طرفہ تماشا ہے کہ سیکولر پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونی والی مشرقی روایات کی حامل اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم نے نہ جانے کس خیال میں عوامی اجتماع میں اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ قرار دیا، ایسا بیان دینے پر کس نے آمادہ کیا، کس کی خوشنودی کے لئے انھوں نے لب کشائی کی، جنرل ضیاء الحق کی اسلامائیزیشن پالیسی کے اثرات عوام کے اذہان سے ذائل کرنے کے لئے شائدیہ پیغام دینا چاہتی ہوں، کامل یقین ان کے عہد سے قبل اگر اسلامی سزاؤں کا مکمل اطلاق اس سرزمین پر ہوتا تو ان کے بھائی کبھی بھی اندھی گولی کا نشانہ نہ بنتے نہ ہی محترمہ کے بچوں کو اپنی والدہ ماجدہ کی شہادت کا گہرا دکھ اٹھانا پڑتا، اسلامی قانون کے حوالہ سے ارباب اختیار نجانے یہ تاثر کیوں دیتے ہیں اس کی سزائیں ظالمانہ ہیں، قانون کے نفاذ کے جو فوائد ہیں وہ بتانے سے نجانے کیوں گریزاں ہیں۔
دلچسپ امر ہے کہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہماری عدلیہ کے درخشندہ ستارے، منصف مزاجی، قانون پسندی جن کی ضرب المثل تھی، اسلامی قانون کے اطلاق اور نفاذ کو قانون کی حکمرانی کے لئے انھوں نے اسے لازمی قرار دیا، یہ مسیحی جسٹس اسلام کے فلسفہ انصاف، اسلامی روایات کا گہرا مطالعہ اور فہم رکھتے تھے، دوران تعلیم کیمرج یونیورسٹی میں عربی زبان میں انھوں نے مہارت حاصل کی، جس کی بدولت وہ اسلامی عدل و انصاف کی روایات اور لٹریچر سے بخوبی آگاہ تھے، وہ زکوۃ، وقف اور سماجی، معاشی احکامات، ان اداروں کی انفرادیت اور فعالیت کے بھی حامی تھے۔
1960-1968 تک چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہے، مارشل لاء کے دور میں بے مثل اور کلیدی فیصلے کئے کہ عدالتی تاریخ ان پر نازاں ہے، مولوی تمیزالدین کیس میں 53 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ تحریر کیا، ملکی عدالت کو معتبر اور ممتاز بنا دیا، سید مودودی بنام سرکار مقدمہ میں جماعت اسلامی پر پابندی کو غیر قانونی قرار دیا اور لکھا کہ کسی بھی جماعت کو محض اس کے خیالات اور نظریات کی بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا، 1967 عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلہ میں رقم کیا کہ کسی بھی شہری کو محض اس لئے حراست میں رکھنا کہ ریاست کو اس سے اطمینان ہو غیر قانونی ہے۔
اس ہستی کا نام جسٹس اے آر کارنیلس ہے، اسلامی قانون کے نفاذ کے بڑے داعی کے طور پر ان کا انٹرویو سامنے آیا ہے جو انھوں نے جید صحافی الطاف حسن قریشی کو دیا انکی کتاب "دانش گفتگو" میں محفوظ ہے، محترم مسیحی چیف جسٹس اب دنیا میں نہیں ہیں، اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہو سکتی ہے، فرمایا، قانون کا جذبہ اسی وقت ابھرتا جب دل میں اس کا احترام موجود ہو، یہ خود رو جذبہ کسی خارجی محرک کا محتاج نہیں، دل میں اسی قانون کا احترام پیدا ہوگا، جو ہمارے احساسات کے مطابق ہو ہم قانون کی حکمرانی اگر یہاں چاہتے ہیں، تو ہمیں وہ نظام قانون نافذ کرنا ہوگا، جسے عامۃالناس پسند کرتے ہیں اور یہ اسلامی قانون ہے۔
