Wednesday, 03 September 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Sindh Taas Muahida Ki Muattali Aur Canals Ke Masle Par Bain Al Soobai Tanao

    Sindh Taas Muahida Ki Muattali Aur Canals Ke Masle Par Bain Al Soobai Tanao

    مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 28 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام تراشی سے پاکستان کے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سارا معاملہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ اور سندھ طاس معاہدے کے خلاف فالس فلیگ سرگرمی ہے۔ انڈیا نے ایک گھناونے منصوبے کے مطابق سیاحوں کی ہلاکت کا ڈرامہ ازخود رچایا اور پھر پاکستان کیخلاف سخت اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے واہگہ اٹاری سرحد بند، سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کردیا، پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ، ہندوستان میں موجود پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم، نئی دہلی کے پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی، بحری اور فضائی مشیر ناپسندیدہ قرار، سفارتی عملہ محدود اور بھارتی دفاعی اتاشی کو پاکستان سے واپس بلانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ناپسندیدہ عملے کو انڈیا چھوڑنے کے لیے ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا ہے اور انڈیا بھی اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے اپنے ڈیفنس، ملٹری، نیوی اور فضائیہ کے ایڈوائزرز کو واپس بلا رہا ہے۔

    دوسری جانب پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی ردعمل کے طور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی یکطرفہ مطلعی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے اور منہ توڑ جواب دینے کا اعلان کیا ہے، نیز بھارتی دفاعی، نیول اور فضائی ایڈوائزر کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے 30، اپریل تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا ہے، بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد کم کرکے تیس تک محدود کردی گئی اور سارک اسکیم کے تحت تمام بھارتھوں کے ویزے منسوخ کرکے 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے تاہم سکھ یاتری اس حکم سے مستثنی ہیں، پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی بندش کرتے ہوئے بھارتی ایئر لائن کا داخلہ بھی بند کر دیا ہے اور افواج پاکستان اس وقت مکمل ہائی الرٹ ہیں۔

    حقیقت حال یہ ہے کہ بھارتی جارحیت اور جھوٹ پر مبنی بیانیہ بعض زندہ افراد کو مردہ قرار دینا، فالس آپریشن، وغیرہ بھارت اپنی آخری حدوں پر آگیا ہے۔ ہندو توا نظریات کے بعد اب پانی پر جنگ کی کوشش ہو رہی ہے۔ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا بھارتی اقدام غیر قانونی اور عالمی دنیا کے لئے چیلنج ہے۔ ورلڈ بنک اور اقوام متحدہ کو بھارت کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔ بھارتی جارحیت چور مچائے شور کے مترادف ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ بھارت کو اسکی دہشت گردانہ کاروائیوں سے روکا جائے اور آبی جارحیت پر بھارت کے خلاف کاروائی کی جائے جو خطے میں امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

    بھارت کی جھوٹی مہم اور اسکی امریکہ کے نائب صدر کے دورے کے موقع پر ڈرامے اور ازخود بے گناہ سیاحوں کو نشانہ بنانے کا نوٹس لے۔ پہلگام واقعہ دھوکا ہے۔ پاکستان کا بھارتی شخصیات کو واپس کرنے اور بھارتی سفارت کاروں کی تعداد کم کرنے افواج پاکستان کو تیار رہنے اور واہگہ بارڈر بند کرنے، پاکستانی حدود کے حوالے سے فیصلہ بالکل درست ہے۔ کیونکہ بھارت کی جانب سے یہ سفاکانہ دہشت گردی ہر اعتبار سے انتہا پسند عمل ہے۔ اس سے تجارت ختم کرنے کا فیصلہ بھی درست ہے۔ پاکستان کا جرات مندانہ موقف پوری قوم کی آواز ہے، جس پر پوری قوم متحد ہے۔

    سندھ طاس معاہدہ:

