Saturday, 26 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Dpo Gujrat Ki Zimmadariyon Se Subukdoshi

    Dpo Gujrat Ki Zimmadariyon Se Subukdoshi

    ماتحت ہمیشہ سربراہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں سربراہ اگر اچھا، اہل اور تجربہ کار ہو تو اِداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے، اگر نااہل و ناتجربہ کار ہو تو کارکردگی کے ساتھ عوامی ساکھ پر بھی متاثر ہوتی ہے۔ اسی لیے حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ ایسے لوگوں کو تعینات کیا جائے جن سے عوام میں ساکھ بہتر ہو اور حکومتی نیک نامی کا بھی باعث بنیں۔ ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا اگر غیر جانبداری سے موازنہ کیا جائے تو کارکردگی اور اصلاحات کے حوالہ سے مریم نواز نمایاں ہیں۔ انھوں نے پنجاب پولیس کو بھی وافر وسائل دیے ہیں مگر صد افسوس کہ پنجاب میں پولیس کی کاردگی مسلسل گرتی جارہی ہے جس کی وجہ تعیناتیوں کے دوران کارکردگی پر سفارش کو اہمیت دینا ہے۔

    کارکردگی، اخلاق اور دیانتداری کو پیمانہ بناکر تعیناتیاں کی جائیں تو پولیس کی کارکردگی اور ساکھ اب بھی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ نہیں معلوم ڈی پی او گجرات مستنصر عطا باجوہ کو تعیناتی دیتے وقت کِس کی خوشنودی عزیز اور کون سی مجبوری آڑے آئی؟ یہ مصدقہ ہے کہ وہ بطورڈی پی اوگجرات ناکام ترین ثابت ہوئے ہیں۔ ناتجربے کاری، بداخلاقی اور نااہلی کے مظاہروں پر دنگ لوگ سوچتے ہیں کہ ایسے ناکارہ شخص کو کِن وجوہات و صفات پر گجرات جیسے حساس ضلع میں لگا یا گیا؟ جو رواں ماہ جون کے آخر پرویسے تو ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والے ہیں مگر ناقص ترین کارکردگی کی بدولت جانے کتنا عرصہ واقفانِ حال کی محافل میں موضوع بحث رہیں گے۔

    عوام کے جان و مال کا تحفظ پولیس کا اولیں فرض ہے مگر مستنصر عطا باجوہ کی تعیناتی کے دوران پولیس کا اپنا اسلحہ چوری ہوگیا۔ ایسا گجرات کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ جس پولیس نے عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہوتا ہے وہ اپنا اسلحہ بھی چوروں سے نہ بچا سکی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں یہ ضلعی سربراہ کی ناقص حکمتِ عملی، سُستی، نااہلی اور فرائض سے غفلت کا وہ پہاڑ ہے جس کی نشاندہی پولیس کے آڈٹ پہرے میں کی گئی۔ اب یہ جواز پیش کرنا کہ پنجاب کے دیگر اضلاع سے بھی پولیس کا اسلحہ چوری ہوا ہے لہذا گجرات سے چوری ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ اگر کوئی ایسا کہے گا تو جواب میں لوگ کہہ سکتے ہیں اِدھر اُدھر کی بات سنانے کی بجائے یہ بتا کہ قافلہ کیوں لُٹا؟ کیونکہ راہزن سے توگلہ ہو نہیں سکتا رہبری کے دعویدار سے سوال تو بنتا ہے۔

    تبادلے ملازمت کا حصہ ہیں لیکن مستنصر عطا باجوہ نے تبادلوں کے دوران ایسی ایسی حماقتیں کیں کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جانے اِس کی کون سی خوبی حاکمانِ وقت کو متاثر کرگئی کہ اہل و باصلاحیت آفیسران کو نظر انداز کرتے ہوئے ضلع گجرات پولیس کی کمان سونپ دی۔ کسی کو صبح ایس ایچ او یا محرر لگایا ابھی چارج بھی نہیں ہوپاتا کہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ایسے تبادلوں سے کئی ماتحت مایوس ہوکر تعیناتیاں لینے سے ہی کترانے لگے۔ اِس طرح بدعنوان اور کام چور قسم کے لوگوں کی موجیں لگی رہیں اور وہ بلاخوف و خطر عوام کی جیبیں صاف کرتے رہے۔ پولیس اہلکاروں کے ہاتھ شرفا کے گریبان تک چاک کرتے رہے ہیں لیکن ضلعی سربراہ اپنے حال میں مگن رہا کسی سے باز پُرس تک نہ کی۔

