Saturday, 19 July 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Maryam Arshad
    4. Aik Zakhmi Watan Ki Awaz

    Aik Zakhmi Watan Ki Awaz

    پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر یقینی کشیدگی، جنگ کی کیفیت گہرے تاریخی، سیاسی اور جذباتی اسباب رکھتی ہے۔ سیاسی بیان بازی، لائن آف کنٹرول کی جھڑپیں اور معاشی اقدامات صورتِ حال کو دوبارہ غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو امن میں زیادہ فائدہ ہے۔ مکمل جنگ تو یقیناً آخری حد ہوگی۔ امریکہ، چین اور خلیجی ممالک جیسے طاقتور ملک بیچ بچائو کروا کر آپس کی کشیدگی کو کم کرتے ہیں۔

    کشمیر کا مسئلہ دونوں طرف کی قوم پرستی اور دہشت گردی کے واقعات نادانستہ طور پر کشیدگی کو بڑھاتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو مسلسل مکالمے کی ضرورت ہے کہ مثبت حل نکالا جائے۔ کبھی کبھی لگتا ہے پاکستان ایک ملک نہیں بلکہ ایک درد ہے جو مختلف جسموں میں بٹ چکا ہے۔ کچھ کے لیے خواب ہے، کچھ کے لیے نوحہ، کچھ کے لیے اقتدار کا سنگھا سن، کچھ کے لیے دہشت گردی میں لپٹی لاشوں کی سرزمین۔

    سیاسی تقسیم ایک ایسا نفسیاتی زہر ہے جو ہر دل میں اپنا الگ سانپ پالتی ہے۔ یہ سب لوگ جو کبھی بابائے قوم کے ایک پرچم تلے اکھٹے ہوئے تھے آج ایک دوسرے کے لہحوں، نعروں حتیٰ کہ پارٹی جھنڈوں سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ اب ہم دلیل نہیں بلکہ تردید سے بات کرتے ہیں۔ سیاست عوام کی خدمت اور رائے کا میدان ہوتی ہے مگر ہمارے سیاست بازوں نے اسے ذاتی عقیدت کا منبر بنا دیا ہے۔ جہاں سیاسی کارکن نہیں بلکہ پُجاری ہیں۔ ہم ووٹ نہیں دیتے بلکہ اپنا آپ بیعت دیتے ہیں۔ کیونکہ ووٹ کی تو کوئی عزت ہوتی ہے۔ جب قوم اپنی سیاسی سوچ کو ایمان بنا لے تو وہاں مکالمہ نہیں مناظرہ ہوتا ہے۔ دلیل نہیں فتوے لگتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اب نظریے نہیں رہے بلکہ قبیلوں میں ڈھل گئی ہیں۔

    زمانہ جہالت میں جیسے قبیلے ایک دوسرے کے خلاف لڑتے تھے آج اسی طرح ایک جماعت دوسرے کو غدار یا ایجنٹ کہتے ہے۔ یہ تقسیم ہمیں روز مرہ زندگی، خاندانوں، گلیوں، مسجدوں شادیوں اور سوشل میڈیا پر واضح دکھائی دیتی ہے۔ مت بُھولیں! جب شہری اور ریاست ایک دوسرے کو آئین کے دائرے میں قبول کریں تو ریاست اور مضبوط ہوگی۔ مگر افسوس! آج ہماری ریاست بھی اپنے ہی شہریوں سے خائف ہے۔

    جمہوریت کی چڑیا صرف الیکشن کے دن آزاد ہوتی ہے اس کے بعد اقتدار کا مکروہ کھیل شروع ہو جاتا ہے اور بچہ جمورا بس نعرے لگاتا اور مار کھاتا رہ جاتا ہے۔ کرسی کی جنگ میں سیاست باز یہ بھول گئے کہ روٹی، تعلیم، انصاف اور علاج عام آدمی کے بنیادی حقوق ہیں۔ ہم اپنے نوجوانوں کو تعلیم و تہذیب کی بجائے انتقام سکھا رہے ہیں۔ کیا ہم غور نہیں کرتے کہ ہماری نئی نسل کسی پرانی نفرت کی وارث بن رہی ہے؟ اور تو اور ہم نے سوچنے کی صلاحیت کھو دی ہے۔