    سندھ طاس منصوبہ (Indus Waters Treaty) بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960 میں طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ دراصل سندھ، جہلم اور چناب کے دریاؤں کے پانی کے استعمال کے بارے میں ہے اور اس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم اور استعمال کے تنازعات کو ختم کرنا تھا۔ بھارت کو جھیلوں کی تین بڑی نہروں (سندھ، جہلم اور چناب) میں صرف کچھ مخصوص حقوق دیے گئے، جبکہ پاکستان کو زیادہ تر پانی کے حقوق حاصل ہیں۔ اگرچہ اس وقت بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر بعض اوقات تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت نے متعدد بار سندھ طاس معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کی اور اس حوالے سے پاکستان نے بین الاقوامی عدالتوں میں شکایات بھی درج کرائی۔ ماہرین کا موقف ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرنے کا حق نہیں رکھتا البتہ پاکستان شملہ ایگریمنٹ سمیت دیگر معاہدے معطل کرنے کا حق رکھتا ہے اور چین برہماپتر کا پانی روکنے کے لئے بھارتی اقدام کو بطور جواز استعمال کر سکتا ہے۔

    دریائے سندھ کی کینالوں پر شدید بین الصوبائی تناو کا خاتمہ:

    علاوہ ازیں آج کل پاکستان میں دریائے سندھ سے نئے کینال نکالنے کا منصوبہ ایک سنگین بین الصوبائی تنازعے کی شکل اختیار کر گیا تھا، جس میں خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے درمیان اختلافات شدد اختیار کرچکے تھے، یہ تنازعہ نہ صرف آبی وسائل کے اصولوں کی منصفانہ تقسیم کو چیلنج کر رہا تھا بلکہ ماحولیاتی، زرعی اور آئینی پہلووں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا تھا۔

    تاریخی پس منظر:

    موجودہ تنازعہ: چولستان کینال منصوبہ

    سندھ کی تشویشات

    پانی کی قلت

    ماحولیاتی اثرات

    آئینی اور قانونی پہلو

    پنجاب کا مؤقف

    ماہرین کی آراء

    سیاسی اور سماجی ردعمل

    وفاقی حکومت کا کردار

    ماحولیاتی خطرات

    نئے کینالز کی تعمیر سے انڈس ڈیلٹا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کے مطابق، میٹھے پانی کی کمی سے ساحلی علاقوں میں سمندری پانی کا داخلہ بڑھ رہا ہے، جس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے اور مقامی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    دریائے سندھ سے کینال نکالنے کے تنازعے کا حل نکالنا پاکستان کی بقا، صوبائی ہم آہنگی اور زراعتی معیشت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مسئلے کا حل صرف جذباتی بیانات یا سیاسی بیانیے سے نہیں نکل سکتا، بلکہ ایک منصفانہ، آئینی اور سائنسی بنیادوں پر ممکن ہے۔ درج ذیل حل تجویز کیے جا سکتے ہیں:

    1- مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کا فوری اجلاس:

    اقدام: وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر CCI کا ہنگامی اجلاس طلب کرے۔

    تفصیل: تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دے کر اس مسئلے پر باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے۔ CCI پاکستان کا آئینی ادارہ ہے اور یہی پلیٹ فارم بین الصوبائی مسائل حل کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔

    2- 1991ء کے پانی کے معاہدے پر مکمل عملدرآمد

    اقدام: 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔

    تفصیل: معاہدے کے اصولوں کی ہر صورت میں پاسداری ہونی چاہیے اور IRSA کو غیر جانب دار بناتے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔

    3- ارسا (IRSA) میں صوبائی توازن اور شفافیت

    اقدام: IRSA کو خودمختار، غیر سیاسی اور شفاف ادارہ بنایا جائے۔

    تفصیل: IRSA میں تمام صوبوں کے مساوی اور بااختیار نمائندے ہونے چاہییں، تاکہ فیصلے کسی ایک صوبے کے فائدے میں نہ ہوں، بلکہ قومی مفاد میں ہوں۔

