی اجتماعی آفت کا ضرور شکار ہوتی ہے۔
جب انسانیت دنیا کے کسی خطے میں ہونے والے ظلم پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے تو یہ ظلم محض ظلم نہیں رہتا بلکہ انسانیت کی تباہی کا پیغام بن جاتا ہے۔ تاریخ انسانی میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں کہ اجتماعی بے حسی اور غفلت نے نہ صرف اقوام کو تباہی سے دوچار کیا بلکہ پوری کی پوری تہذیبیں مٹ گئیں۔
اگر ہم فلسطین میں جاری انسانی المیے کو تاریخ کے اس تناظر میں دیکھیں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اکیسویں صدی انسانیت کی تباہی کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ فلسطین اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض ایک عسکری یا سیاسی بیانیہ نہیں بلکہ یہ انسانیت کا اخلاقی و تہذیبی امتحان ہے۔
ہزاروں بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کی شہادت، بنیادی انسانی ضروریات کی نایابی، قحط، بیماری، دواؤں کی قلت، پینے کے پانی کا نہ ہونا اور آٹھ ارب انسانوں کا ایک خاص خطے میں رہنے والے انسانوں کی لائیو نسل کشی دیکھنا یہ سب محض عام مسائل نہیں بلکہ یہ عالمی ضمیر کا بحران ہے۔ دنیا کے آٹھ ارب انسان، عالمی ادارے، طاقتور حکومتیں اور مہذب ہونے کی دعوے دار تہذیبیں سب اس بحران پر خاموشی اور منافقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ یہ وہی روش ہے جو تاریخ کے کئی بڑے انسانی سانحات سے قبل اختیار کی گئی تھی۔
بیسویں صدی میں پیش آنے والی دو عالمی جنگیں تاریخ کی وہ بھیانک مثال ہیں جہاں انسانوں نے انسانیت کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ ان جنگوں کے سیاسی و معاشی اسباب اپنی جگہ لیکن ان کے پیچھے اخلاقی، فکری اور روحانی افلاس و بے حسی کی ایک گہری داستان بھی موجود ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل یورپ میں طاقت کے توازن کا بگاڑ، سامراجیت، نسل پرستی، مادہ پرستی اور سیاسی حرص نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا جہاں انسان کی وقعت صرف قومی مفاد یا معاشی منفعت کی حد تک باقی رہ گئی تھی۔ یورپی معاشرے سائنسی و صنعتی ترقی پر نازاں تھے مگر انسانیت سے عاری ہو چکے تھے۔ نتیجتاً پہلی جنگ عظیم کا ایک معمولی واقعہ پوری دنیا کے لیے آتش فشاں ثابت ہوا اور لاکھوں کروڑوں انسان مارے گئے۔
دوسری جنگ عظیم کا پس منظر اور انجام اس سے بھی زیادہ عبرت ناک تھا۔ جرمنی میں فاشزم اور نازی ازم کا عروج اور ہٹلر کے ابتدائی اقدامات پر عالمی برادری کا غیر سنجیدہ رویہ اس بات کی شہادت ہیں کہ جب دنیا اجتماعی طور پر آنکھیں بند کرکے بے حسی کی چادر اوڑھ لیتی ہے تو پھر تباہی صرف ایک قوم تک محدود نہیں رہتی بلکہ پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ، یورپ، جاپان کوئی خطہ اس تباہی سے محفوظ نہ رہا۔ ایک طرف لاکھوں انسان مارے گئے، دوسری طرف ہیروشیما اور ناگاساکی جیسے شہروں پر ایٹمی حملے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب بن گئے۔ اگر ان جنگوں کو صرف سیاسی یا معاشی اسباب کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تاریخ کا محدود فہم ہے، ان جنگوں کے اصل اسباب اس اخلاقی و روحانی غفلت کا نتیجہ تھے جس میں انسانیت نے اپنے ہونے کا جواز کھو دیا تھا۔
تاریخ کے اوراق اس سے بھی زیادہ لرزہ خیز مثال چنگیز خان اور ہلاکو خان کی یلغار ہے۔ تیرہویں صدی کا وسط مسلم دنیا کے لیے زوال کا دور تھا۔ خلافت عباسیہ جو اپنے دور عروج میں علم، تمدن، فن اور حکمت کا مرکز تھی۔ تیرہویں صدی میں اندرونی زوال، مذہبی فرقہ بندی، علمی جمود اور قیادت کی کمزوری کا شکار ہو چکی تھی۔ اہل علم اور دانشور حکمرانوں کے درباری بن چکے تھے، عوام بے حس ہو چکے تھے اور دین کا تعلق صرف رسمی عبادات تک محدود ہوگیا تھا۔ اس اجتماعی غفلت اور انحطاط کے ماحول میں منگولوں کی یلغار کسی حادثے سے زیادہ سنت اللہ کا ظہور تھا۔
بغداد جو صدیوں سے عالم اسلام کا مرکز تھا چند دنوں میں کھنڈر بن گیا تھا۔ لاکھوں انسان مارے گئے تھے، کتب خانے جلا دئیے گئے تھے اور علمی ورثہ پانی میں بہا دیا گیا تھا۔ کیا یہ سب محض عسکری ومعاشی بیانیہ تھا یا اس کے پیچھے وہ اجتماعی روحانی و تہذیبی زوال تھا جو کسی بھی قوم کے لیے عذاب الٰہی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ آج اگر ہم ان تاریخی مثالوں کو محض ماضی کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیں تو یہ ہمارا ناقص فہم اور ہماری بڑی غفلت ہوگی۔ فلسطین کے عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ ان کے اپنے اعمال یا کوئی سیاسی غلطی نہیں بلکہ پوری دنیا کی اجتماعی بے حسی ہے۔ جب ہم خاموش رہتے ہیں اور ظلم کو صرف اس بنیاد پر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک اور ہمارے گلی محلوں میں نہیں ہو رہا تو ہم دراصل عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔
مجھے خدشہ ہے کہ آٹھ ارب انسان کسی نئے عالمی بحران یا سانحے کی طرف تو نہیں بڑھ رہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ انسانیت جو بظاہر ترقی، آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کا راگ الاپتی ہے مل کر ایک خاص خطے کے انسانوں کی لائیو نسل کشی ہوتے دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ انسانیت ایک ایسے اخلاقی دیوالیہ پن میں مبتلا ہو چکی ہے جو کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کی اجتماعی غفلت اور خاموشی کا یہی رویہ جاری رہا تو شاید کل کوئی نیا ہلاکو، کوئی نیا ہٹلر، یا کوئی نیا عالمی تصادم یا کوئی نئی ایٹمی جنگ شروع ہو جائے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انسانوں کے پاس اتنے ایٹم بم موجود ہیں کہ اس زمینی سیارے جیسے چار مزید سیاروں کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔ فلسطین آج انسانیت کا سب سے بڑا آئینہ بن چکا ہے اور اگر آج ہم اس آئینے میں جھانک کر اپنی بے حسی، منافقت اور دوہرے معیار کا ادراک نہیں کرتے تو ممکن ہے کہ ہم بھی تاریخ کے ان کرداروں میں شامل ہو جائیں جنہیں عذاب کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی الٰہی عذاب کا شکار ہو چکے تھے۔