Sunday, 23 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Haider Javed Syed
  4. Ustad Ji Se Mulaqat

Ustad Ji Se Mulaqat

زاہد ہارون اعوان ہمارے ساڑھے تین دہائیوں سے دوست ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا خاصا شغف ہے اور ترقی پسند سوچ کے حامل بھی ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ سال 1992ء میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ محنت کش سفید پوش خاندان کے اس چشم و چراغ کی زندگی بھی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔

ایک زمانے میں وہ پیپلزپارٹی کے عاشق تھے آج کل دوسرے بہت سارے ریٹائرو حاضر سروس ترقی پسندوں کی طرح عمران خان کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے "اسیر" ہیں۔ زاہد سمیت ان سب ترقی پسندوں کا موقف ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا وہ مظلوم آدمی ہے اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔

اپنے ان ریٹائر و حاضر سروس ترقی پسندوں کی خدمت میں ہمیشہ یہی عرض کرتا ہوں ظالم اور مظلوم بارے اپنی رائے قائم کرنا خالصتاً آپ کا ذاتی حق ہے لیکن ایسا کیوں لگتا ہے کہ آپ میں سے اکثر انقلاب کی پکی پکائی کھیر کھانے کے خواہش مند ہیں۔ ریٹائرو حاضر سوس ترقی پسندوں کی اکثریت اس پر آگ بگولہ ہوجاتی ہے۔

زاہد ہارون اعوان میں یہ خوبی ہے کہ وہ ناراض ہوتا ہے نہ آگ بگولہ۔ کچھ دیر قبل اس سے ایک طویل عرصے غالباً دو اڑھائی برس بعد بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ صاحب سلامتی کے بعد مختلف موضوعات پر دلچسپ مکالمہ ہوا

ان سے ان کے نئے سیاسی انقلابی عشق بارے دریافت کیا تو بولے، محترمہ بینظیر بھٹو ہوتیں تو ہم پی پی پی کے ہم خیال ہی رہتے۔ آصف علی زرداری پی پی پی قابض ہیں اور پی پی پی ان دنوں اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کار ہے۔ ہم نے ہنستے ہوئے عرض کیا استاد جی (انہیں اولین ملاقات سے استاد جی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں) اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری ہو بروکری یا اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں اُگنا غلط تو سبھی غلط ہے اور درست سبھی درست۔ کل آپ کا محبوب دوراں جنرل باجوہ اور فیض حمید کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آیا اور جہانگیر ترین کا جہاز مال غنیمت ڈھوتا رہا۔

انہوں نے بات کاٹتے ہوئے کہا مگر آج تو وہ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ دو خط لکھ چکا تیسرا خط لکھنے کا ارادہ ہے۔

آپ اسی شخص کی بات کررہے ہیں نا جو کہتا تھا مجھے ایجنسیوں نے بریفنگ دی کہ زرداری نوازشریف چور ہیں ایجنسیوں نے فائلیں د یکھائیں اور اس نے مان لیا۔ اب خود اس پر کرپشن کے مقدمات ہیں اور چند دیگر معاملات بھی لیکن اس کے حامی کہتے ہیں وہ سادھو ہے؟

کہنے لگے آپ تو شدید ترین ناقد ہیں پی پی پی کی محبت میں عمران خان کے۔ جی پی پی پی کی محبت کے زم زم بہتے آپ نے نہیں دیکھے "نہ چھیڑ ملنگاں نوں" کے عنوان سے لکھے تین کالموں کے جواب میں؟ خیر چھوڑیئے یہ آج کا موضوع نہیں۔

