Wednesday, 24 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Hameed Ullah Bhatti
  4. Muslim Khatoon Ka Naqab Nochna Bimar Zehniyat

Muslim Khatoon Ka Naqab Nochna Bimar Zehniyat

مذہبی تعصب حکمتِ عملی بن جائے تو انسانیت پر حیوانیت غالب آجاتی ہے کیونکہ اِس میں غلط طاقت کو اُبھارنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ بھارت میں یہی کچھ ہورہا ہے یہاں مذہبی تعصب سیاسی حکمتِ عملی ہے اسی بنا پر اقلیتوں کو حقوق حاصل نہیں اور بی جے پی جیسی غلط طاقت کے پاس اقتدار ہے جسے صرف ہندو اکثریت کے ووٹ درکار ہیں۔ اب تو حالات اِس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ دیگر جماعتیں بھی اسی روش پر چل نکلی ہیں جس سے ہندو اکثریت کے ووٹ حاصل ہوں۔

پٹنہ میں ایک سرکاری تقریب ہوئی جس میں مسلمان خاتون ڈاکٹر نصرت پروین کو بہارکے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے تقررنامہ دیتے ہوئے اُس کا نقاب کھینچ دیا جو کہ عورت کی عزت، شناخت اور ذاتی آزادی پر سنگین حملہ ہے۔ خاتون نے دلبرداشتہ ہوکر ملازمت کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ نتیش کمار کا رویہ نہ صرف غیر شائستہ، توہین آمیز، افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک ہے۔

خاتون ڈاکٹر کا نقاب کھینچنا کوئی معمولی واقعہ نہیں یہ بڑھتی تنگ نظری کا اظہار ہے۔ اس واقعہ کے بعد ایک ہجوم نے دو مسلم خواتین کے نہ صرف نقاب نوچے بلکہ کرسیوں سے مار مار کر زخمی کر دیا جب وزیرِاعلیٰ جیسے منصب پر فائز ایک شخص بے شرمی اور ڈھٹائی سے کام لے تو کسی اور کو اپنے گھٹیا عمل پر افسوس یا ملال نہ ہوسکتا۔ مدرسے کی تقریب میں سرپر ٹوپی پہننے سے انکار کرنے والا نتیش کمار گزشتہ برس ہی مودی کے پائوں چھونے کی کوشش کر چکا ہے۔

لباس شخصی آزادی کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا لباس اور حلیے پر تنقید کرنا اور پسند کے مطابق رکھنے کا مطالبہ شخصی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے۔ خاتون کے چہرے سے نقاب کھینچنے کی ویڈیو غیر معمولی ہے۔ اِس کا منظرِ عام پر آنا دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دعویداروں کے لیے سنجیدہ سوال ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سے محض مسلمان ہونے کی بنا پر اِس نوعیت کے سلوک سے نام نہاد سیکولر ریاست کا اصل اور گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوا ہے جس میں اقلیتوں بالخصوص مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی اور تحقیر آمیزسلوک عام ہے۔ یہ ہندوتوا نظریے کا عملی اظہارہے مگر کیا عالمی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امن کے علمبرداروں نے اِس کا نوٹس لیا ہے؟

بظاہر صورتحال مایوس کُن ہے حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بھارت میں اہم ترین مناصب پر براجمان لوگ مذمت کرنے کی بجائے نہ صرف جواز پیش کررہے ہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرتے اور داد دیتے نظر آتے ہیں جب بی جے پی جیسی غلط طاقت مذہبی تعصب کو حکمتِ عملی بناکر اقتدار میں آ سکتی ہیں تو لامحالہ دیگر جماعتیں بھی تعصب و تنگ نظری کے اظہار سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کریں گی تو اِس کے نتیجے میں اقلیتوں کے لیے مزید خطرات بڑھیں گے۔ اگر بھارت میں اقلیتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو دنیا نظر انداز کرتی رہی تو ہندوتوا کو آزادی ملے گی اور تعصب و تنگ نظری کی آگ مزید پھیلے گی لہٰذا اِس کے خلاف موثر، پُرامن اور مسلسل احتجاج ناگزیر ہے تاکہ یہ معاملہ کہیں دب نہ جائے اور انصاف کی آواز عالمی ضمیر تک پہنچائی جا سکے۔

