Tuesday, 08 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Khalid Mahmood Faisal
    4. Naya Mazaniya

    Naya Mazaniya

    مثتاق یوسفی مرحوم فرماتے کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں ایک جھوٹ، دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا اعداد و شمار، آخر الذکر کا زیادہ استعمال اگرچہ ریاضی اور حساب کتاب میں ہوتا ہے مگر، قومی میزانیہ میں اس کی باز گشت زیادہ سنائی دیتی ہے، جس کو عرف عام میں قومی "بجٹ" کہا جاتا ہے، وزیر خزانہ قومی اسمبلی کے شورو شرابا میں اعداد و شمار بیان کرتے محض دو تین گلاس پانی پیتے ہیں، یہ اعداد و شمار کون سمجھ رہا ہوتا ہے، اراکین کی سنجیدگی کا اندازہ، بچوں کی طرح بجٹ دستاویز کے اوراق سے جہاز بنا کر فضا میں اچھالنے سے ہوتا ہے زیادہ جذباتی وہ ہوتے ہیں جو پوری کاپی ہی وزیر خزانہ کی جانب اچھال دیتے ہیں، حکومتی اراکین کا کام محض ڈیسک بجانا ہی رہ جاتا ہے۔

    ہمارے بجٹ میں یہ یکسانیت ضرور پائی جاتی ہے کہ ہمیشہ خسارہ اس کا مقدر بنتا ہے، گویا اسکی ابتداء ہی خسارے سے ہوتی ہے، اس کو پورا کرنے کے لئے بھاری بھر ٹیکس لگانے کی تجویز دی جاتی ہے اور جس چیز پر سب سے زیادہ ٹیکس لگتا ہے وہ سگریٹ ہے، سوشل میڈیا پر پہلی بار اس کے خلاف احتجاج "نشیوں" نے کیا، ان کا نقطہ نظر ہے کہ سگریٹ کو ہر بجٹ میں اس طرح مہنگا کرتے ہیں کہ جیسے سارا قرضہ ہم نے لیا ہے۔

    ملکی قرضہ جات کو ایٹم بم کی طرح صیغہ راز میں رکھا گیا ہے کہ از خود شک کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، کوئی بھی یہ بتانے کو مگر تیار نہیں کہ قرضے کس کس مد میں لئے گئے اور کہاں کہاں صرف ہوئے، اس سے قومی معیشت کو کیا فائدہ ہوا، اگر ان کا کہیں غلط استعمال بھی ہوا ہے تو اس میں کس کی غفلت ہے کس پر ذمہ داری عائد کی جائے۔ برسر اقتدار افراد اس بابت ایسٹ انڈیا کمپنی ثابت ہوئے ہیں، جو وسائل لوٹ کر باہر لے گئے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔

    ایک زمانہ تھا بجٹ پیش کرتے ہوئے بانی پاکستان کے اقوال کا تذکرہ ہوتا، اسلامی نظام معیشت کو بھی یاد کیا جاتا، جب سے اسکی ہدایات آئی ایم ایف سے آنے لگی ہیں، اپنے مشاہیر کو سرے سے ایک طرف رکھ دیا گیا، عالمی ادارہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر خوشہ گندم کو جلانے کی کاوش کی جارہی ہے جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقان کو روزی کا شکوہ علامہ اقبال نے کیا تھا وہ اب سچ نظر آرہا ہے، اقتصادی سروے میں زرعی ترقی میں تشویش کی حد تک کمی نے اچھی معاشی ترقی کا راز اگل دیا ہے۔

    خسارے کا بجٹ پیش کرنے کے بعد یہ توقع رکھنا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی اس میزانیہ کو بہت ہی اچھا کہیں، سیاسی جماعتیں بھی اس کی تحسین کریں تو بقول مثتاق یوسفی اسے اعدادو شمار کے علاوہ کیاکہا جائے۔ آج تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ تین چار گھنٹے کی تکلیف دہ تقریر سننے کے بعد اپوزیشن نے اس کو مسترد ہی کرنا ہے تو پھر ایسی اذیت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔

    ہمارے بجٹ کا طرہ امتیاز یہ بھی رہا ہے کہ ہمیشہ گروہ بندی کا شکار ہوتا ہے، غرباء کے لئے اس میں خوشخبریاں ہوتی ہیں جبکہ مراعات اشرافیہ کو ملتی ہیں، عام شہری کی عالمی مالیاتی ادارہ تک رسائی نہیں ورنہ وہ ان سے سوال کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں، کہ انکی تان غریب اور سرکاری ملازمین پر آکر ہی کیوں ٹوٹتی ہے، مقتدر اور ایلیٹ کلاس کو دی جانی والی مالی رعایات کیوں نظر نہیں آتیں، سرکاری ملازمین کی طرف سے

