ہفتہ رفتہ میں وفاقی دارالحکومت میں گھر کے اندر نوخیز ٹک ٹاکرکے عید سعید سے چند روز قبل ظالمانہ قتل نے پورے سماج کو افسردہ کردیا، متاثرہ خاندان نے چترال سے اچھے مستقبل کے لئے اسلام آباد ہجرت کی تھی، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ انھیں اس نوع کے سانحہ سے سابقہ پیش آئے گا، کیونکہ مقتولہ کے والد ایک سرکاری ملازم ہیں، انکی نہ تو کسی سے دشمنی ہے نہ ہی کوئی کاروباری رقابت تھی، بدقسمتی سے جب ٹک ٹاکر پر قاتلانہ حملہ ہوا بشمول اس کے والد کوئی مرد گھر نہیں تھا، ذرائع کا کہنا ہے اپنی بیٹی کو شدید زخمی حالت میں پڑوسیوں کی کار میں ڈال کر اسکی والدہ ہسپتال لے کر گئی مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسی۔
اسکی وفات سے سوشل میڈیا پر ایک کہرام مچ گیا، عالمی میڈیا میں یہ واقعہ رپورٹ ہوا، "سیف سٹی "سمجھے جانے والے اس شہرمیں دن دیہاڑے قتل کی واردات نے بہت سے سوالات اٹھا دیئے، انتظامیہ نے پھرتی دکھا کر ایک نوعمر قاتل کو فیصل آباد سے برآمد کرلیا، ابتدائی تفتیش کے مطابق اس نے اعتراف بھی کرلیا، سب سے بڑا ثبوت اس سے مقتولہ کا موبائل فون ملنا تھا، موقع پاتے ہی اپنی دسترس میں لے لیا تھا یہ اسکی خام خیالی تھی کہ اس فعل سے تمام ثبوت مٹ جائیں گے، قاتل کی عمر بھی22سال بتائی جاتی ہے، اس کی حیاتی کا یقیناََ یہ پہلا قتل ہے، اگرچہ اس کے والد کا یہ کہنا ہے کہ اس کے بیٹے نے ٹک ٹاکر کا قتل نہیں کیا اس کا فیصلہ تو مگرقانون کو کرنا ہے۔
مقتولہ کی وجہ شہرت اس کا ٹک ٹاکر ہونا تھا، والدین کی اکلوتی بیٹی زندگی کی بازی ہارگئی اس کے بعد سوشل میڈیا پر لا متناہی بحث کا سلسلہ چل نکلا، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلقین نے اپنی اپنی دانست میں رائے کا اظہار کیا، کسی نے قتل کی وجہ اس کا ٹک ٹاکر ہونا کہا، دوسرے نے اپنی حد سے باہر نکل جانے کو اسکی غلطی قرار دیا، کچھ نے سستی شہرت کا بھیانک انجام کہا، بعض نے والدین کی عدم توجہ کو اس سانحہ سے نتھی کیا، جتنے منہ اتنی باتوں والا معاملہ بن گیا۔
بظاہر تو نو عمر قاتل کی یہ سنگین غلطی دکھائی دیتی ہے، سوال مگر اہم ہے کہ میٹرک پاس طالب علم کے ہاتھ پستول کا لگنا اور فیصل آباد سے اس کا اسلام آباد تک سفر کرتے ہوئے بچ نکلنا اور مقتولہ کے گھر کے پاس کئی گھنٹے رک کر ریکی کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، اس سارے عمل میں ہمارے ادارے کہاں رہے، اہل محلہ اور خود گھر والوں نے اس کی حرکات و سکنات کا نوٹس کیوں نہ لیا، سی سی ٹی کیمروں میں اس واقعہ کے بعد ملزم کا جانا ثابت ہے تو اس سے پہلے سکیورٹی پر مامور افرادکا نوٹس نہ لینا بھی ناقص کارکردگی کو عیاں کرتا ہے۔
نوعمر ٹک ٹاکر سے قاتل اگر پہلے سے رابطہ میں تھا تومقتولہ پر لازم نہیں تھا کہ وہ والدین کو آگاہ کرتی، انھیں اعتماد میں لیتی، پھر بھی وہ لڑکا باز نہ آتا تو پولیس کو رپورٹ کی جاتی، سائبر کرائم کی خدمات لی جاتیں تو صورت حال مختلف ہوتی۔
