بہتر اقدامات سے پاکستانی پاسپورٹ کے درجے میں اتنی بہتری آئی ہے کہ سبز پاسپورٹ اب 118 سے 92 نمبر پر آگیا ہے۔ ایف آئی اے نے تو یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ پاکستان غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے پہلے پانچ ملکوں کی فہرست سے نکل آیا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں روزگار کے محدود مواقع کا حل بیرونِ ملک جانے میں سمجھا جاتا ہے۔ رواں برس پچاسی لاکھ افراد پاکستان چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے گئے جن میں کم تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہیں۔ حکومتی کوششوں کے باوجود ملکی برآمدات میں اضافہ نہیں ہو سکا اب تو یہ حالات ہیں کہ کم ہوتے ہوتے برآمدات محض تیس ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے اِن میں مزید کمی کا خدشہ موجود ہے لیکن ترسیلاتِ زر 36 ارب ڈالر ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ کُل برآمدات سے ترسیلاتِ زر تجاوز کرچکی ہیں یہ اِشاریے معیشت کے لیے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔
یہ اِشارہ ہے کہ ملکی معیشت ہنوز دباؤ میں ہے جس کا حل حکومت نے یہ تلاش کیا ہے کہ مزید قرضوں کے لیے امیر ممالک اور عالمی اِداروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ جب تک پیداواری شعبے پر توجہ دیکر برآمدی مال میں اضافہ نہیں کیا جاتا اور درآمدت کم نہیں کی جاتیں تب تک معیشت دباؤ سے نہیں نکل سکتی لیکن ایسے حالات میں جب حکومت ایک ارب ڈالر قرض کے عوض عالمی اِداروں کی ناروا شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے ایسے میں ترسیلاتِ زر کسی نعمت سے کم نہیں۔ بیرونِ ملک افرادی قوت بھجوانے سے قبل اُسے ہُنرمند بنانے سے رقوم میں مزید اضافہ بھی ممکن ہے اِس طرح قرض کے عوض نامناسب شرائط تسلیم کرنے کا امکان بھی نہیں رہے گا لیکن حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے بیرونِ ملک جانے والوں کی مشکلات بڑھانے اور اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے تک محدود ہے۔ اِس طرح تو ترسیلاتِ زر کم ہو سکتی ہیں کیونکہ غیرقانونی نقل و حمل بڑھے گی تو لوگ رقوم بھجواتے وقت بھی غیر قانونی زرائع استعمال کریں گے۔ لہذا ہونا تویہ چاہیے کہ جن کے پاس ویزے درست اور سفری دستاویزات مکمل ہوں اُنھیں اندھا دھند آف لوڈ کرنے جیسے احمقانہ فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے مگر رواں برس 51 ہزار سے زائد افراد کو آف لوڈ کردیا گیا حالانکہ اِن میں سے اکثریت کے پاس درست ویزے اور سفری دستاویزات تھیں لیکن جنھیں روکنا چاہیے تھا اُنھیں جانے دیا جاتا رہا اور وہ بیرونِ ملک جاکر گداگری سے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے رہے۔
ملکی معیشت کی طرح بیرونِ ملک جانے والے افراد کے بارے میں تمام تر دعوؤں کے باوجود مکمل اور درست اعداد و شمار دستیاب نہیں جب ملک کے ہوائی اڈوں پر قانونی طریقہ کار کے مطابق جانے والوں کو روکا جائے گا تو لوگ غیر قانونی طریقے سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ آف لوڈ کرنے کے اختیارات کو ایف آئی اے نے کمائی کا زریعہ بنا لیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ آف لوڈ کرنے کے عمل میں شفافیت لائی جائے اور ایسے افراد پر توجہ مرکوز کی جائے جو بیرونِ ملک جاکر کام کرنے کی بجائے گداگری سے پاک وطن اور سبز پاسپورٹ کو بدنام کرتے ہیں، مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ گداگری کی نیت سے جانے والے ائرپورٹوں پر ایف آئی اے اہلکاروں کی مٹھی گرم کرکے آرام سے نکل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس مختلف ممالک سے گداگری کی وجہ سے بتیس ہزار پانچ سو پاکستانیوں کو کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ اگر درست طریقے سے فرائض سرانجام دیے جاتے تو یہ نوبت ہرگز نہ آتی اور ملک بدنامی سے محفوظ رہتا لیکن اِس کوتاہی، سُستی اور لاپرواہی کی پردہ پوشی اور کارکردگی دکھانے کے لیے ایف آئی اے اہلکار درست ویزہ و سفری کاغذات والوں کو روک لیتے ہیں جوکہ غلط ہے۔ یہ طریقہ کار اگر زیادہ دیر جاری رہا تو قانونی طریقہ سے جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو سُکڑتی معیشت کے لیے مزید بد شگونی ہوگی۔
اسلام میں گداگری ایک ناپسندیدہ فعل ہے ہمارا مذہب کسبِ حلال پر زور دیتا ہے۔ پیارے نبی ﷺ نے مانگنے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی اور خود کماکر کھانے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ صحابہ کرامؓ نے مشکل حالات میں بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا۔ پاکستان جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے میں گداگری ناقابلِ فہم ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچیس کروڑ آبادی میں سے تین کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی شکل میں گداگری سے منسلک ہیں۔ اِن میں سے کئی تو مختلف جرائم جیسے اغوا، جسم فروشی، چوری اور منشیات فروشی تک میں ملوث ہوتے ہیں اب تو یہ لعنت ایک مافیا کی صورت اختیار کرگئی ہے۔ کوئی گلی، محلہ اور علاقہ اِن سے محفوظ نہیں گلیوں، چوراہوں اور شاہراہوں پر گداگروں کے غول شکارکی تلاش میں رہتے ہیں جو کسی صاحبِ ثروت کو وصولی کیے بغیر جانے نہیں دیتے اور جو نہ دے اُس کی تذلیل بھی کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں گداگری سے یومیہ تیس ارب وصول کیے جاتے ہیں جو سالانہ 360 ارب بنتے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کی مجموعی پیداوار کا دس فیصد کے قریب ہے۔ پاکستان میں انسداد گداگری کے باقاعدہ قوانین موجود ہیں۔ 1958کے آرڈیننس کے تحت بھیک مانگنا غیر قانونی ہے اور اِس جُرم کے تحت بھکاریوں یا بچوں کے والدین کو تین برس تک کی سزا ہو سکتی ہے لیکن اِس قانون پر موثر علمدرآمد نہیں ہورہا اگر ملک میں گداگری کے خاتمے جیسے قوانین پر عملدرآمد ہو تو بیرونِ ملک جا کر کوئی پاک وطن کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔
پنجاب میں کسی بچے یا بڑے کو جبری معذور کرکے بھیک منگوانے والے کو سات سے دس برس کی قید اور دس سے بیس لاکھ تک جرمانے کا قانون ہے، بغیر معذور کیے بچوں سے بھیک منگوانے والے مافیا چیف کو سات برس قید اور پانچ سے سات لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ 1958 سے رائج انسداد گداگری آرڈیننس میں یہ ترامیم بھی اہم ہیں بشرطیکہ کچھ عمل بھی ہو جس دن پولیس سمیت دیگر اِدارے عملدرآمدکے لیے گرفتاریاں اور مقدمات درج کرنے لگے تو یقینی طورپر گداگری کی لعنت ختم ہونا شروع ہوجائے گی اور بیرون ملک پاکستان کو بدنام کرنے والے بھکاری بھی اپنا پیشہ ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ پاکستان کی سُکڑتی معیشت روزگار دینے کی صلاحیت کھو رہی ہے اور لوگ آسان زریعہ معاش سمجھ کر گداگری کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اِس معاشرتی مسئلہ کے حل کے لیے لازم ہے کہ ہُنر مند تعلیم کو فروغ اور غیر ملکی زبانیں سکھانے کے اِدارے بنانے پر توجہ دی جائے تاکہ افرادی قوت کارآمد ہو اور لوگ باعزت روزگار حاصل کرکے ملکی آمدن بڑھانے میں کردار ادا کریں۔