Thursday, 10 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Haider Javed Syed
    4. Awam Dost Nahi Qatil Budget

    Awam Dost Nahi Qatil Budget

    یقین کیجئے میں وفاقی بجٹ پر کالم لکھنے سے گریزاں تھا لیکن فقیر راحموں بضد ہیں کہ نہ صرف بجٹ شریف پر کالم لکھا جائے بلکہ ان کی چند تجاویز حکومت وقت تک پہنچانے میں تعاون بھی کیا جائے۔

    فقیر راحموں نے وزیراعظم کے اس بیان پر کہ "پاکستانی معیشت کا جہاز ٹیک آف" کرنے کو تیار ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "فوکر جہاز اب متروک ہوچکے ہیں پھر بھی اگر وزیراعظم اسے ٹیک آف کرانے پر مُصر ہیں تو نتیجہ کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے"۔

    ایک مشورہ دوں قسطوں میں یہ ہے کہ اولاً تو نان فائلر کے مرنے پر ایک لاکھ روپیے ٹیکس لگانے کے ساتھ نان فائلر کی کچی قبر پر پچاس ہزار اور پختہ قبر پر ایک لاکھ روپے پراپرٹی ٹیکس لگادیا جانا چاہئے یا پھر ماچس سے آٹا اور دیگر ضروریات زندگی خریدنے پر سیلز ٹیکس کے نام پر بھتہ دینے والے تمام شہریوں کو فائلر قرار دیا جائے۔

    پنشن اصلاحات اور بالخصوص فیملی پنشن کی مدت 10 برس کرنے پر فقیر راحموں کی تجویز یہ ہے کہ جونہی کوئی پنشنر سفر حیات طے کرکے دنیا سے رخصت ہو اس کے ساتھی (میاں یا بیوی) کو کسی تاخیر کے بغیر سزائے موت سنادی جائے۔

    میں نے عرض کیا اسلام میں "ستی" کی رسم حرام ہے۔ بولے پہلے کون سا حلال کاموں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ فیملی پنشن کے دوسرے حقدار کو سزائے موت سنانے کی جو تجویز فقیر راحموں نے دی ہے یہ ہمارے خلاف کھلی سازش ہے فقیر راحموں ہم سے جان چھڑاکر باقی ماندہ زندگی میں پیری فقیر کے دھندے کو دلچسپی کے ساتھ شروع کرنے کا پروگرام رکھتا ہے کیونکہ ہماری اہلیہ ابھی حیات ہیں اور ان کی پنشن سے گھر داری کا بھرم قائم ہے۔

    نئے بجٹ میں ایک حکومت مخالف سابق بار ٹینڈر حاضر سینئر صحافی و تجزیہ نگار کے بچوں کا دودھ مہنگا کردیا گیا ہے اس پہ دکھ ہے۔ پٹرول اور سولر پینلز مہنگے جبکہ ادویات سستی ہونے کی نوید ہے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ میک آپ کا سامان سستا ہونے کی مبارکباد کس کو دی جائے؟

    آپ بھی اس پر غور کیجئےگا اس پر۔۔

    وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 10 اور پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس پر ایک زبان زد عام مثال ذہن میں آئی لکھ اس لئے نہیں سکتا کہ اخلاق بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

    تنخواہ داروں کے لئے ٹیکس میں ریلیف کا اعلان کیا گیا ہے۔

    دفاعی بجٹ میں لگ بھگ 21 فیصد اضافہ اور مسلح افواج کے لئے سپیشل ریلیف الائونس کا اعلان کیا گیا۔ پنشن اصلاحات کے حوالے سے توقع تھی کہ سول پنشن کا بوجھ کم کرنے کے لئے ڈیفنس پنشن کو واپس دفاعی بجٹ کا حصہ بنادیا جائے گا۔ ڈیفنس پشن کو سول بجٹ کے گلے ڈالنے والا مردود وزیراعظم شوکت عزیز پتہ نہیں اب کہاں ہوتا ہے۔

    17573 ارب روپے کے وفاقی بجٹ کا خسارہ 6501 ارب روپے ہے جبکہ 8206 ارب سود کی ادائیگی اور 820 روپے وفاقی پنشن پر اٹھیں گے یاد ر ہے 820 ارب روپے کی وفاقی پنشن میں ڈیفنس پنشن شامل ہے اور غالب حصہ اسی کا ہے آن لائن کاروبار پر مزید ٹیکس نافذ کیا گیا ہے۔

    غیر رجسٹرڈ کاروباروں پر پچاس لاکھ روپے جرمانہ اور سزائوں کی تجویز ہے سرکاری بھونپو سمجھے جانے والے ایک مہاتما صحافی ہمیں سمجھارہے ہیں کہ دفاعی اخراجات میں اضافے کی ضرورت ثابت ہوگئی ہے۔

    بیکری آئٹم پر جی ایس ٹی ختم کردیا گیا ہے۔ صحت کے 21 منصوبوں کے لئے وفاقی بجٹ میں 14 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ الحمدللہ بجلی کے بلوں پر 10 فیصد سرچارج لگانے کی تجویز زیر غور ہے۔ پٹرولیم لیوی کا ہدف 1.468 ٹریلین روپے مقرر کیا گیا ہے۔