    یہ خباثت پہلی بار اہلِ گجرات کے علم میں آئی کہ سائل کو مطمئن کرنے کے لیے ڈی پی او نے ایس ایچ او یا کسی ماتحت کو تگڑا فون کردیا مگر سائل کے رخصت ہوتے ہی کام نہ کرنے کی بھی ہدایت کردی۔ مستنصر عطا باجوہ نے اپنی تعیناتی کے دوران ریکارڈ کُھلی کچہریاں لگا کر لوگوں کے ساتھ تصاویر بنوانے کے ریکارڈ قائم کیے مگر اِن کھلی کچہریوں سے شاز ہی کسی کا مسئلہ حل ہو سکا۔ انھی کے دور میں یہ منفرد ریکارڈ بنا کہ کم آبادی والا ضلع گجرات جرائم کے حوالے سے آبادی میں کئی گُنا بڑے اضلاع پر بھی سبقت لے گیا۔ مستنصر عطا باجوہ کی تعیناتی کے دوران تیس لاکھ کی آبادی والا گجرات چوریوں، ڈکیتیوں اور قتلوں میں پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل گوجرانوالہ کو مات دیتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر وارداتوں کے عدم اندراج سے جرائم میں کمی ظاہر کردی جاتی رہی۔ اُن کی تعیناتی کے دوران ریکارڈ اجتماعی قتل ہوئے جانے پھر بھی یہ شخص کیونکر خود کو کامیاب، فرض شناس اور اہل لکھوانے کی ہوس میں مبتلا ہے؟

    پولیس کا کام قانون کی رٹ قائم کرنا اور امن و امان کو یقینی بنانا ہے مگر مستنصر عطا باجوہ کی تعیناتی کے دوران فرائض سے چشم پوشی کرتے ہوئے قانون کی پامالی کی جارہی اور بدامنی کے لیے صدقِ دل سے کام ہوتا رہا، ریکارڈ جعلی پولیس مقابلے ہوئے جن کے بارے کہانی ایک ہی سنائی جاتی رہی کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جارہا تھا کہ وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔ ہر پولیس مقابلے کی ایک جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے مگر گجرات کے کسی پولیس مقابلے کے اصل حقائق سامنے نہیں آسکے۔ یہ پولیس کے جرائم کی پردہ پوشی اور حوصلہ افزائی کے مترادف ہے مقابلوں کے حوالے سے کئی ایک سوالات ہیں جن کے جوابات لوگ جاننا چاہتے ہیں اول۔ جب ایک بار ملزم ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوجاتا ہے توملزم کو لانے لے جانے کے فول پروف انتظامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ دوم۔ برآمدگی کے لیے ملزمان کو پولیس رات کے اندھیرے میں ہی کیوں لے جاتی ہے؟ سوم۔ کسی بھی پولیس مقابلے میں کسی اہلکار کو خراش تک کیوں نہیں آتی؟ ملزم کے بارے اُس کے ساتھیوں کو کون درست معلومات دیتا ہے؟ ڈی پی او جو بتادے وہی حرفِ آخرکیوں ہوتا ہے؟

    یہ الزام نہیں حقیقت ہے کہ ظاہر کیے جانے والے پولیس مقابلے دراصل منصوبہ بندی سے قتل ہیں۔ یہ درست ہے کہ اکثر مارے جانے والے کوئی شریف یا باعزت نہیں بلکہ نامی گرامی بُرے اور بدمعاش تھے جو شرفا کے لیے عذاب سے کم نہیں تھے اِس لیے اُن کی موت سے شرفانے سُکھ کا سانس لیا ہوگا مگر کیا ہی بہتر ہوتا کہ مجرمان کو پولیس شواہد کی روشنی میں عدالتوں سے سزائیں دلاتی تاکہ لوگ عبرت حاصل کرتے۔ ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد مقابلے میں مار دینا تو کوئی انصاف نہیں۔ اِس طرح تومرنے والے سے اُلٹا ہمدردی جنم لیتی ہے۔ ہنج واقعہ بھی پولیس سربراہ کی نااہلی، لاپرواہی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے جرم کی بڑی داستان بنا جس میں کئی انسانی جانیں تلف ہوگئیں اگر ابتدا میں ہی حکمت و تدبر کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ واقعہ صرف فائرنگ تک محدود رہتا۔

    کتابی علم کے ساتھ کامیابی کے لیے عملی تجربہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن مستنصر عطا باجوہ نے ملازمت کا زیادہ عرصہ دفتروں میں گزارہ جہاں ماتحتوں کی روزانہ تذلیل ایک معمول ہے مگر عین سبکدوشی سے ایک برس قبل کسی تگڑی سفارش پر فیلڈ میں اُتار کر ضلع گجرات کا ڈی پی او لگا دیا گیا جنھوں نے اپنے دفتر کو بھی کبڈی کا اکھاڑہ بنائے رکھا جہاں ماتحتوں اور شرفا کی مسلسل تذلیل کی جاتی رہی۔

    خیر اب وہ رخصت کے قریب ہیں مگر سچ یہ ہے کہ اگر ایسی مزید تعیناتیاں کی جاتی رہیں تو پنجاب میں کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی نااہل اور ناتجربہ کار آفیسر ہی بدنامیوں کے اِتنے پہاڑ بنادیں گے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی حکومتی ساکھ کے ساتھ اُس کی مقبولیت بھی قصہ پارینہ ہوجائے گی۔ ہم تو نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں مگر تاریخ کا یہ سبق ہے کہ کوئی حکمران سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ حاکم جب اقتدار و اختیارکے نشے میں عوامی آواز سننے سے گریز کرتا ہے تو آخرکار تاریخ کے اوراق میں دفن ہو جاتا ہے۔