Tuesday, 15 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Bharat Kya Chahta Hai? (2)

    Bharat Kya Chahta Hai? (2)

    22 اپریل سے جنم لینے والی پاک بھارت کشیدگی ہنوز برقرار ہے جو اِس بنا پر تشویشناک ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نہ صرف جوہری طاقتیں ہیں بلکہ حکومتیں اور عوام بھی جذباتی ہیں مگر طیش کے باوجود بھارت ابھی تک حملہ نہیں کر سکا جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ تو پاکستان کا ذمہ دارانہ موقف ہے۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے نے عالمی سطح پر بھارت کو مظلوم اور معصوم نہیں بننے دیا۔ شاید اُسے کامل یقین تھا کہ جس طرح بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے باوجود اقوامِ عالم نے کسی تشویش یا اضطراب کا اظہار نہیں کیا تھا اب پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر جب سندھ طاس معاہدے یکطرفہ طور پر ختم اور پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرے گا تو باآسانی حمایت حاصل ہوجائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔

    عالمی میڈیا نے اِس واقعہ کو محض ایک خبر کے طور پر لیا ہے۔ دراصل بھارت ایک جھوٹا اور مکار ملک ہے جس کے ماضی میں کئی فالس فلیگ آپریشن بے نقاب ہو چکے اسی لیے 22 اپریل کو جب بھارت کی مذہبی جنونی قیادت نے دہشت گردی کی آہ و بکا شروع کی تو کسی نے سنجیدہ نہ لیا۔ بھارت کو ٹرمپ انتظامیہ سے توقع تھی کہ چین کا مدِ مقابل ہونے کی بنا پر ساتھ دے گی لیکن یہ توقع بھی اُس وقت نقشِ برآب ثابت ہوئی جب پاکستان کی موئثر سفارتکاری کی بدولت بھارت سلامتی کونسل کی قرارداد میں اپنی پسند کے الفاظ شامل کرانے میں ناکام ہوگیا لیکن کیا مکار، جھوٹا اورسازشی بھارت خاموشی اختیار کرلے گا؟ کے جواب میں ہاں کہنا مشکل ہے البتہ کسی بڑے ٹکراؤ کے امکانات نہیں لیکن پنجاب اور کشمیر کی حدتک سرحدی جھڑپیں ہوسکتی ہیں تاکہ متوقع ریاستی انتخابات میں بی جے پی سیاسی فوائد حاصل کر سکے۔

    غزہ میں اسرائیلی کاروائیاں جارح قوتوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں وہ جس طرح اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے وحشیانہ اور سفاکانہ کاروائیاں کررہا ہے وہ طاقتور ممالک کے لیے آئیڈیل ہیں لیکن بھارت یہ بھول گیا کہ نہ تو وہ اسرائیل ہے اور نہ ہی پاکستان فلسطین، شام یا لبنان ہے۔ مزید یہ کہ جنوبی ایشیا مڈل ایسٹ کی طرح تیل کی دولت سے بھی مالا مال نہیں اسی بناپر یہاں عالمی طاقتوں کی دلچسپی ویسی نہیں۔ مزید یہ کہ امریکی انتظامیہ میں پاکستان کی خیر خواہ لابی موجود ہے جو تبدیل شدہ عالمی منظر نامے کے باوجود آج بھی پاکستانی مفادات کی نگہبان ہے۔

    دوسرا مضبوط اور دوٹوک چینی حمایت ہے جس کی طرف سے حملے کی بروقت تحقیقات کے مطالبے اور اسلام آباد کی سلامتی وخودمختاری کی حمایت نے پاکستان مخالف فضانہ بننے دی۔ آجکل ٹرمپ ٹیرف میں کمی کے لیے چین سے مفاہمت کے آرزومند ہیں وہ بھارت کی بے جا حمایت سے چین کو مزید ناراض نہیں کر سکتے۔ تیسرا روس بھی اب ماضی کی طرح پاکستان کو دشمن تصور نہیں کرتا بلکہ ماضی کی تلخیاں بُھلا کر اشتراک و تعاون کی روش پر گامزن ہے۔ اگر بھارت نے پابندیوں کے باوجود روس سے تیل و دیگر سامان درآمد کیا تو پاکستان نے بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی پرواہ کیے بغیر درآمدات کیں۔ اِس لیے روس نے ایک پلڑے میں وزن ڈالنے کی بجائے حقیقت پر مبنی غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا اِس میں کچھ چینی خوشنودی حاصل کرنے کا بھی عمل دخل ہے۔

    پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کے متفقہ موقف نے بھارت کی مذہبی جنونی قیادت کو پریشان کر دیا ہے۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ معاشی طورپر کمزور اور سیاسی حوالے سے غیر مستحکم پاکستان مقابلہ سے اجتناب کرے گا مگر خلافِ توقع ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ ہر قسم کی تجارت بند کرنے کے ساتھ پاکستان نے اپنی فضائی حدود تک بھارت کے لیے بند کر دیں۔ یہ جواب توقعات سے بڑھ کر تھا۔ آبی جارحیت کو جنگی اقدام تصور کرنے کے اعلان سے واضح ہوگیا کہ پاکستان دفاعی حکمتِ عملی تک محدود رہنے کی بجائے حملہ بھی کر سکتا ہے۔ قلیل مدت میں بری، فضائی اور بحری قوت کو فعال کرنا اسی طرف اِشارہ تھا میزائل نظام کی تنصیب میں کمال سُرعت کا مظاہرہ بے خوفی کی دلیل ہے۔ یہ اقدامات فروری 2019 کی طرح ایک اور حیران کُن جواب کے آثار کو قوی تر بنانے کے لیے کافی تھے جس سے مودی، راج ناتھ، امیت شاہ اور اجیت ڈوول جیسے منہ سے جھاگ اُڑاتے لوگ بے بس و لاچار ہوئے۔ یہ بے بسی اور لاچاری ہی تھی کہ بہار جلسے میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے پاکستان کا نام لینے سے اجتناب کیا۔

    بھارت اپنے حجم اور عسکری نفری کے زعم میں یہ بھول جاتا ہے کہ ایسے ناز و زعم نے امریکہ کو ویت نام میں زلیل و رسوا کیا روس کو افغانستان میں ایسی پسپائی سے دوچار کیا کہ بکھرتا چلا گیا۔ افغانستان سے امریکی قیادت میں برسرِ پیکار نیٹو افواج دن راست سرپٹخنے کے باوجود آخرکار انخلا پر مجبور ہوئیں۔ پاکستان تو ایک ایسی جوہری طاقت ہے جس نے بے سروسامانی کی حالت میں بھی قیام کے صرف ایک برس بعد ہی 1948کی جنگ بہادری سے لڑی 1965 میں بھی بھارت کو ایسی دھول چٹائی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔

    بھارتی میڈیا 1971کے واقعات کی بات کرتا ہے حالانکہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ مغربی پاکستان سے سولہ سو کلومیٹر دور مشرقی علاقے کی ایسی بغاوت تھی جو بھارتی سرپرستی میں بنائی گئی مُکتی باہنی نے برپا کی سیاچین اور کارگل کی محدود لڑائیوں میں پاک فوج نے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دندان شکن جواب دیا اور پھر 2021 کی فضائی جھڑپ تو ایسا جواب ہے جس نے پاک فوج کی حربی صلاحیت کی دھاک بٹھا دی۔ پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام جدید ترین ہے اُس کی طاقتور فضائی، بری اور بحری فوج کسی بھی وقت اور کہیں بھی حیران کُن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ بھارتی لڑاکا طیارے جنگ سے قبل ہی گرتے یا اپنے شہروں پر بمباری کرتے نظرآتے ہیں۔

    بری فوج کے پاس ازکار رفتہ ہتھیار ہیں مشرقی پنجاب کے سکھ لڑائی کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے پُرعزم ہیں اسی بناپر ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کسی بڑی جنگ لڑنے کے قابل ہی نہیں اور فالس فلیگ آپریشن سے مودی نے اپنی زوال پذیر سیاسی ساکھ کو سہارہ دینے کی حماقت کی ہے مگر حقائق سے لا علم جنونی بھارتی میڈیا جنگ کا ماحول بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ بھارت تو علیحدگی کی تحریکوں پر قابو پانے میں ناکام ہے لیکن مشرقی سرحد پر سخت کشیدگی کے باوجود بھارتی ایما پر افغان سرحد سے ہونے والی دراندازی کو پاکستان نے کچھ اِس طرح ناکام بنایا ہے کہ جدید ترین اسلحہ سے لیس تمام تر 54 دہشت گردوں کو بھون کر رکھ دیا۔ لڑائی کے ایسے تجربے، مہارت اور صلاحیت کا بھارتی فوج میں عشر عشیر بھی نہیں لہذا کہا جا سکتا ہے کہ اول تو جنگ ہوگی نہیں البتہ محدود نوعیت کی جھڑپوں کا امکان ہے۔ اِس وقت کچھ دوست ممالک کشیدگی ختم کرانے میں مصروف ہیں۔ اگر بڑی جنگ ہوتی ہے تو پاک فوج ایسے حیران کُن نتائج دے سکتی ہے کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