زاہد ہارون اعوان دعویدار ہیں کہ ہم ان کے استاد ہیں۔ اسی لئے ہم انہیں استاد جی کہہ کر ان کے دعوے کی تردید کرتے رہتے ہیں۔ ان سے اکثر باتوں پر اختلاف رہتا ہے لیکن ان سے محبت اور احترام بھرے تعلق کے برقرار رہنے کی دو وجوہات ہیں پہلی کہ کتاب دوست ہیں پڑھتے رہتے ہیں سال چھ ماہ بعد یا جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو گزشتہ عرصے میں پڑھی گئی کتب کے موضوعات پر کھلے ڈھلے انداز میں اپنی سناتے اور ہماری سنتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہماری بھتیجیوں کو خوب پڑھایا لکھایا جتنا بیٹیوں نے چاہا اور بیٹیوں کی تعلیم کے معاملے میں انہوں جس وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ورنہ قصباتی شہروں سے آکر لاہور یا دوسرے بڑے شہروں میں آبسنے والے انگنت لوگوں کے اندر سے سستی قدامت پسندی نہیں جاتی۔ زاہد ہارون اعوان یکسر مختلف ثابت ہوئے انہوں نے بیٹیوں کو محض تعلیم نہیں دلوائی بلکہ کتاب دوستی کے توسط سے نورِ علم سے بھی روشناس کروایا۔ پیا گھر رخصت ہونے والی بیٹیوں کی طرح چوتھی صاحبزادی بھی ان دنوں ایم اے نفسیات کی طالبہ ہے۔

کچھ دیر قبل ہوئی ملاقات کے لئے انہوں نے زحمت کی ہماری لائبریری تک آنے کی۔ تبادلہ خیال میں جہاں دوسری باتیں ہوئیں وہاں یہ بھی انکشاف ہوا کہ صاحبزادی کی تعلیم مکمل ہونے اور فرض سے ادائیگی کے بعد وہ ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سوال کیا استاد جی کہاں کا ارادہ ہے؟

بولے یورپ کے کسی بھی ملک میں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا لیکن آپ کا سیاسی محبوب تو ریاست مدینہ بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ کہاں جائیں گے کسی دور کے دیس میں رہیں اور ریاست مدینہ اگر بن گئی تو فیض و برکات سمیٹ لیجئے گا۔

کہنے لگے "شاہ جی چیزا نہ لئو"۔ عرض کیا ناقد ہونے کے باوجود ہم تو دعا گو رہتے ہیں کہ عمران خان ریاست مدینہ نہ بناسکے۔ کیوں؟ انہوں نے پوچھا۔ عرض کیا، خلیفہ شہید ہوکر رخصت ہوتا ہے تو نیا خلیفہ آتا ہے۔

کہنے لگے لیکن عمران کی ریاست مدینہ میں خلافت کا نظام تو نہیں ہوگا۔ جی بالکل وہ ذاتی طور پر صدارتی نظام کو پسند کرتا ہے اور جتنے اختیارات وہ صدر مملکت کے لئے چاہتا ہے وہ خلیفہ کے اختیار سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ ان حالات میں رخصتی کے دو ہی راستے ہیں۔ طبعی عمر پوری ہو یا شہادت تیسرا راستہ کوئی ہے تو بتادیجئے؟

دوسری باتوں کو چھوڑیئے بس ایک بات پر انہوں نے ہم سے کامل اتفاق کیا کہ "پابند طبقاتی جمہوریت کے کوچے میں سے پرعزم جدوجہد سے عوامی حاکمیت کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے لیکن اگر پابند طبقاتی جمہویرت کی حقیقی بینیفشری اسٹیبلشمنٹ سے لڑا جائے تو ماورائے آئین اقتدار کا راستہ ہموار ہوگا اس صورت میں مزید پندرہ سے 20 سال برباد ہوجائیں گے"۔

استاد جی اپنے قلمی نام سے تین عشروں سے مختلف اخبارات میں کالم لکھ رہے ہیں آجکل "مظلوم دوراں" عمران خان کے حامی ہیں دوسرے ریٹائر و حاضر سروس ترقی پسندوں کی طرح ان کا بھی یہی خیال ہے کہ عمران خان اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اب اس کا کیا کیجئے کہ اجتماعی تقدیر بدلنے کے کسی نسخے اور دعوے پر ایمان لانے کی ہماری عمر بیت گئی۔

