پاک بھارت جنگ کے پانچویں روز اچانک سیزفائر نے بھارتی میڈیا اور سیاسی منظر پر جنگ سے زیادہ نفسیاتی تباہی پھیلائی۔ اپنے تئیں لاہور کی" پورٹ"، کراچی پورٹ، اسلام آباد میں فوجیں داخل ہونے کی خواہشوں کو خبریں بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منظر بدلنے والے اینکرز اور بی جے پی سرکار چکرا گئی۔ اس بدحواسی اور بھناہٹ میں میڈیا اور تجزیہ کار "ٹرمپ افزائی" میں جت گئے۔
اسی سینہ کوبی کے دوران کسی کایاں سپن ماسٹر Spin Master نے ہانک لگائی، بھائی لوگو، ہمیں پاکستان نے نہیں ہرایا بلکہ حقیقتاً یہ سب چین کے سبب ہوا۔ کتا کان لے گیا اور شہر کتے کے پیچھے دوڑ پڑا کا سا منظر ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، بھارتی میڈیا، ماہرین اور تجزیہ کار اسی بال کی کھال اتار رہے ہیں کہ پاکستان میں اتنا دم کہاں ! اس جنگ کے پردے کے پیچھے تو چین کا اسلحہ، دماغ اور زور لگ رہا تھا۔ یوں شکست کی سبکی کی چبھن کم کرنے کی صورت نکالی گئی۔
شکست کے زخم سہلاتے بھارتی میڈیا اور دانشوروں کو اس خبط عظمت نے بھی پریشان کر رکھا ہے کہ بھارت دنیا کی تقریباََ چوتھی بڑی طاقت ہونے کو ہے، کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑی معاشی طاقت کے سامنے پاکستان یوں خم ٹھوکر کھڑا ہوگیا۔ بار بار پاکستان کے آئی ایم ایف کے مقروض ہونے کا طعنہ ہے۔
آئی ایم ایف اور اے ڈی بی کے سمیت ہر عالمی مالیاتی فورم پر پاکستان کے قرضوں / امداد کو "دہشت گردی اور جنگ" سے جوڑنے کی کوشش ہے۔ دعویٰ ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں دوبارہ شامل کرائے۔ دوسری طرف سفارتی محاذ پر بھارت کی ناکامی کا رونا اس خوش فہمی پر ختم ہوتا ہے کہ بھارت اب دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے۔ دنیا کو بھارت کا ساتھ دینا پڑے گا اور وہی راگ الاپنا پڑے گا جو بھارت الاپ رہا ہے۔
کئی عالمی ماہرین اور بھارت کے اپنے مبصرین بھارت کی چوتھی بڑی معیشت کی ممکنہ رینکنگ کے بارے میں تفصیلاً لکھ چکے ہیں۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت چوتھی بڑی معاشی قوت ضرور بن رہا ہے لیکن بھارت کا معاشی اور سماجی نظام اس قدر منظم انداز میں ناہموار اور عدم مساوات پر مبنی ہے کہ عوام کی اکثریت کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے سے ان کے شب و روز پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
اسی موضوع پر حال ہی میں بھارت کے معروف میڈیا پلیٹ فارم دی وائر پر ایک معروف مبصر اور تجزیہ کار کا ایک چشم کشا مضمون چھپا ہے جس میں اس موضوع پر شایع ہونے والے بیشتر خیالات کو سمو دیا ہے۔
آئی ایم ایف ک کی 2023-24 کی رپورٹ کے مطابق جاپان 4.1 ٹریلین ڈالرز کی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ بھارت 3.9 ٹریلین ڈالرز کے ساتھ پانچویں بڑی معیشت ہے۔ بھارت کی معاشی نمو کے پیش نظر یہ بات طے ہے کہ اگلے سال بھارت اس رینکنگ میں چوتھے نمبر پر آ جائے گا۔ بھارت کی 3.9 ٹریلین ڈالرز کی جی ڈی پی کو اگر کل آبادی 1.4 ارب سے تقسیم کیا جائے تو فی کس اآمدنی 2,785 ڈالرز نکلتی ہے۔ تاہم اکنامکس کی زبان میں اکثر اوقات اوسط کے اعداد وشمار گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ان اعداد و شمار کو مختلف زاویوں سے مزید پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔
مثلاً ایک کمرے میں 10 لوگ موجود ہیں۔ نو لوگوں کے پاس 100 روپے فی کس سرمایہ ہے جب کہ ایک شخص کے پاس 9,100 روپے ہیں۔ یوں اعداد و شمار کے مطابق کمرے میں موجود لوگوں کے پاس 10 ہزار روپے موجود ہیں، یعنی فی کس ایک ہزار روپے لیکن عملاً نو افراد کے پاس صرف ایک سو روپیہ فی کس جب کہ ایک شخص کے پاس باقی رقم۔ اسی پیمانے پر ملکی سطح پر بھارت کی قومی دولت کو مختلف زاویے سے پرکھا جائے تو عام آدمی کی حیثیت جوں کی توں ہے اور رہے گی۔
دنیا کے ایک مشہور ادارے Oxfam کی ایک رپورٹ 2023 کے مطابق بھارت کے ٹاپ 1% ملکی دولت کے %40 پر قابض ہیں۔ مزید تفصیل میں جائیں تو ٹاپ ÷15 ملک کی ÷ 72 قومی دولت کے مالک ہیں۔ جب کہ نچلے ÷ 50 یعنی 70 کروڑ عوام کے پاس قومی دولت کا فقط تین فیصد ہے۔ دولت کے ارتکاز کا یہ ایک خوفناک تقابل ہے کہ دنیا کی چوتھی بڑی معاشی قوت کے باوجود عوام کی اکثریت کی اوسط جی ڈی پی غریب ممالک کے برابر ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کا ڈھنڈور اپنی جگہ لیکن عوام کی اکثریت کے شب و روز کی حقیقت یہی ہے۔
دولت کے ارتکاز کا یہ عمل کس تیزی سے جاری ہے؟ اس کا اندازہ ایک اور رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق بھارت میں 2020 میں ارب پتی لوگوں کی تعداد یعنی Billionaires کی تعداد 102 تھی جب کہ 2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 166 ہوگئی۔ یعنی دو سالوں میں ارب پتیوں کی تعداد میں 63 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ دوسری طرف عوام کے شب و روز میں بہتری کے بجائے مزید مسائل ہی حصے میں آئے ہیں۔ ایک اور تجزیہ کار کے مطابق ٹاپ 5÷ آبادی کو علیحدہ کر لیں تو بقیہ 95 فیصد بھارتی آبادی کی اوسط فقط 1?130 ڈالر فی کس رہ جاتی ہے!
دنیا اپنے مفادات اور مجموعی اثر و رسوخ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ سو ایک حقیقت یہ ہے کہ بھارت مستقبل کی چوتھی بڑی معیشت کے طور پر سامنے ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سیاست، سماج اور گورننس میں منظم انداز سے عدم مساوات اور معاشی ناہمواری کا مستقل بندوبست ہے۔
بھارت غالباََ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ذات پات کا نظام آج بھی قائم دائم ہے۔ آبادی کی اکثریت اج بھی نچلی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ 1980 کی منڈل رپورٹ کے تخمینے کے مطابق نچلی ذات کے لوگوں کی تعداد 52 فیصد تھی۔ تاہم 2011 کے شماریات کے مطابق یہ شرح 41 فیصد بتائی گئی۔ تمام حکومتوں نے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے گریز کیا ہے اس لیے صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم نچلی ذات پر مشتمل عوام کی تعداد 41 فیصد سے 52 فیصد کے درمیان ہے یعنی ملک کی کل آبادی کا نصف۔
ذات پات کے اس منظم نظام کی وجہ سے کم و بیش ملک کی 70 فیصد آبادی معاشی مواقع، ملازمتوں اور معاشی و سماجی امکانات سے محروم ہے یا ان کے راستے مسدود ہیں۔ غربت کا براہ راست اثر ان کی تعلیم، صحت اور بود و باش پر پڑتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بھارت میں سالانہ 1.7 ملین بچے مناسب خوراک میسر نہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے لیکن دوسری طرف بالائی طبقے کے پاس دولت کے بل بوتے پر بھارت نے دنیا بھر میں اپنی سافٹ پاوربڑھائی ہے۔ شائننگ انڈیا جیسے بیانیے سے دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ بھارت ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ پاکستان بھارت جنگ کے پانچ دنوں نے اس بیانئے کو بھی بھسم کر ڈالا ہے۔ ایسے میں شکست کے اعتراف کے بجائے اب اس بیانئے پر زور ہے کہ پاکستان نہیں، ہمارا اصل مقابلہ چین سے ہوا جس کا بھارت کو اندازہ نہ تھا۔