Thursday, 22 May 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Hameed Ullah Bhatti
  4. Tarkeen e Watan Ka Ijtima Aur Imkanat

Tarkeen e Watan Ka Ijtima Aur Imkanat

سپین اور ڈنمارک گھومنے کے بعد یہ سطور سویڈن کے شہر مالمو سے تحریر کر رہا ہوں۔ اِس دوران تارکینِ وطن کی جن محافل میں شرکت کا موقع ملا ہے اُن میں اسلام آباد کے اجتماع کا بہت تذکرہ ہوا جس میں تائید سے زیادہ تنقید کا پہلو غالب رہا۔ اکثریت متفق نظر آئی کہ اِس سے کچھ خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے اور یہ کہ اِس کا مقصد دراصل تاکینِ وطن میں پی ٹی آئی کو حاصل مقبولیت کا توڑ کرناتھا۔ المختصر اِس بنا پر یہ پہلا اجتماع تھا جس میں سویلین اور عسکری قیادت دونوں ہی نہ صرف شامل ہوئیں بلکہ ملکی معاملات سے آگاہی دینے کے ساتھ قومی ترجیحات کے حوالے سے تارکین کو اعتماد میں لیا لیکن یہ اجتماع کیا ملکی معیشت کے لیے نئے امکانات کو جنم دے گا؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب درست نہیں ہوگا۔

اسلام آباد کے اجتماع کو تاکینِ وطن کا اِس بنا پر نمائندہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ پہلی ایک دو لائینوں کے بعد بیٹھے زیادہ تر لوگ حکمران جماعتوں کے عہدیدار و کارکن تھے جو نہ صرف خود تارکینِ وطن کے لبادے میں دارالحکومت پہنچ کر ریاستی مہمان بنے بلکہ ہم خیال لوگوں کو اسلام آباد لانے کے لیے بھی متحرک رہے۔ سویڈن کے شہر مالمو میں میرے اعزاز میں منعقد ہونے والے عشایئے میں شامل ایک اہم کاروباری نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ کئی پاکستانیوں کی انھوں نے اسلام آباد جانے کی کمپیوٹر پر صرف ٹکٹس بنائیں تاکہ میزبانوں کو مطمئن کیا جا سے لیکن وہ پاکستان نہیں گئے تو پھر ایسے اجتماع کو بھلا نمائندہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ جس میں شامل اکثریت کا تعلق حکمران جماعتوں سے ہو اگر فرانس سے آنے والے لوگوں کی بھیجی ٹکٹس کی جانچ پڑتال کرائی جائے تو عدم شرکت کا با آسانی پتہ لگایاجا سکتا ہے۔

اجتماع میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا گیا کہ تارکینِ وطن دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آئیں گے مگر راقم کے علم میں جو حقائق آئے ہیں اُن سے ایسے کسی اندازے کی تائید نہیں ہوتی کہ دس ارب ڈالر تو کُجا سرمایہ کاری کے نام پر پانچ ارب روپے ہی لائے جاسکیں گے کیونکہ اول تو شرکا کی اکثریت بیرونِ ملک سے پاکستان نہیں آئی اور جو چند درجن آئے اُن میں بھی سرمایہ کار اور کاروباری کم تھے زیادہ ترمعمولی ملازمت پیشہ یا مزدور تھے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ دس ارب سرمایہ کاری کی بات محض زیبِ داستان ہے حقیقت پر مبنی نہیں۔

یہ درست ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا ہے خاص طور پر تارکینِ وطن نے گزشتہ ماہ مارچ میں ریکارڈ چار ارب ڈالرز سے زائد کی رقوم پاکستان بھیجیں۔ تاریخ میں پہلی بار کسی مہینے چار ارب ڈالر کی حد عبور کرنا ایک منفرد ریکارڈ ہے جس کے تناظر میں اڑتیس ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن رقوم بڑھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مارچ کے آخر پر عید کا تہوار تھا تہواروں پر قبل ازیں بھی عام حالات سے زیادہ پیسے بھیجے جاتے ہیں۔ دراصل گزشتہ تین چار برسوں سے ملک کے ابتر معاشی حالات اور بے روزگاری بڑھنے سے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے باہر جانے میں تیزی آئی ہے۔ اِس دوران سمندر بُرد ہونے اور دیگر مشکلات کا شکار ہوکر سینکڑوں پاکستانی اپنی جانوں سے محروم بھی ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بیرونِ ملک جابسنے والوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی شامل ہے۔ جوں جوں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ترسیلاتِ زربھی بڑھتی جا رہی ہیں جسے بحر حال حکومت پر اعتماد کہنادرست نہیں بلکہ یہ برین ڈرین ہے جو حکومتی ناکامی کی طرف اِشارہ کرتا ہے جسے برین گین کہنا حقائق کو جھٹلانا ہے۔