اس واقعہ کے بعد روشن خیال طبقہ نے حسب روایت اپنی توپوں کا رخ اسلام پسند طبقہ کی طرف موڑ دیا، عورتوں کی مظلومیت کا رونا دھونا شروع کر دیا، پدر سری اور زن بیزاری کے حامی اور مخالفین میدان میں اتر آئے، کچھ نے اس کو مذہب کے تناظر میں دیکھا دیگر نے اس کی آزاد خیالی کا تحفظ کیا۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر قاتل کو " پنجابی" کہہ کر لسانی رنگ دینے کی گھٹیا کاوش کی گئی، حالانکہ سب نے بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب، عقیدہ، زبان اس قتل کی بھر پور مذمت کی اور قاتل کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں رہنے والے ایک اعتبار سے بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کے سامنے علم کا ایک بہتا سمندر ہے بہت سی سہولیات گھر بیٹھے میسر ہیں، فری لانسرز کے طور نسل نو کواس سے روزگار بھی مل رہا ہے، لیکن اس کا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے غیر اخلاقی اثرات نسل نو پر مرتب ہو رہے ہیں، دھوکہ، فریب، بلیک میلنگ بھی اس سے وابستہ ہے۔
ایسا معاشرہ جس میں شرح خواندگی بہت کم ہے، والدین اس ڈیجیٹل عہد کی قباحتوں سے آشنا نہیں ہیں، انھیں اولاد کی جانب سے کچھ شکایات اسکی وجہ سے بھی ہیں، بعض مسائل بھی جنم لے رہے، بڑا نقصان گھر کی پرائیویسی کا متاثر ہونا بھی ہے پسندیدگی اور فالورز اور ہر طریقہ سے پیسہ کمانے کی نئی دوڑ میں نسل نو غرق ہورہی ہے، نتائج سے بے خبر بچیاں ایسی ٹک ٹاک بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں، تو بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہوتا ہے، جب اسکی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے، والدین بھی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
غالب آبادی نوجوانان پر مشتمل ہے مگر اس کی تربیت کا خاطر خواہ اہتمام قومی سطح پر نظر ہی نہیں آرہا، فی زمانہ میڈیا کو طاقتور ذریعہ سمجھا جاتا ہے مگر اس پر پیش کردہ ٹی وی ڈرامے بھی ماسوائے " لو سٹوری" دکھانے کے کوئی خدمت انجام نہیں دیتے، اس میں بھی ہیرو کو اس انداز میں پوز کیا جاتا ہے، کہ وہ شادی سے انکار پر لڑکی کو مارنے کی دھمکی کھلے عام دیتا ہے، اسی طرح نیٹ فلکس کی سیریز"ایڈولیسنس" کا تذکرہ ملتا ہے جس میں تیرہ سالہ بچہ اپنی کلاس فیلو کا قتل کرتا ہے، کہ اس نے دوستی سے انکار کیا تھا، سوال ہے کہ فیملی کے ساتھ رہنے والا 22 سالہ لڑکا قاتل کیوں بنا، کہا جارہا ہے کہ سٹار بننے کے شوق میں مقتولہ سے دوستی چاہتا تھا۔
نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کے رول ماڈل وہ ہونے چاہئیں جو ڈیجیٹل دور میں تحقیق اور علم، جستجو، تفریح کے میدان میں دنیا میں اپنا اور والدین کا نام روشن کر رہے ہوں جس طرح ایک بڑا نام ارفع کریم کا بھی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دونوں خاندانوں کی لاعلمی، غفلت، عدم تربیت سے ان کو نئے عذاب کا سامنا ہے، جس سے نسل کو بھی سبق سیکھنا چاہئے، قومی سطح پر نو خیزٹک ٹاکرز کے لئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق مرتب ہونا چاہئے، پیسے کی دوڑ میں اخلاقی سرحدوں کو پار کرنے والے والدین اور ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، جس سے بعض شر پسندوں کو پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملتا ہے کہ اس سرزمین پر لڑکیاں غیر محفوظ ہیں، سماجی روایات میں سب سے زیادہ احترام توبیٹیوں کو دیا ان سے پیار کیا جاتا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل اور قبیلہ سے ہو۔