Thursday, 31 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Badalte Difai Mahaz

    Badalte Difai Mahaz

    روس و یوکرین میں جاری جنگ، مئی کی پاک بھارت فضائی جھڑپوں اور جون کے بارہ روزہ ایران اور اسرائیلی ٹاکرے نے دفاعی محازوں کے معیار بدل دیے ہیں۔ سفارتی پیش رفت کے ساتھ نہ صرف ابلاغی اہمیت کو ناگزیر ثابت کیا ہے بلکہ ماضی کی نسبت جنگی طیارے، ڈرونز اور دورمار میزائل زیادہ اہمیت اختیار کرنے سے زمینی فوج کا کردار محدود ہونے لگا ہے۔ اب عددی برتری کی بجائے جس ملک کی فضائیہ مضبوط ہوگی اور جدید، دورمار اور تباہ کُن ڈرونز اور میزائلوں کا بڑا ذخیرہ ہوگا وہی قلیل وقت میں زیادہ فتوحات حاصل کرسکے گا۔ کمزور فضائیہ اور میزائلوں کی محدود تعداد رکھنے والے ممالک جلد شکست کھا سکتے ہیں۔

    دنیا تبدیلیوں کے ایسے خوفناک عمل سے گزررہی ہے جس نے نوعِ انسانی پر گہرے اثرات تو مرتب کیے ہی ہیں، دفاعی حوالے سے آنے والی تبدیلیاں بھی حیران کُن ہیں جو دفاعی سامان تیار کرنے والے ممالک کو اپنی توجہ لڑاکا طیارے، ڈرونز اور میزائل بنانے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ جنگوں کے نتائج کا انحصار تب تک لڑاکا طیاروں، ڈرونز اور میزائلوں پر رہے گا جب تک نئی قسم کی ایجادات سامنے نہیں آجاتیں مگر اِس میں دورائے نہیں کہ فضائیہ، ڈرونز اور میزائل اہم ہونے سے تباہی کے امکانات بھی زیادہ وسیع ہو گئے ہیں۔

    امریکہ اور یورپی ممالک نے روس کے خلاف یوکرین کو بھاری ہتھیار فراہم کیے جن کی مدد سے وہ نہ صرف حملہ آور افواج کے تباہ کُن حملوں کو برداشت کرنے کے قابل ہوا بلکہ محدود نوعیت کے نقصان سے دوچار کرسکا۔ ویسے تو روس اور یوکرین میں 2014 سے جھڑپیں شروع ہیں مگر 24 فروری 2022 کو روس نے ایک بارہی سبق سکھانے کے لیے بڑا حملہ کیا تو ابتدا میں یوکرین کو کافی نقصان ہوا کئی اہم علاقے چھن گئے مگر جلد ہی امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے ملنے والی کمک سے سنبھلنے لگا اور حملہ آور افواج کے خلاف کاروائیاں بھی کرنے لگا مگر کوئی بڑی کامیابی نصیب نہ ہوسکی بلکہ روس حاوی رہا۔

    اِس دوران عسکری قیادت نے ایک بڑے ڈرونز حملے کا منصوبہ بناکر تیاری شروع کردی جس کا نام سپائیڈر ویب رکھا گیا۔ آخرکار یکم جون 2025 کو روس کے ایسے پانچ مقامات کو نشانہ بنایا جو اُس کے لڑاکا طیاروں کا مستقر تھے۔ اِس حملے میں چالیس کے قریب روسی طیارے تباہ ہوئے۔ مزید پہلو جو قابلِ ذکر ہے وہ یہ ہے کہ یوکرین نے یہ حملہ روس کی سرزمین سے ہی کیا۔ اِس جنگی مہارت اور کاروائی نے روسی قیادت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ جاری جنگ میں حملوں کے دوران مخالف ڈرونز کا توڑ بھی ناگزیر ہے وگرنہ نقصان کی نوعیت بڑھ سکتی ہے لیکن عین ایسے وقت جب یوکرین میدانِ حرب میں کسی حدتک بہتر مقام پر ہے امریکہ نے کمک کم روکنے کے ساتھ سفارتی اور بلاغی حمایت کم کردی ہے جس سے یوکرین کی جنگی صلاحیت میں کمی اور سفارتی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    مئی کی پاک بھارت جھڑپوں نے عسکری ماہرین کو یقین دلا دیا ہے کہ فضاؤں کو میدانِ جنگ بنانے سے محدود وقت میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اِن جھڑپوں کی ابتدا بھارت نے کی جس کے جواب میں پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارتی ذرائع استعمال کیے چین اور ترکیہ جیسے ممالک کو اپنا ہم خیال بنایا جسے کمزوری تصور کرلیا گیا اور اپنی حدود میں رہ کر بھارت نے ایک بڑے فضائی حملے سے پاکستان کو ہزیمت سے دوچار کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کی مگر سفارتی ذرائع کو نظرانداز کردیا اِس لیے صرف اسرائیل جیسا ملک ہی بھارتی حمایت کی ہمت کر سکا حکومت کے زیرِ اثر بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھی زمینی حقائق کے برعکس مسلسل جھوٹ بول کر خود ہی اپنی ساکھ ختم کرلی۔

