Wednesday, 13 August 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Hameed Ullah Bhatti
    4. Aman Ke Daway Aur Kirdar

    Aman Ke Daway Aur Kirdar

    امریکی اور اسرائیلی کردار سے دنیا کا امن خطرے میں ہے لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ امریکہ پر انحصار کرنے کی بجائے تنازعات کے حل کے لیے ہمہ گیر کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ امریکہ تو جلتی پر تیل ڈال رہا ہے حالانکہ صدر ٹرمپ نے خود کو ہمیشہ ایک ایسے امن پسند شخص کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو جنگوں کا مخالف ہے مگر اُن کے کردار سے اُن کے دعوؤں کی تائید نہیں ہوتی۔ ایک ہفتے میں جنگ بند کرانے کا وعدہ پورا کرنا تو ایک طرف روس یوکرین جنگ میں شدت آتی جارہی ہے مگر وہ کچھ نہیں کرپائے البتہ جنگ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یوکرینی معدنیات پر امریکی کنٹرول کو یقینی بنالیا ہے۔

    غزہ پر مسلسل اسرائیلی حملے جاری ہیں لیکن امن کے دعویدار ٹرمپ کا احمقانہ مطالبہ ہے کہ فلسطینی غزہ کو خالی کردیں۔ رواں ماہ تیرہ جون سے اسرائیل نے ایران کی آزادی و خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے دو سو طیاروں سے جوہری تنصیبات پر حملہ کردیا اور عسکری قیادت کے ساتھ سائنسدانوں کی بڑی تعداد مار دی جس پر دنیا نے شدید ردِ عمل دیا واحد امریکہ تائید کررہا ہے۔ حملے تادم تحریر جاری ہیں مگر اسرائیل کو حملوں سے باز رکھنے کی بجائے امریکہ چاہتا ہے کہ وہ ایران کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے۔ اب جب دیکھا کہ ایران کے دلیرانہ جواب سے اسرائیل مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں بُری طرح ناکام اور دباؤ کاشکار ہے تو خود بھی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کردیا ہے جو امن سے کھلواڑ کے مترادف ہے۔

    حملوں کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کے لیے ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنا چاہتے ہیں لیکن شواہد ایسے کسی دعوے کی تائید نہیں کرتے کیونکہ اگر دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو خود بھی جوہری ہتھیار نہ بناتے اور جو بنائے ہیں وہ تلف کردیتے۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے امریکہ کے پاس ہے جس سے پوری دنیا کو ایک سے زائد بار تباہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اسرائیل کے پاس بھی کم از کم دوسوکے قریب جوہری بم ہیں، حالانکہ اُس کے کسی ہمسایہ کے پاس یہ صلاحیت نہیں۔ امریکہ و اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کو دنیا کے امن کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو دنیا کے امن کی کلید قرار دینے والے دیگر ممالک کو کیوں بزور منع کررہے ہیں؟ جواب دنیا پر بالادستی برقرار رکھنے کا حیوانی جذبہ ہے یہ حیوانی جذبہ دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔

    کوئی ملک کسی کو اپنی آزادی و خود مختاری پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اپنی حاکمیت کا تحفظ کرتا ہے یہی کچھ ایران نے کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا آرٹیکل 51 ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق دیتا ہے مگر اسرائیل اور امریکہ دونوں ایران کو دفاع کا حق دینے پر تیار نہیں۔ خیر کوئی ملک کسی سے پوچھ کر اپنا دفاع نہیں کرتا ٹھیک ہے اسرائیل کو ایران پر فضائی اور ٹیکنالوجی کی برتری حاصل ہے مگر جذبہ بھی کم اہم نہیں ہوتا۔ ایران نے حملوں کا جواب دیکر اسرائیل کو چونکا دیا ہے جس پر شہری آبادی میں بے چینی ہے اور کئی شہریوں میں وسیع پیمانے پر تباہی کے مناظر دیکھے گئے ہیں۔

    امریکی حملوں کے جواب میں قطر اور عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنا کر ایران نے ثابت کردیا ہے کہ دشمن ممالک کو حیران کرنے کے لیے اُس کے پاس صلاحیت ہے نیز وہ ایک طویل اور خطرناک جنگ کرسکتا ہے۔ اُس کے میزائل حملوں کو اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم مکمل طور پر روک نہیں سکا یہ ایسی کمزوری ہے جس سے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا تصور منہدم ہوا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل سرحدوں سے دور طویل عرصہ لڑائی نہیں کرسکتے لڑائی اور امن دونوں صورتوں میں امریکہ اور اسرائیل نے جو کانٹے بودیے ہیں وہ طویل عرصہ امن کی راہ میں رخنہ ثابت ہوتے رہیں گے۔