    فیس بُک، یو ٹیوب اور ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز نے ہمیں دانش ور نہیں بلکہ تعصب کے مجسموں میں ڈھال دیا ہے۔ ہر شخص ایک اینکر ہے۔ ہر موبائل ایک ہتھیار ہے۔ اب لفظ بولتے نہیں بلکہ زخم دیتے ہیں۔ یہ تقسیم محض سیاسی نہیں رہی بلکہ یہ اب معاشرتی اور اخلاقی تقسیم بن چکی ہے۔ عزت و احترام کا گلا گھونٹ کر ہم چَتر چَتر بولتے ہیں۔ اگر ابھی بھی ہم نے خود کو نہ تبدیل کیا تو یہ تقسیم ذہنوں سے نکل کر ہوائوں میں تحلیل ہوتی ہوئی ایک دن سڑکوں پر خون کی لکیر بن کر کھچ جائے گی۔

    ہم نے پہلے 1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں یہی کچھ کیا۔ وہاں بھی عوام کی آواز کو دبایا گیا اور وہ خود ہم سے جُدا ہو گئے اور غیروں کے بن گئے۔ اس قوم میں بہت استعدادی قوت ہے۔ جس طرح ہر اندھیرے میں ایک روشنی چھپی ہوتی ہے۔ امید کی بہت سی کرنیں باقی ہیں۔ خدائے لم یزل کی مدد سے جس طرح ہم نے حالیہ جنگ جیتی ہے تو ثابت ہوا کہ ابھی بہت سی آوازیں ایسی ہیں جو دلائل سے بات کرتی ہیں۔ وہ تمام نوجوان جو کتاب، قلم اور سوال لے کر میدان میں نکلے ہیں وہی اس قوم کی آخری اُمیدیں ہیں۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنیاں ہوگی۔

    خدا کرے وہ دن بھی آئیں جب ہم سیاسی پارٹیوں کو بیانیے سے نہیں بلکہ کارکردگی سے پرکھیں۔ جب ہم شخصیات کے پیچھے نہیں بلکہ اصولوں کے پیچھے کھڑے ہوں۔ جب ہم ووٹ کو بیعت نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھیں گے اور جب ہم سچ کو اپنی خواہش سے نہیں عقل سے جانچیں گے۔ حالیہ جنگ میں فتح سے بلاشبہ یہ ثابت ہو چکا کہ اس قوم کو کوئی بھی بیرونی دشمن مارے گا نہ زلزلہ، نہ کوئی طوفان۔۔ بلکہ ہمیں وہ تقسیم مارے گی جو ہمارے اندر گھر کر چکی ہے۔ وہ تقسیم جو بھائی کو بھائی سے، دوست کو دشمن سے بد تر سمجھتی ہے۔ ہمیں اب رُک کر سوچنا ہوگا کیا ہم اپنے بچوں کو ایک ایسا پاکستان دیں گے جو صرف ماضی کا ماتم کرتا ہو؟ یا ایک ایسا پاکستان جہاں اختلاف رائے سے دشمنی نہیں بلکہ نئی ترقیاتی سوچ جنم لے؟

    اگر ہم نے آج بھی سچ کو نہ پہچانا تو ایک دن یہ سچ ہمارے ہی پیروں تلے دفن ہو جائے گا۔ ہم صرف ایک قوم نہیں بلکہ کئی چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی مٹی بن جائیں گے۔ آخر میں وطن کے نام میری یہ مختصر سی نظم:

    اب کے جنگوں کی نہیں صرف وفا کی بات کرو!
    خاکی اڑاتی سرحدوں پر روشنیوں کی رات کرو!

    دھوپ میں تپتے بدن پر چھایا کا خواب آئے
    سنگ دلوں پر بھی کچھ لمحے مہرو وفا کی بات کرو!

    ہم نے بارود چُنا، خون سے اپنی لکھی تاریخ
    اب کے دفتر میں فقط محبت کی آیات کی بات کرو!

    جو گرے تھے راستے میں ان کا بھی کوئی ذکر ہو
    جن کے ہونٹ تھے خاموش ان کی بھی لب کشائی کی بات کرو!

    زخم وقت نے لگائے مگر دل تو ابھی مردہ نہیں۔۔
    نفرتوں کو چھوڑو چلو آو شعور، سچ اور آگہی کی بات کرو!