    رواں برس 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام کے مقام پر ایک خود ساختہ دہشت گردانہ حملے کے بعد جب بھارتی عسکری اور سیاسی قیادت نے دھمکیوں کی شروعات ہی کی تو پاکستان نے سنجیدہ لیا اور سفارتی ذرائع سے تیاری کے لیے مناسب وقت حاصل کرلیا جس کا عددی برتری کے خناس کا شکار بھارت ادراک نہ کر سکا۔ لہذاجب سوکے قریب بھارتی طیاروں نے فضائی حملے کے لیے مختلف مقامات سے اُڑان ہی بھری تو پاکستانی فضائیہ کو اپنے دفاع میں چوکس و تیار پایا۔ پچاس کے لگ بھگ لڑاکا طیاروں نے دشمن کے سو کے قریب جنگی طیاروں سے رواں صدی کی سب سے بڑی ڈاگ فائٹ کی۔ اِس میں دشمن کے چھ جدید ترین لڑاکا طیارے تباہ ہوئے جن میں فرانسیسی رافیل اور روسی ساختہ مگ وسخوئی شامل ہیں۔

    اِتنے بھاری نقصان کے باوجود بھارت نے جارحیت جاری رکھتے ہوئے اسرائیلی ساختہ ڈرونز ہیروپ کی رہنمائی میں چند میزائل داغ دیے۔ اِس اشتعال انگیزی کے جواب میں دس مئی کی شب پاکستانی فضائیہ نے دشمن پر حملوں کا آغاز کیا۔ علاوہ ازیں پچیس سے زائد بھارت کے عسکری مقامات پر جدید ترین میزائلوں کی برسات کی جاتی رہی۔ چند گھنٹوں پر محیط پاکستانی حملوں سے بوکھلا کربھارت اپنے عالمی ہمدردوں سے جنگ بندی کرانے کی التجائیں کرنے لگا جس پر امریکہ، سعودی عرب، ترکیہ اور عرب امارات حرکت میں آئے اور دونوں ممالک میں جنگ بندی ہوگئی۔

    اِس جنگ نے تبدیل شدہ جنگی معیارات کو مزید واضح کیا اور تصدیقی مُہر ثبت کردی کہ مضبوط فضائیہ، ڈرونز اور جدید ترین میزائلوں کے بغیر جنگ ناممکن ہے اب پاک امریکہ خوشگوار تعلقات کو خراب کرنے کے لیے بھارت ایسی افواہوں کاسہارا لے رہا ہے کہ پاکستان اپنے میزائلوں کی رینج امریکہ تک بڑھانے کی کوشش میں ہے حالانکہ پاکستانی میزائلوں کی حد رینج تین ہزار کلومیٹر سے کم ہے جبکہ بھارتی میزائل آٹھ ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ دراصل پاکستان سے شکستِ فاش کے بعد یہ بھارت کی سفارتی اور بلاغی جارحیت ہے۔

    اسرائیل سے بارہ روزہ جنگ کے بعد ایران میں فتح کا جشن جاری ہے حالانکہ پہلی فضائی کاروائی میں اسرائیل نے ایران کی عسکری قیادت کو نشانے کے ساتھ کئی اہم ترین سائنسدان بھی مار ڈالے مگر جواب میں ایران کا دفاعی نظام اِس بناپر حرکت میں نہ آسکا کیونکہ ایران کے اندر سے ہی کی جانے والی ڈرونز کاروائی نے دفاعی نظام ملیا میٹ کردیا تھا جبکہ کمزور فضائیہ جوابی صلاحیت سے ہی محروم تھی جس سے دنیا نے یہ پیغام لیا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ دفاعی صلاحیت بھی ختم ہوگئی ہے مگر جلد ہی دفاعی نظام بحال کرنے کے ساتھ ایران نے ڈرونز اور میزائل حملوں سے اسرائیلی جارحیت کا جواب دینا شروع کردیا۔

    اِس دوران کچھ حملہ آور طیارے ایران نے مار گرائے۔ ایران کے میزائل اور ڈرونز حملوں کو طول پکڑتا دیکھ کر اسرائیلی عسکری اور سیاسی قیادت نے گھبرا کر امریکہ سے مدد طلب کی جس نے اول تو بی ٹو بمبار طیاروں سے ایران کی تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا اور پھر فوری طور پر دونوں ممالک میں جنگ بند کرا دی۔ اِس لڑائی میں زیادہ ایرانی نقصان کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فضائی کاروائی کے جواب میں اُس کی فضائیہ بے بس و لاچار رہی۔

    زیادہ انحصار ڈرونز اور میزائلوں پرہی رہا اگر میزائل اور ڈرونز بھی نہ ہوتے تو اسرائیل شاید جنگ بندی کی ضرورت محسوس نہ کرتا اور غزہ، شام اور عراق کی طرح ایران پر بھی حملے جاری رکھتا۔ بھارت اور اسرئیل دونوں کی سوچ یکساں ہے یہ اب اپنی لڑائی میں امریکہ کو ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اِس سفارتی اور ابلاغی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی موئثر حکمتِ عملی بنانا ہی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے وگرنہ جنگی فتوحات کے ثمرات زائل ہو سکتے ہیں۔