اس کے نفاذ سے ملک کی قانونی زندگی میں ایک انقلاب آئے گا، ہمارے بزرگوں نے اسلامی قانون پے اتنا کام کیا ہے، فقہی مباحث میں اتنے لطیف نقطے بیان کئے ہیں ان مباحث کو نئے انداز میں مرتب کرتے تو یہ دنیا کا بہترین قانونی سرمایہ ہوتا، ضرورت اس بات کی ہے، اسلامی قانون کو اس طرح مدون کیا جائے کہ اسے سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا آسان ہو جائے، عدالتی نظام تو موجود ہے اور افراد بھی قانونی ضابطوں کے عادی ہیں۔
بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں، اسکی ایک تاریخ اور پس منظر ہے، اس کے مطابق بڑی بڑی سلطنتیں چلتی رہی ہیں، ماضی قریب میں یہ عدلیہ میں نافذالعمل رہا ہے، اسلامی قانون تسلسل کی تمام کڑیاں رکھتا ہے۔ اسلامی قانون کے نفاذ سے اقلیتوں کے تحفظ کو نقصان تو نہیں پہنچے گا، سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہوگا، اسلام اقلیتوں کے جان، مال، حقوق اور شخصیت کی نشوونما کی ضمانت دیتا ہے، اسی طرح جہاں تک بنیادی حقوق کا تعلق ہے، اسلام کا مزاج تو بنیادی حقوق کا تقاضا کرتا ہے، یہ مذہب آدمی کا احترام سکھاتا ہے۔
فقہی اختلافات بھی اسلامی قانون کے نفاذ میں مانع نہیں ہوں گے، یہ اختلافات اسی وقت تک نظر آئیں گے جب تلک عملی قدم نہ اٹھایا جائے، پھر قانونی تعبیرات میں اختلافات کوئی غیر فطری بات نہیں، انکی رائے ہے کہ جج صرف قانون کا پابند ہوتا ہے، اس کو ہر منبع آلائش سے پاک رہنا چاہئے، ایک بار اگر مصلحت قانون کے قلعہ میں داخل ہوگئی، تو پھر قانون کی نہیں مصلحت کی حکمرانی ہوگی۔
افسر شاہی کی بابت فرمایا کہ انگریزوں کے زمانے میں اس قسم کے نظام کی توجہی کی جاسکتی تھی، کیونکہ اس نے طاقت کے زور پر لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی اس میں وہ کامیاب بھی رہا، لیکن اس طرزعمل نے عوام میں نفرت اور حقارت کے جذبات پروان چڑھائے، اب آزاد قوم کے لئے یہ طرزعمل انتہائی غیر مناسب ہے، عوام میں محبت، اعتماد، ذمہ داری کی فضا پیدا کرنے کی ضروت ہے۔
اسلامی قوانین سے پرخاش رکھنے والا روشن خیال طبقہ اس قانون کو صرف سزاؤں کے تناظر میں دیکھتا ہے، باوجود اس کے اسلامی دنیا میں اس کی نافذالعمل شکل موجود ہی نہیں، لیکن بنی ﷺ مہربان کی حیات مبارکہ اور خلیفہ دوئم کے عہدکا عمدہ مثالی معاشرہ اس کا عکاس ہے، لاکھوں مربع میل کی ریاست میں امن، انصاف اور خوشحالی تھی، حضرت عمرؓ کے دور میں جب زلزلہ آیا تو آپؓ نے اپنا عصا زمین پر مار کر کہا بتا تجھ پر انصاف نہیں ہوتا، روایت ہے کہ زلزلہ تھم گیا۔
اسلامی قانون کے عدم نفاذ کی وجہ سے قانون اشرافیہ کی باندھی کا درجہ رکھتا ہے بااثر فرد سر بازارمعاشرہ کے کمزور افراد کی درگت بناتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے، تاج برطانیہ کے دور میں جس طرح افسر شاہی کا نظام کمزور کو دبانے کے لئے تھا، اسی طرح انگریز بہادر کا نظام عدل بھی طاقتور ہی کوانصاف فراہم کرتا ہے۔
سابق مسیحی منصف اعلی اسلامی قانون کے نفاذ کے متمنی تھے، مثالی امن، سرمایہ کاری کے فروغ، عوام الناس کے جان، مال، آبرو کے تحفظ، مافیاز کے قلع قمع کے لئے اسلامی قانون کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے، بقول جسٹس اے آر کارنیلیس اہل پاکستان دلوں میں اسلامی قانون کی بے پناہ محبت رکھتے ہیں، قانون کی حکمرانی کے لئے کسی خارجی محرک کی ضرورت نہیں پیش نہیں آئے گی، ظالمانہ سزاؤں کا پروپیگنڈہ خلاف عقل ہے، ملک کی پر امن غالب آ بادی کو اس کے نفاذ سے بھلا کیا خوف ہو سکتا ہے۔