مذہبی تعصب کے خلاف بھارت کے طول و عرض میں بھی بے چینی اور اضطراب ہے۔ خاتون کے چہرے سے نقاب نوچنے پر بہار کے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف جب مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ ہونے لگا تو کاغذی حد تو چند سطور لکھ دی گئیں مگر اِن سطور سے انصاف کی اُمید اِس لیے نہیں کہ گجرات کا وزیرِ اعلیٰ ہوتے ہوئے مودی جیسا سفاک اور بے رحم شخص ہزاروں مسلمانوں کوقتل کرا دیتا ہے لیکن آج تک کسی متاثرہ کو انصاف نہیں مل سکا۔ جب وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہوا تو حکومتی مدد سے دارالحکومت دہلی میں مسلم کُش فسادات کرائے جن میں درجنوں مسلمانوں کو موت کی نیند سُلا دیا گیا مگر آج تک کسی فرد یا خاندان کو بھارتی قانون انصاف نہیں دے سکا کیونکہ ہندوئوں کے حق میں بھارتی قانون لچکدار ہوجاتا ہے۔ اِس طرح متعصب اور تنگ نظر ہندو صاف بچ نکلتے ہیں۔

یہاں مسلمان، سکھ، عیسائی اور دلت خوف وہراس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں لیکن عالمی ضمیر گہری نیند میں ہے۔ عالمی طاقتوں نے تجارتی مفاد کے لیے ہندو شدت پسندی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بی جے پی اور اُس کے اتحادی مذہبی تعصب کو حکمتِ عملی بنا کر مسلسل اقتدار میں ہیں۔ اُنھیں بخوبی علم ہے کہ ایک بڑی تجارتی منڈی ہونے کی بنا پر کوئی ملک بھارت کو نظر انداز نہیں کر سکتا اسی لیے اقلیتوں بلاخوف و خطر کچلا جارہا ہے۔

مزید ستم ظریفی یہ کہ ایک ایسا ملک جہاں مسلمان ہونا جرم ہے اور حکومت مسلم شناخت مساجد اور درگاہیں ختم کرنے میں مصروف ہے اُس کے خلاف وہ عرب مسلم ممالک بھی لائحہ عمل نہیں بنا سکے جہاں لاکھوں بھارتی مقیم ہیں۔ ہندوتوا کی علمبردار بھارتی حکومت کو خوش کرنے کے لیے دبئی نے مندر بنا دیا ہے لیکن ہندوئوں کی مسلمانوں سے سفاکی برقرارہے۔ سعودی عرب اور بھارت نے ایک ایسے دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کی رو سے سفارتی، خصوصی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کو قیام کے ویزہ سے استثنیٰ ہوگا۔ اِس معاہدے سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مضبوط یا سرکاری سفر کو آسان بنانا ممکن ہو سکے گا یا نہیں البتہ بھارتی ساکھ ضرور بہتر ہوگی۔ کاش یہ پہلو عرب ممالک سمجھیں اور بھارت پر دبائو ڈالیں کہ مسلمانوں سے امتیازی سلوک ترک کیا جائے۔

بھارت کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہیں تو واضح فرق نظر آتا ہے۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا اور اُنھیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں تمام مذاہب کے پیروکاربلا خوف و خطر اپنی عبادات کر سکتے ہیں عیسائی بھائیوں کی نہ صرف عبادت گاہیں محفوظ ہیں بلکہ اُن کے تہواروں میں مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں۔ سکھوں اور ہندوئوں کی ازکار رفتہ عبادت گاہوں کی سرکاری اخراجات سے تزئین و آرائش کرنے سے ملک میں مذہبی بھائی چارے کی فضا بنی ہے اور مذہبی سیاحت میں اضافہ ہواہے۔

مادام رتھ فائو، جسٹس کارنیلیئس اور جسٹس بھگوان داس کا ہر مکتبہ فکر احترام کرتا ہے مگر بھارت میں ایسا تصور کرنا بھی محال ہے۔ صدیوں پرانی بابری مسجد کو مندر پر بنانے کا من گھڑت الزام لگا کر شہید کر دیا گیا۔ مسلم شناخت مٹانے کے لیے ملک بھر سے درجنوں مساجد گرائی جا چکیں۔ شہروں و دیہات کے نام تک اِس لیے بدل دیئے گئے کہ مسلم تاثر اُجاگر ہوتا ہے۔ یہ نفرت، تنگ نظری کی انتہا ہے آگرہ اور لال قلعہ جیسی عمارات سے بھی ہندؤں کی نفرت پوشیدہ نہیں جسے ہندو شدت پسندی کہنا زیادہ مناسب ہوگا جو بھارتی معاشرے کا اتحاد پارہ پارہ کرچکی ہے مگر یہ بی جے پی اور اُس کی اتحادی شدت پسند جماعتوں کو اقتدار کا مختصر راستہ ہونے کی بنا پر پسند ہے لیکن عالمی ضمیر کوبیدار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسی عالمگیر مُہم کا آغاز کیا جائے جس سے مناسب ردِ عمل آنے کی راہ ہموار ہو۔