    تنخواہ داروں کے لئے ٹیکس کی جو نئی اصلاحات ہیں ان پر عمل سے 9 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوگی۔ ساعت بھر کے لئے رکئے ایک خبر بارڈر پار بھارت سے آئی ہے بھارت کے جنگی جنون میں اضافے کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی بجٹ میں 9.5 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔

    چھوڑیں ہمیں کیا بھارت سرکار جانے اور بھارتی عوام ہم اپنے عوام دوست (بقول وزیراعظم شہباز شریف) بجٹ پر بات کرتے ہیں مختفل سبسڈیز کے لئے 11کھرب 86 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔

    پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے ریلیف ملے گا جو سالانہ 24 ہزار روپے ہوگا اگر ریلیف کی رقم خرچ نہ کی جائے تو وفات کی صورت میں کفن دفن سوئم وغیرہ کے اخراجات میں سوگواران کو خاصی مدد مل سکے گی۔

    وفاقی کابینہ کے اخراجات میں دوگنا اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ وزراء اور وزرائے مملکت کی تنخواہوں اور مراعات کے لئے 27 کروڑ روپے کی رقم بڑھاکر 50 کروڑ 54 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔

    مشیروں اور معاونین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 716 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے 31 منصوبوں کے لئے 4.8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 26 وزارتوں کے بجٹ میں اضافہ اور 5 کے بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔

    ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کے لئے 70 ارب رپے کی رقم مختص کی گئی ہے یعنی "بلدیاتی ادارے ہنوز دلی دور است؟" وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لئے 58 ارب روپے، ریلوے کے لئے 22 اور صحت کے لئے 14 ارب روپے رکھے گئے۔ نان فائلر بس اپنے خرچ پر زندہ رہ سکیں گے گاڑی و جائیداد خریدانے اور بینک اکائونٹس کھولنے پر پابندی ہوگی۔

    نقد لین دین کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ بینکوں سے کیش نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح دوگنی کردی گئی ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کہتے ہیں ٹیرف اصلاحات 5 سالہ منصوبہ معیشت کے لئے بہتر ہے۔

    وفاقی بجٹ کے چیدہ چیدہ نکات بالائی سطور میں لکھ دیئے گئے اللہ جھوٹ سے محفوظ فرمائے (آمین) نصف صدی سے ہر بجٹ کے موقع پر یہی سنتے آئے ہیں کہ یہ ایک عوام دوست بجٹ ہے جو تعمیروترقی کے نئے دور کی بنیاد رکھے گا افسوس کہ ہر بجٹ قاتل بجٹ ثابت ہوا۔

    بہرحال ابھی بجٹ پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث ہونی ہے عین ممکن ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان اپنی اپنی انا اور شخصی وفاداری کے خول سے باہر نکل کر اپنے ووٹروں کی دلجوئی اور ریلیف کے لئے ہاتھ پائوں ماریں۔

    یاد رہے عین ممکن ہے لکھا ہے اس لئے ضروری نہیں کہ ارکان اسمبلی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

    پیپلزپارٹی کے پاس تو وفاق میں صرف تین آئینی عہدے ہیں وہ کوئی حکومت کا حصہ تھوڑا ہی ہے کہ اس سے شکوے کریں یا شکایات۔ بلاول حال ہی میں عالمی سفارتکاری کے لئے ایک حکومتی وفد کے سربراہ بن کر غیرملکی دورے پر گئے تھے "یہ سربراہی حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہرگز نہیں تھی بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں انہوں نے قبول و منظور کی"۔

    یقیناً بجٹ کی اچھائیاں برائیاں مسلم لیگ (ن) کے حصے میں ہوں گی ہاں اگر پیپلزپارٹی نے بجٹ منظوری کے وقت ووٹ دیا تو پھر اگر ہم اسے بربادیوں میں شامل قومی مجرم کہیں تو امید ہے جیالے دوست ناراض نہیں ہوں گے جیسا کہ وہ چند سطری سوشل میڈیا پوسٹ پر ناراض ہوئے۔

    کڑوا سچ یہ ہے کہ آمدہ مالی سال کا وفاقی بجٹ ایک سیدھا سادہ قاتل بجٹ ہے عام آدمی کو اس میں سے کچھ نہیں ملنے والا، اشرافیہ حسب سابق مزے میں رہے گی۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی کے جو ریکارڈ موجودہ حکومت نے بنائے ہیں ان سے عمرانی دور کے زخم سختی میں کچھ کچھ کم لگنے لگے ہیں۔

    حرف آخر یہ ہے کہ کالم کی ابتدائی سطور میں فقیر راحموں کی جانب سے جو تجاویز لکھوائی گئی ہیں ان پر اگر وزیراعظم اور ان کی حکومت ایک نگاہ ڈال کر عمل کا حکم دے دیں تو سالانہ اربوں روپے کی بچت کے ساتھ اضافی آمدنی ہوسکتی ہے۔