Sunday, 05 May 2024
  1.  Home/
  2. Ibn e Fazil/
  3. Shukrana

Shukrana

کیا کررہے ہیں سر جی؟

فیول سیل ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ پڑھ رہے ہیں۔

فیول سیل ٹیکنالوجی، یہ کیا بلا ہے سرجی؟

فیول سیل ٹیکنالوجی ایک بالکل نئی ٹیکنالوجی ہے جس میں ہائیڈروجن کے ذریعہ سے اسے جلائے بغیر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ آج سے چند سال قبل جب فیول سیل ٹیکنالوجی پرتجرباتی کام کا آغاز کیا جارہا تھا، اس وقت یورپ کی مشہور کاریں بنانے والی کمپنی مرسڈیز نے کچھ اور کمپنیوں کے ساتھ مل کر تقریباً ایک ارب یورو اس ٹیکنالوجی پر تجربات کرنے کے لیے دیے تھے۔ ایک ارب یورو صرف تجربات کے لیے، یہ کمپنیوں والے بھی دیوانے ہی ہوتے ہیں شاید اتنی محنت سے کمائی گئی اس قدر بڑی رقم صرف ایک امید پر تجربات کی نذر کردیتے ہیں، جس کا سو فیصد یقین بھی نہیں کہ کامیاب ہوگی یا کہ نہیں؟

لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ یہ دیوانے نہیں۔ کیونکہ ٹیکنالوجی اور پھر معیشت پر یہی لوگ راج کرتے ہیں جو تحقیق پر بے طرح خرچ کرتے ہیں۔ اب دیکھو حال ہی میں مرسڈیز کمپنی نے دو مزید کمپنیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے وہ فیول سیل ٹیکنالوجی کی حامل بیٹریاں بنانے کا پلانٹ لگارہے ہیں۔ یعنی ان کی تحقیق پر لگی وہی خطیر رقم اب ان کے لیے اگلی کئی دہائیوں تک مارکیٹ پر حکومت کرنے کا باعث بنے گی۔

سرجی ہمارے گھر کے سامنے وہ چھوٹی سی نہر ہے نا۔

جی۔

آجکل اس پر پل بنارہے ہیں۔ سرجی وہ مستری بھی دیوانے لگتے ہیں۔ اتنی چھوٹی سی نہر کے پل کےلیے اتنے موٹے موٹے اور اتنے زیادہ سریے ڈال رہے ہیں جیسے اس پر سے جہاز گزارنا ہو۔

نہیں محمد حسین وہ دیوانے نہیں ہیں۔ جب بھی کوئی پل یا بڑی عمارت بنائی جاتی ہے تو تعمیرات کے ماہر سے سریے کی مقدار اور معیار کے متعلق ٹھیک ٹھیک معلومات لی جاتی ہیں، جو باقاعدہ حساب کتاب کرکے انہیں بتاتا ہے کہ اس میں کتنا اور کونسا سریا ڈالنا ہے؟ ایسا نہ کریں تو کسی وقت کوئی بڑا ٹرالر وہاں سے گزرتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوسکتا ہے۔

سرجی کل میں نے ایک سلی سلائی قمیض خریدی۔ سرجی وہ قمیض سینے والے بھی شاید دیوانے ہی ہوتے ہیں۔

کیوں اب وہ کیوں دیوانے ہونے لگے؟

سرجی دیکھیں نا جوقمیض کی کفیں ہیں نا، ان پر دو دو بٹن لگائے ہیں۔

محمد حسین کف پر دو بٹن اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ اگر آپ گھڑی پہننے کے عادی ہوں تو باہر والے بٹن بند کرلیں ورنہ اندر والے، یاد رکھو اس دنیا میں کوئی بھی دیوانہ نہیں۔ سب سمجھدار ہیں کوئی بڑے سے بڑا ادارہ ہو یا چھوٹا موٹا بندہ، بنا ضرورت بغیر حکمت اور مقصد کوئی کام نہیں کرتا۔

آپ سچ کہتے ہیں سرجی کل میں نے بھی ایسا ہی ایک منظر دیکھا تھا۔

اب کیا دیکھ لیا تم نے؟

ایک ریڑھی والا سبزی بیچ کر جارہا تھا۔ اس کی ریڑھی پربچی کھچی سبزی اور پتے وغیرہ تھے۔ جاتے جاتے وہ ایک گھر کے باہر رکا اور وہ سارا کچرا دیوار کے ساتھ پھینک دیا۔ میں نے سوچا کہ یہ ریڑھی والا بھی دیوانہ ہی ہے۔ بھلا اتنے سارے کچرے کے ڈرم راستے میں آئے ان میں نہیں پھینکایہاں کسی کی دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گیا ہوگا کہ گھر کے اندر سے بکری کے دو میمنے آئے شوق شوق سے کھانے لگے۔ تب میں نے سوچا کہ واقعی دیوانہ کوئی نہیں یہاں سب سیانے ہیں۔ لیکن آج تو یقین ہوگیا۔

اچھا محمد حسین۔

جی سرجی۔

یہ بتاؤ، تم کیا کررہے ہو آج کل؟

میں کیہہ کرنا سرجی، نکما ویلا۔

محمد حسین تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟

جی سر جی میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں بالکل بے کار آدمی ہوں کچھ نہیں کرسکتا۔ بہت بار کرکے دیکھ لیا مجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا۔

دیکھو محمد حسین ابھی تم نے خود ہی مانا کہ دنیا میں کوئی دیوانہ نہیں سب سیانے ہیں۔ مرسڈیز بنانے والی کمپنی سے لےکر ریڑھی والے اور درزی سے لےکر مستری تک کوئی بھی بنا مقصد اور حکمت کام نہیں کرتا۔

جی جی یہ تو سچ ہے۔

پھر تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ خالقِ کائنات، حاکم کل نے کوئی کام بغیر مقصد کیا ہوگا؟ کیا اس نے اپنی سب سے زبردست تخلیق، احسن تقویم اس مثالی تجسیم کو بنا کسی ہدف کسی مقصد ہی بنادیا ہوگا؟ کیا مالک ارض وسماں نے تمہیں وجود بخشنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ کر رکھی ہوگی؟ بھئی ہمارے خیال میں تو کسی انسان کا ایسا تخیل کرنا بھی کہ وہ کسی کام کا نہیں اس انسان کی توہین ہی نہیں بلکہ خالق کی صلاحیتوں کا بھی انکار ہے چہ جائے کہ وہ عملاً تن آسانی اور سہل پسندی کا شکار ہوکر بالکل عضو معطل ہی ہورہے۔

ایسے میں تو وہ ایک طرح سے دست قدرت کے فلسفہ تخلیق کے ہی تحقیر کررہا ہوتا ہے۔ ہم تو دل وجان سے اس نظریہ کے قائل ہیں کہ اللہ کریم کی عطاء کردہ ارمغان حیات اور بے پایاں نعمتوں کا اصل شکرانہ ہی یہ ہے کہ انسان اس کی تفویض کردہ صلاحیتوں اور متاعِ وقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے خود کو اپنے لیے، اپنے متعلقین کے لیے، اپنے معاشرے اور ملک وملت کے لیے مفید ترین انسان بنالے۔