دوران گفتگو ان کی خدمت میں عرض کرنا پڑا کہ حضور مجھے ڈر ہے کہ چند برس بعد آپ لوگ (ترقی پسند) عمران خان کو کوستے ہوئے کہہ رہے ہوں گے اس نے بھی بھٹو کی طرح ترقی پسندوں کو استعمال کیا۔ حالانکہ نہ تو بھٹو نے ترقی پسندوں کو استعمال کیا تھا نہ عمران خان کا ایسا ارادہ لگتا ہے ہاں سوشلسٹ دوست اُس بار کی طرح اب بھی غلطی پر ہیں۔

بھٹو صاحب سوشلسٹ و کمیونسٹ ہرگز نہیں تھے وہ ایک سنٹرل لبرل مزاج کے وفاقیت پسند سیاستدان تھے انہوں نے اہل پاکستان (اس وقت کے) کی بھارت سے نفرت کو اپنی حکمت عملی کے ذریعے کیش کروایا۔

عمران خان مذہبی اصلاحات کو جی بھر کے استعمال کرتے ہیں لیکن مذہب و عبادات دونوں لذت دہن ہیں یا تصویری نمائش کے لئے۔

استاد جی کہتے ہیں لیکن ہم پیپلزپارٹی کی حمایت کیوں اور کس لئے کریں؟ مجھے پوچھنا پڑا کہ پچھلے 35 برسوں میں ہم نے کب آپ سے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حمایت کریں؟

بار دیگر ان کی خدمت میں عرض کرنا پڑا کہ دستیاب سیاسی جماعتیں (یاد رہے کہ مذہب و عقیدے کی آڑ میں سیاست کرنے والی فرقہ وارانہ جماعتوں کو یہ طالب علم سیاسی جماعتیں نہیں سمجھتا) اندھی شخصیت پرستی سے عبارت محبت میں اس طور گرفتار ہیں کہ مخالفین کے لئے کوئی رورعایت رکھنا غیرضروی سمجھتی ہیں۔

کہنے لگے آپ خود پی پی پی کی حمایت کرتے ہیں؟ عرض کیا صرف پی پی پی کی نہیں ہم تو اے این پی اور قوم پرستوں کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کیا پی پی پی آج درست سمت کھڑی ہے؟

عرض کیا ترقی پسندوں کی درست سمت اگر عمران خان تو پھر پی پی پی و اے این پی جس سمت کھڑے ہیں تحفظات کے باوجود درست کھڑے ہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں کُٹی کرتی ہیں نہ دروازہ بند کرکے بیٹھ رہتی ہیں۔

اس پر بولے کل اسلام آباد میں اپوزیشن رہنمائوں کا ایک اجلاس ہوا ہے بات آگے بڑھ رہی ہے۔

اب میں نے قہقہہ بلند کرتے ہوئے کہا ان اپوزیشن رہنمائوں میں سے د و تو ایسے ہیں جن کی بیگمات اور دوسرے اہل خانہ نے پچھلے برس کے انتخابات میں (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے۔

رہے مولانا فضل الرحم قبلہ، تو ان کا موقف ہے کہ دھاندلی پورے ملک میں ہوئی ہے۔ اب کیا تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں انتخابی نتائج کے حوالے سے مولانا کی تسلی و تشفی کراسکتی ہے؟

باتیں اور بھی بہت ہوئیں کالم کے دامن کی گنجائش ختم ہورہی ہے اس لئے آخری بات یہی ہے کہ (یہ ان کی خدمت میں بھی عرض کیا) عمران خان اور ان کی جماعت کو دستیاب سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی معاملہ کرنا ہوگا اسٹیبلشمنٹ کی درشنی فیشنی مخالفت اور اسی کو خطوط لکھنا یا نمائندوں کے توسط سے رابطے کرنا اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے

"ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں"۔