    ہر بندے کی ساکھ ہوتی ہے البتہ صدر ٹرمپ کی ساکھ بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ اُن کے کردار سے امن پسندی کے دعوؤں پر شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران پر حملے سے قبل جس دن زرائع ابلاغ سے گفتگو میں دنیا کو یقین دلایا کہ ایران پر حملہ دو ہفتوں کے لیے موخر کردیا ہے تو دو دنوں بعد ہی سات بی ٹو بمباروں سمیت 125 طیاروں سے ایران کی تینوں بڑی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ کردیا۔ اِس حملے کے دوران ایسے چھ بنکر بسٹربم استعمال کیے گئے جو قبل ازیں صرف پاک افغان سرحد کے پاس طالبان کے خلاف امریکہ نے استعمال کیے۔

    اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کیوں ہر وقت بے چین اور فکر مند رہتا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے عرب ممالک ہر وقت عدمِ تحفظ کا شکار ہوکر نہ صرف امریکی بلاک کا حصہ رہنے پر مجبور رہیں بلکہ امریکی ساختہ اسلحہ خریدتے رہیں اسی لیے خاموشی اور ہوشیاری سے پولینڈ میں امریکی افواج کو بھی منتقل کر لیا ہے کیونکہ یورپی یونین سے زیادہ عرب ممالک سے معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں مگر یہ چالاکی و ہوشیاری اب پوشیدہ نہیں رہی دنیا پر امریکہ اور اسرائیل کی کمزوریاں آشکار ہوتی جارہی ہیں جس کا نتیجہ اِن کی سیاسی، سفارتی اور دفاعی ناکامی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

    ٹرمپ کے کردار سے امن پسندی کے دعوے بے بنیاد توثابت ہوئے ہی تھے مگر ایران پر حملے سے ایک ایسے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں جن کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا لہذا ایسے شخص کو نوبل انعام تھمانا حماقت اور غیر حقیقت پسندانہ ہوگا۔ دوہفتوں کا کہہ کر دو دن بعد ہی حملہ کر دینا دلیل کے لیے کافی ہے کہ وہ کسی وقت بھی ناقابلِ تصور ردِعمل دے سکتے ہیں۔ اسرائیل نے بھی ایران اور امریکہ میں جاری جوہری مزاکرات کے چھٹے دور سے دو دن قبل جوہری تنصیبات پر حملے سے سفارتکاری کو سبوتاث کیا۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف کاروائی سے اسرائیل نے غزہ حملوں کے حوالے سے دنیا کی تشویش کارُخ بدلاہے کیونکہ ایران کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو تحفظات ہیں مگر جوابی کاروائی نے امریکہ اور مغرب کی پریشانی بڑھادی اسرائیل کو دباؤ سے نکالنے کے لیے امریکہ کو ملوث ہونا پڑا ہے حالانکہ امریکہ کا جنگ کاحصہ بننے سے عسکری کاروائیاں اب معاشی نقصانات کی طرف منتقل ہوسکتی ہیں کیونکہ ایرانی پارلیمنٹ نے امریکی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ آبنائے ہرمز کوبند کرنے کی توثیق کردی ہے۔

    ایسا ہونے سے دنیا کی بیس فیصد تیل کی تجارت بند ہوجائے گی جس کے نتیجے میں توانائی کا بدترین بحران جنم لے سکتا ہے جس کے اثرات و نتائج برداشت کرنے کی دنیا متحمل نہیں ہو سکتی۔ امریکی حملے پر دنیا سے شدید ردِ عمل آیا ہے اور آج ایران سفارتی حوالے سے بہتر مقام ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو یہ اختیار کس نے نہیں دیا کہ وہ دنیا بھر میں جوہری تنصیبات پر حملے کرتے پھریں طاقت کا یہ بے جا اظہار امن کے لیے ناسوربن سکتا ہے جس کا بروقت تدارک نہ ہوا تو تیسری عالمگیر جنگ کا امکان بڑھ جائے گا۔