ترسیلاتِ زر کی ایک اور وجہ ہنڈی حوالے کی حوصلہ شکنی ہے اِس طرح بینکوں سے رقوم بھیجنے کا رجحان بڑھا یوں مستند دستاویزی اعداد و شمار سامنے آئے ترسیلاتِ زر کا کریڈٹ لینے کا حکومتی دعویٰ اِس بنا پر بھی غیر حقیقی ہے کہ اِس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں۔ اگر حکومت کچھ کرنے کی خواہشمند ہے تو زریعہ تعلیم میں اصلاحات لائے تاکہ بیرونِ ملک جانے والے کو ہُنرمند بنانے کے مواقع ملیں اور غیر ملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنا آسان ہو۔ اِس وقت توحالات یہ ہیں کہ زیادہ تر پاکستانی ہُنر اور غیرملکی زبانوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے بیرونِ ملک جا کر مزدوری کرنے تک محدود ہیں جو آمدن کو محدود کرنے کے ساتھ روز و شب کی مشکلات بنانے کی اہم وجہ ہے۔ مشکل حالات میں پاکستان کے سفارتی مشن بھی ہم وطنوں کی مدد نہیں کرتے مذکورہ بالا مشکلات ختم کرنے سے نہ صرف ترسیلاتِ زر میں اضافہ ممکن ہے بلکہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اکثریت جو اِس وقت صرف مزدوری کرنے تک محدود ہے وہ کامیابی کے نئے امکانات تلاش کرسکتی ہے۔

فائلر میں شمار کرنے، زیادہ فارن ایکسچینج بھیجنے پر ہر برس پندرہ سول ایوارڈ دینے، مقدمات کی ای فائلنگ، شواہد کی ای ریکارڈنگ جیسی مراعات کا اعلان کرنے کے ساتھ تارکینِ وطن کے بچوں کے لیے وفاقی یونیورسٹیوں میں پانچ جبکہ میڈیکل کالجوں میں پندرہ فیصد کوٹہ رکھنے اور اُن کے مسائل حل کرنے کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جو اوورسیز پاکستانی خواتین ملازمت حاصل کرنا چاہتی ہیں اُن کے لیے عمر کی حد پانچ سال سے بڑھا کر دس کردی گئی ہے یہ اعلانات و مراعات بظاہر خوشنما ہیں مگر اِن سے فوائد کی بجائے طبقاتی تفریق میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تارکینِ وطن کے اصل مسائل یہ ہیں کہ اُن پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بنانے کی حوصلہ شکنی ہو اور اِس کے لیے کوئی نتیجہ خیز طریقہ کار بنایا جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ کسی نوعیت کی کاروائی کرانا مقصود ہو تو بے گناہ ہونے کے باوجود بیرونِ ملک مقیم افراد کو اِس لیے مشورے جیسے الزامات میں نامزد کردیا جاتا ہے تاکہ اُنھیں پریشان کیا جا سکے مگر یہ قباحت بے داغ کریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی راہ بند کرتی ہے جس سے بیرونِ ملک رہائش حاصل کرنامشکل ہوجاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات کا سلسلہ روکنے سے بے داغ کریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کرنا آسان ہوگا کیونکہ کسی کو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونا ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔ نوجوانوں کو ہُنر مند بنانے اور غیر ملکی زبانوں میں مہارت حاصل کرنے کے اِدارے بنانا ضروری ہے اِس طرح مستقل بنیادوں پر ترسیلاتِ زرمیں اضافہ ممکن ہے۔

یہ سب کچھ معاشی استحکام کا پھر بھی نعم البدل نہیں معاشی مشکلات کا حل یہ ہے کہ برآمدات اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری بڑھانے پر توجہ دی جائے۔ آج بھی سچ یہ ہے کہ ملکی سطح پر گرتی ہوئی پیداوار برآمدات بڑھانے میں رکاوٹ ہے۔ حکومتی اقدامات کے باوجود اب بھی عوام مہنگائی کا شکار ہیں۔ بے روزگاری الگ عزاب ہے تارکینِ وطن جو سرمایہ پاکستان بھیجتے ہیں وہ بھی تعمیری مقاصد پر صرف نہیں کیا جاتا اکثر بڑے بڑے گھر بنانے پر صرف کردیا جاتا ہے۔ حکومت اگر توجہ دے توترسیلاتِ زر کا رُخ چھوٹی صنعتوں کی طرف موڑا جاسکتا ہے۔ اِس طرح نہ صرف پیداواری شعبے میں بہتری آئے گی بلکہ روزگارکے نئے مواقع پیدا ہوں گے جس سے بے روزگاری اور مہنگائی کا مسلہ حل ہوگا جس کے نتیجے میں حکومت پرعوامی دباؤ میں کمی آئے گی جو سیاسی استحکام کاموجب ہوسکتاہے۔