    سب سے زیادہ واجب الادا ٹیکس بھی انھیں دکھائی نہیں دیتا، مگر پنشن کے بوجھ کا درد وہ دور ہی سے محسوس کر لیتے ہیں۔

    ہمارا پنجابی والا "ہاسہ" نجانے کیوں نکل جاتا ہے جب وزراء خزانہ کہتے ہیں، تاریخ کا پہلا ٹیکس فری بجٹ ہے، نہیں معلوم انھوں نے کس"شہ" کانام ٹیکس رکھا ہوا ہے، ورنہ ماچس کی ڈبیا سے کرایزی لوڈ تک ٹیکس نافذالعمل ہے، پھر ٹیکس فری بجٹ کی گردان شہریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

    اہل وطن کے "انگ انگ" سے ٹیکس وصولی کے بعد بھی اگر ہمارے قرضہ جات میں خاطر خواہ کمی نہیں آرہی تو صاحب ثروت کی آمدن سے ٹیکس وصولی کو رواج دیں، ممکن ہے کہ گرتی ہوئی معیشت کو"آفاقہ" محسوس ہو، ویسے ہمارا شمار ان بدقسمت معاشروں میں ہوتا ہے، جہاں قانوناً دوسروں کا معاشی بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، افسران اعلی کی فوج ظفر موج "عیاشی" کرتی ہے، تو غریب کا دل بیٹھ جاتا ہے ہمارا طرز حکمرانی جس شاہی انداز کا ہے، کئی نسلیں مقروض ہی پیدا ہوں گی۔ نومولودکی تسلی کے لئے یہ کہنا پڑتاہے مت رو یہ خسارہ کا آخری بجٹ ہوگا۔

    کیا قسمت پائی نہ بجٹ سے پہلے انجوائے کر سکتے ہیں نہ اس کے بعد مسکرا سکتے ہیں، ہماری تجویز ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف سے بنوانے کی بجائے فن لینڈ سرکار کے ماہرین سے بنوایا جائے دنیا میں خوش رہنے والی یہی واحد قوم ہے، لیکن جس کثیر مقدار میں رقوم صدراتی محل، وزرا اعظم کے دفاتر کی تزئین و آسائش کے لئے رکھی جاتی ہے، خدشہ ہے کہ یہ امتیازی سلوک دیکھ کر ان کے آنسو ہی نہ نکل آئیں، ہمیں ان حکمرانوں پر رشک آتا ہے جو پروٹوکول کے عذاب میں مبتلا نہیں، وہاں کی مقتدر کلاس عام شہری کی طرح زندگی بسر کرتی ہے، ہٹو بچو کی عدم پالیسی سے جو بھاری رقوم بچتی ہے عوام پر خرچ کرکے حکمران طبقہ راحت محسوس کرتا ہے، از خو داپنی مراعات میں اضافہ پر ملکہ رکھنے والوں کی شاہ خرچیاں ہمیں سونے نہیں دیتیں۔

    سابق چیرمین ایف بی آر نے یہ بھی انکشاف کیا ہے، کہ اب تو عالمی مالیاتی ادارہ بھی ان کے آگے ہاتھ جوڑ گیا ہے کہ ہم اس ریاست کے معاشی معاملات سے عاجز آچکے ہیں، ریاست مولانا ظفر علی خاں کے اس شعر کی مصداق ہے کہ۔۔

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

    بانی پاکستان نے 21 مارچ 1948 کی تقریر میں فرمایا پاکستان ایسی مملکت بن جائے ایک بار فاروق اعظمؓ کے سنہری دور کی یاد تازہ ہوجائے، پاکستان میں ہر شخص کا معیار زندگی اتنا بلند کر دیا جائے کہ امیر غریب میں کوئی فرق باقی نہ رہے۔

    مغل شاہی کی بد انتظامی نے شہزادوں اور شہزادیوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا تھا، عوام کی طرح باہر بھاگنے کی سہولت انھیں میسر نہ تھی۔ اچھی معیشت کے دعوں کے باوجود عالمی بنک کہتا ہے45فیصد کے قریب آبادی حالت غربت میں ہے، ہرنیا مزانیہ بقول یوسفی محض اعدادوشمار ہی ہوتا ہے، تو پھر عوام اسے سفید جھوٹ کیوں نہ سمجھیں۔