Wednesday, 30 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Mehal Ki Tameer Mein Gujrat Ka Hissa

    Mehal Ki Tameer Mein Gujrat Ka Hissa

    جو بھی آفیسر گجرات میں تعینات ہوتا ہے وہ ابتدا میں تو کنفیوز دیکھا گیا مگر تعیناتی ثمرات سے لطف اندوز ہوتے ہی یہاں کا حصہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جانے کانام ہی نہیں لیتا۔ یہاں تعینات رہنے والے آفیسر تبادلے پر کچھ ایسا ردِعمل دیتے ہیں جیسا کسی بچے سے کھلونا چھن جانے پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ دراصل گجراتیوں کی بڑی تعداد بیرونِ ملک آباد ہے اُن کی ہرماہ بھیجی رقوم سے گھروں میں خوشحالی ہے۔ علاوہ ازیں تارکینِ وطن کے اہلِ خانہ دفاتر سے کام لینے کے لیے سفارش کرانے کی بجائے آفیسران سے براہ راست تعلق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس کے لیے مہنگے تحائف بھی دیتے ہیں۔

    آفیسران بھی ایسے لوگوں کی تاک میں رہتے ہیں جونہ صرف صاحبِ ثروت ہوں بلکہ خرچ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں۔ کام لینے کے لیے یہاں کے لوگ اخراجات کی خاص پرواہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ آفیسر تبادلے پر مچلتا، روتا، چیختاہے اور تبادلہ رکوانے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرتا ہے ایک اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جو بے چارہ خود ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہوتا ہے مگر صرف تعلق بنانے کے لیے اُس کی بے جا خوشامد کی جاتی ہے۔ پھول پیش کیے جاتے ہیں قصیدے لکھے جاتے ہیں مزید حیران کُن یہ کہ تعیناتی بچانے کے لیے کچھ آفیسران اپنی ترقیاں چھوڑ دیتے ہیں اور گجرات سے ہی سبکدوش ہونے کی آرزو کرتے ہیں۔ اِس رویے کو قابلِ تعریف یاقابلِ رشک نہیں کہا جا سکتا کوئی ناگزیر نہیں ہوتا جو انصاف بیچتا ہے بلال زبیر کی طرح زاتی طمع و لالچ کی خاطر مسائل پیدا کرتا ہے وہ بوجھ تو سکتا ہے قابلِ تعریف نہیں۔

    گجرات محبتوں کی سرزمین ہے یہاں آؤبھگت ایک معمول ہے لیکن کچھ آفیسر ک ابے جا مہمان نوازی دماغ خراب کردیتی ہے اور وہ فرائض میں غفلت کا شکار ہونے لگتے ہیں حالانکہ دیانتداری سے فرائض کی بجا آوری عبادت ہے۔ جب رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو دوزخی کہا گیا ہے توآخرت میں آگ کو ہی اپنا مقدر بنانے کی جدوجہد سمجھ سے بالاترہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بطور مسلمان ہم کسی ایسے عمل میں حصہ نہ لیں جو روزِ محشر سزا کا موجب بنے۔ سچ بولیں کسی کی خامی کو خوبی بناکرپیش نہ کریں۔

    یاد رکھیں کوئی آفیسر عقلِ کُل نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو ملکی معیشت یوں دگرگوں نہ ہوتی خراب معاشی صورتحال کی وجہ غریب اور ناخواندہ لوگ نہیں یہی آفیسران ہیں جو ملک چلا رہے ہیں یہ ایک طرف ماہانہ بھاری تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کے عوض الگ پیسے لیتے ہیں۔ میں نے ایک بار بلال زبیر سے دریافت کیا کہ آپ اے سی ہیں اور تحصیل گجرات کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں تو کیا آپ کو رشوت لیتے ہوئے کچھ محسوس نہیں ہوتا تو فرمانے لگے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتا ہوں تاکہ کل کلاں آڈٹ میں کسی خامی کی نشاندہی نہ ہو میرا پھر سوال تھا کہ انصاف میں تاخیر پر آفیسران سے کسی قسم کی باز پُرس ہوتی ہے؟ تو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ یہ آفیسران پر منحصر ہے کہ وہ کسی کو انصاف دیں یا نہ دیں اِس حوالے سے کسی قسم کے احتساب کاکوئی محکمانہ طریقہ کار نہیں۔

    تعلیم کے ساتھ تربیت سے صلاحتیں نکھرتی ہیں۔ حال ہی میں تجاوزات گرانے کے عمل کے دوران بلال زبیر نے ناتجربہ کاری اور نااہلی سے عمارت کادرست حصہ گرادیا حالانکہ ایس ڈی او ہائی وے دہائی دیتا رہ گیا کہ تجاوزات کے زمرے میں دوسراحصہ آتا ہے مگر اے سی نے سختی سے خاموش رہنے کا حکم دیتے ہوئے اختیار و طاقت کے نشے میں کاروائی کا حکم صادر کردیا اور تجاوز حصہ چھوڑ دیا بعد میں جب معلوم ہوا کہ غلط کام ہوگیا ہے تو غلط تعمیر شدہ حصہ بھی گرانے پہنچ گئے اِسے نااہلی کہیں حماقت یا ناتجربہ کاری یہ فیصلہ قارئین خود کریں تو بہتر ہے۔

