Friday, 19 April 2024
    1.  Home/
    2. Irshad Ahmad Arif/
    3. Jung Ke Baad Yad Aane Wala Mukka

    Jung Ke Baad Yad Aane Wala Mukka

    دھرنا ختم ہو گیا۔ اپنے پیچھے مگر بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ کچھ حقیقی اور کچھ غیر حقیقی۔ پاکستان میں عدالتی فیصلے کے خلاف یہ پہلا احتجاج نہ تھا۔ عدالتی فیصلوں کو بے توقیر کرنے اور ججوں کی دیانت و امانت پر سوال اٹھانے کا آغاز عوامی مقبولیت کی دعویدار، تجربہ کار اور آئین و قانون کی حکمرانی کی علمبردار جماعتوں نے عشروں قبل کیا۔ قتل کیس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو سزا ملنے پر جوڈیشل مرڈر کا نعرہ لگا۔ چیف جسٹس انوارالحق اور سپریم کورٹ کے دیگر قابلِ احترام ججوں کو بھٹو کا قاتل ٹھہرایا گیا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلزپارٹی تین بار اقتدار کے مزے لوٹ چکی مگر یہ "متنازعہ" فیصلہ ری اوپن اور عدالتی طریقہ کار کے مطابق سزا کو غلط ثابت کرنے کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ 1993ء میں سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحق خان کے آئینی و قانونی اختیار کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر قومی اسمبلی اور نواز حکومت بحال کی، نظریۂ ضرورت کو دفن کیا اور عدالتی فعالیت کی بنیاد ڈالی مگر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس جرأت مندانہ عدالتی فیصلے کو چمک کا نتیجہ قرار دیا۔ ججوں کے خلاف بازاری زبان استعمال ہوئی اور غلام اسحق خان کے ساتھ مل کر بحال ہونے والی منتخب اسمبلی اور حکومت تحلیل کرائی۔ 1997ء میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے پرجوش کارکنوں نے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ سے ناراضگی کا اظہار سپریم کورٹ پر حملہ کی صورت میں کیا اور مخالفین نے کوئٹہ بنچ پر بریف کیس لینے کا الزام لگایا۔ پچھلے سال پانامہ کیس میں نا اہلی کے بعد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے ارکان اور فیصلے پر کئی ماہ تک گوہر افشانی کی۔ عوام کو سڑکوں پر لا کر فیصلہ تبدیل کرانے اور نہال ہاشمی، طلال چودھری جیسوں کے ذریعے معزز ججوں کو نشان عبرت بنانے کی باتیں کل کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ یہی سلوک ہمارے سیاستدان، فوج اور پرائم ایجنسی آئی ایس آئی سے کرتے رہے اور صرف عدالتیں ہی نہیں دیگر سیاسی جماعتیں خاموشی سے برداشت کرتی رہیں۔ کسی کو خیال نہ آیا کہ عدلیہ، فوج اور دیگر قومی اداروں کو بازیچہ اطفال بنانے، ان کی عزت و توقیر کو کم کرنے اور گلیوں، بازاروں، چوراہوں میں ان پر الزام تراشی کا کلچر پروان چڑھانے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ طاقت خواہ بندوق کی ہو، عوام کی یا کسی نسلی، لسانی اور مسلکی و مذہبی عصبیت کی اگر عدلیہ، قانون اور آئین پر غالب آئے، ہر گروہ عدالتی فیصلوں کے خلاف احتجاج شروع کردے تو ریاست کی رٹ برقرار رہے گی نہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد آسان۔ دھرنے میں عدلیہ حکومت اور فوج کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ ہر لحاظ سے قابل اعتراض، قابل گرفت اور قابل مواخذہ ہے، یہ کسی عالم دین تو کیا کسی عامی کو بھی زیب نہیں دیتی۔ کاروبار زندگی تلپٹ ہوا، عوام الناس کو کوفت ہوئی اور تین دن تک ملک مذاق بنا رہا مگر ریاست اور ریاستی اداروں کے ساتھ "یہ حسن سلوک" پہلی بار نہیں ہوا، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے ایک بار نہیں بار بار ارتکاب کیا، اور آج تک شرمندہ نہیں ہوئیں۔ رہا دھرنا تو اس پر فخر صرف تحریک انصاف کو ہے اورسول نافرمانی کی تحریک بھی موجودہ حکمران جماعت چلا چکی ہے، جسے مخالفین بغاوت قرار دیتے تھے۔ عایں گنا ہیست کہ در شہرشما نیز کنندفوجی، سیاسی اور عدالتی قیادت کے خلاف عام شہریوں کو جرم پر اکسانے کی ترغیب البتہ تحریک لبیک کی قیادت اور حکومت دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جس کا جواز ماضی کے کسی واقعے اور سیاسی قیادت کے طرز عمل سے ڈھونڈا نہیں جاسکتا۔ آئندہ شرپسندوں، قومی املاک اور شہریوں کو نقصان پہنچے نہ کسی کو عدالتی فیصلوں کی مٹی پلید، "جوڈیشل مرڈر"، "چمک" اور "مجھے کیوں نکالا" کی لایعنی تکرار کرنے کی جرأت ہو، یہ اب سوچنا پڑے گا۔ فوج، عدلیہ اور حکومت نے تحمل و برداشت کا مثالی مظاہرہ کیا، ورنہ چیف جسٹس کے لیے از خود نوٹس لینا مشکل تھا نہ حکومت کے لیے سخت گیر اقدام ناممکن۔ حکومت نے لاٹھی چلائے، خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر مذاکرات سے دھرنا ختم کرایا، یہ اس کی کامیابی ہے۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ مستقبل میں ملک کو دھرنوں کی سیاست اور عدالتی فیصلوں کی تحقیر و مذمت سے بچانے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ جملہ سیاسی و مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر یا باہر میز پر بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان کی طرز کا ضابطہ اخلاق تشکیل دیں۔ ردعمل کی نفسیات سے چھٹکارا پانے اور متنازعہ معاملات پارلیمنٹ و عدلیہ کے بجائے سڑکوں پر لانے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کے لیے کم از کم نکات پر متفق ہوں اور قانون کی حکمرانی کو ہر حال میں برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائیں۔ کسی شخص، گروہ، تنظیم اور غیر سرکاری ادارے کو اسلحہ اٹھانے، قانون کو ہاتھ میں لینے اور شہروں کو بند کرنے کی اجازت ہو نہ کوئی حکومتی ادارہ اس پر کمزوری دکھائے۔ مختلف شہروں میں جمہوری احتجاج کے لیے مختص مقام کے علاوہ کہیں بھی اجتماع کی اجازت ہو نہ ہنگامہ آرائی قابل برداشت عمل۔ آئین میں جن اداروں کے خلاف زبان درازی اور جن موضوعات پر اظہار خیال کی ممانعت ہے، ان پر یاوہ گوئی کی اجازت کسی مقبول سیاسی رہنما کو ہو نہ کسی شعلہ بیان مذہبی مقرر اور نہ آزادی اظہار کے علمبردار دانشور و تجزیہ کار کو۔ ایک لحاظ سے نیا عمرانی معاہدہ۔ ایک بار اتفاق رائے ہو جائے تو پھر زمین پھٹے یا آسمان گرے کسی کو حدود و قیود سے تجاوز کی اجازت ہو نہ کسی حوالے سے رو رعایت کا امکان۔ جہاں ڈنڈا چلانے کی ضرورت ہے گریز نہ کیا جائے اور جہاں ریاست ماں کا کردار اداکرے وہاں کوئی فرد یا گروہ بلا وجہ حاشیہ آرائی اور موشگافی کی گنجائش نہ نکالے۔ معاملات کیوں بگڑتے اور ریاست کہاں بے دست و پا نظر آتی ہے؟ اس سوال کا تجزیہ سنجیدگی سے کیا جائے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست اگر تعلیم، صحت اور روزگار کی طرح مذہب کی اونر شپ لینے سے انکاری ہو، امریکی اور یورپی ایجنڈے کو مقدس جان کر ایک گروہ قرار داد مقاصد سے لے کر آئین کی اسلامی شقوں اور 295سی ایسے قوانین کے خلاف آئے دن لا یعنی موشگافیاں کرے، بھارت میں عدالتیں پارلیمنٹ کی موجودگی میں ہم جنس پرستی اور زنا بالرضا کی اجازت دینے لگیں اور اسے عدالتی فعالیت سے تعبیر کیا جائے تو پاکستان میں شک و شبہ فطری ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی توہین کے مرتکب سلمان رشدی سے لے کر بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین تک مغرب کے ہیرو ہوں اور پاکستان میں ایک لابی ان کی ڈھٹائی سے وکالت کرے تو جذبات بار بار ابلیں گے اور حالات بگڑتے دیر نہیں لگے گی۔ یہاں ایک طبقہ ہر دور میں لال مسجد برپا کرنے کی خواہش سے مغلوب ہے اور وہ مذہب کے ہر نام لیوا کو مولانا عبدالرشید کے انجام سے دوچار کرنے کا طلبگار۔ معاہدے پر یہی طبقہ سیخ پا ہے اور حکومت، فوج اور عدلیہ کو ریاست کی رٹ بحال کرنے کے نام پر ایسے اقدامات کی ترغیب دے رہا ہے جس سے حالات دوبارہ خرابی کی جانب گامزن ہوں مگر کیا یہ مسئلہ کا پائیدار حل ہے یا جمعہ جمعہ آٹھ دن کی حکومت کو ایک بار پھر کسی نئے بحران میں مبتلا کرنے کی مجنونانہ خواہش۔ اگر لال مسجد آپریشن سے پرویز مشرف کو استحکام نہ ملا۔ سانحہ ماڈل ٹائون آج تک شریف برادران کے لیے ڈرائونا خواب ہے تو تحریک انصاف کیا دونوں حکومتوں سے زیادہ مضبوط ہے؟ جبکہ "قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں " کا نعرہ لگانے والوں کے عزائم کسی سے پوشیدہ ہیں نہ نیت مخفی۔ فائر فائٹنگ ہو چکی۔ مسئلہ کا پائیدار حل درکار ہے جو معاہدے سے انحراف میں مضمر نہیں کہ حکومت اور ریاست اندرون و بیرون ملک بے توقیر ہو گی۔ ان العہدکان مسئولا۔ معاہدے کے بعد اشتعال انگیز بیان بازی پس جنگ یاد آنے والا مکا ہے جسے سیانے اپنی ناک پر مارنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ آپریشن اور کیمو تھراپی کا عمل ایک ساتھ ہو؟ حکمت و دانائی مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ آج ہی حکمت و دانائی سے کام لینے کا آغاز کیوں نہیں؟ اتنے بڑے جھٹکے سے سبق سیکھنے میں حرج کیا ہے؟