    لاہور کا پُرتعیش علاقہ ایگریکس ٹاؤن ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب ہے اِس کے فیز تھری میں تعمیرات جاری ہیں یہاں بلال زبیر بھی ایک وسیع و عریض دومنزلہ محل بنوا رہے ہیں۔ ظاہرہے محل بنانے کے لیے کثیر اخراجات درکار ہوتے ہیں اِس لیے تحصیل گجرات میں وصولی کا سلسلہ عروج پر ہے ویسے تو پٹواری، گرداور اور نائب تحصیلدار اِس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں پھر بھی جو سُستی و کاہلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اے سی کی طرف سے مناسب گوشمالی ہوجاتی ہے اب تو اہلِ گجرات کو بھی ثوابِ دارین حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے جو تعاون سے گریز کرتا ہے۔

    وہ موقعہ ملاحظہ کے دوران میرٹ پر ہونے کے باوجود انصاف حاصل نہیں کرپاتا موقع ملاحظہ سے شاید یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ وقت سے فائدہ اُٹھاکر خدمت کرلیں اگر انصاف لینے کے خواہشمند کو پھر بھی خدمت کی توفیق نہیں ہوتی تو انصاف دینے کی بجائے فائل ماتحت کی طرف سرکا دی جاتی ہے۔ انمول تھیٹر کی بندش پر مالکان کو اپنے عزیز کی وساطت سے ایک اہم سیاسی شخصیت سے سفارش کرانے کی تگ ودو کرتے دیکھا تو میرا کہنا تھا ارے بھائی اگر آپ اے سی سے موقع پر ہی under hand dealکرلیتے تو آج خوار نہ ہوتے کیونکہ اِس وقت گجرات میں مُک مُکا کے حوالے سے اے سی گجرات سب سے زیادہ شہرت یافتہ ہیں۔

    بات ہو رہی تھی ایگریکس ٹاؤن فیز تھری میں زیرِ تعمیر ایک دومنزلہ محل کی جس کے اخراجات کی ذمہ داری تحصیل گجرات کے محکمہ مال نے اُٹھا رکھی ہے شاید اسی بناپر آج کل رشوت کے ریٹ بڑھ گئے ہیں شہروں میں تعینات پٹواری کسی خوف کے بغیر مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں جبکہ اے سی سے فیصلوں میں من پسند انصاف صرف امیر حاصل کررہے ہیں بلال زبیر کو ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اُن کی اہلیہ محترمہ حبیبہ بلال (زیادہ اہم پوسٹ پر نہیں کیونکہ مال بنانے کے مواقع کم ہیں) گجرات میں بطور اے سی تعینات ہیں دونوں ابھی نوجوان آفیسرز ہیں مگر اِن کی وصولی کی رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مستقبل میں اور بھی کئی محل بنوائیں گے اور ممکن ہے دیگر بڑے آفیسروں کی طرح بیرونِ ملک بھی جائیدادیں بنالیں۔ کاش یہ فیصلے کرتے وقت آخرت کو پیشِ نظر رکھیں کاش کوئی اُنھیں جا کر بتائے کہ دنیا کا مال قبر میں لیجانا ممکن نہیں کاش دنیاداری میں گم اِن کو معلوم ہوتا کہ دنیا کا مال قبر اور حشر میں کام نہیں آتا اور نہ ہی کفن کے ساتھ جیب ہوتی ہے کاش اے کاش۔

    لاہور کے ایگریکس ٹاؤن کے فیز تھری میں دومنزلہ محل کی تعمیر آخری مراحل میں ہے زاتی مکان ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے گجرات تعیناتی نے اے سی بلال زبیر کے لیے زاتی محل بنانا آسان کر دیا ہے اِس کے لیے انھوں نے بڑی عرق ریزی کی ہے گجرات میں کافی ہاتھ پاؤں مارے ہیں۔ محکمہ مال کو نچوڑا ہے اور فیصلے کرتے ہوئے اُمراء و رئیسوں کو اُن کا من پسند تیز تر انصاف فراہم کیا ہے یوں محل کی تعمیر کے مراحل آسان ہوتے گئے۔ میری تو بس اتنی سی خواہش ہے کہ جب محل کی تعمیر کے اخراجات گجرات والوں نے ادا کیے ہیں تو بہتر ہے اِس کا نام ہی کم از کم گجرات ہاؤس رکھ دیا جائے تاکہ بلال زبیر اور اہلِ گجرات کی آنے والے نسلیں اپنے آباؤ اجداد کی دلچسپیوں سے آگاہ ہو سکیں آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اِس مسئلہ کے؟