    4- ماحولیاتی اثرات کا جامع جائزہ:

    اقدام: کسی بھی نئے کینال منصوبے سے قبل ماحولیاتی اثرات کا جائزہ (EIA) لازمی قرار دیا جائے۔

    تفصیل: انڈس ڈیلٹا، ساحلی پٹی اور دریائی حیاتیات پر ممکنہ منفی اثرات کے پیش نظر ایسے منصوبے ماہرین کے معائنہ کے بعد ہی آگے بڑھائے جائیں۔

    5- پانی کے ضیاع کو روکنے اور موجودہ نظام کو بہتر بنانے پر زور:

    اقدام: پہلے سے موجود نہری نظام میں بہتری، ٹیکنالوجی کا استعمال اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔

    تفصیل: پاکستان میں تقریباً 40% پانی نقل و حمل کے دوران ضائع ہو جاتا ہے۔ اس ضیاع کو کم کرکے سب صوبوں کو کافی پانی مہیا کیا جا سکتا ہے۔

    6- متبادل ذرائع کا فروغ:

    اقدام: بارانی زراعت، واٹر ری سائیکلنگ، واٹر ہارویسٹنگ اور ڈرپ ایریگیشن جیسے جدید طریقے رائج کیے جائیں۔

    تفصیل: چولستان جیسے صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے سائنسی استعمال یا بارش کے پانی کو محفوظ بنانے جیسے حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

    7- قومی آبی پالیسی کی ازسرنو تشکیل:

    اقدام: پاکستان کی موجودہ آبی پالیسی کو دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق اپڈیٹ کیا جائے۔

    تفصیل: اس پالیسی میں آبی وسائل کا تحفظ، تقسیم، ماحولیاتی توازن اور آبی تنازعات کے حل کے جامع اصول شامل ہوں۔

    8- صوبوں کے درمیان اعتماد کی بحالی:

    اقدام: میڈیا، عوامی نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ذریعے بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔

    تفصیل: تمام صوبے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے کے بجائے ایک وفاقی اکائی کے طور پر مسئلے کو دیکھیں اور مشترکہ قومی مفاد کو ترجیح دیں۔

    اس تنازعے کا مستقل اور پائیدار حل صرف باہمی احترام، آئینی اصولوں، سائنسی بنیادوں اور شفاف ادارہ جاتی طریقہ کار سے ممکن ہے۔ اگر پاکستان کے تمام صوبے یکجا ہو کر مشترکہ فیصلے کریں تو نہ صرف یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، بلکہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملے گا۔

    لہذا اس وقت جب میں مضمون کی تکمیل کررہا ہوں، تازہ ترین اطلات کے مطابق شدید احتجاج اور تناو کے باعث وزیراعظم شہباز شریف نے نئی نہروں کی تعمیر کا کام رکواتے ہوئے منصوبے کو صوبوں کے باہمی اتفاق رائے سے مشروط کردیا، اسطرح نہروں کے ایشو پر اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پیداہونیوالا ڈیڈ لاک ختم ہوگیا، فیصلہ کیا گیا ہے کہ سی سی آئی کی باہمی افہام و تفہیم کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائیگی جب تک تمام صوبوں میں اتفاق رائے نہیں ہو جاتا وفاقی حکومت اس حوالے سے آگے نہیں بڑھے گی، صوبوں تحفظات دور کرنے، غذائی تحفظ کیلئے کمیٹی بنائی جائیگی، سی سی آئی کا اجلاس بلایا جائیگا، دونوں جماعتیں حکومتی پالیسی کی توثیق کریں گی۔

    وفاق تمام صوبائی حکومتوں کو زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے طویل المدتی متفقہ روڈ میپ تیار کرنے کیلئے شامل کر رہا ہے صوبوں کے پانی کے حقوق پانی کی تقسیم کے معاہدے 1991 اور واٹر پالیسی 2018 میں درج ہیں جن پر تمام سٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے ہے، لہذا صوبوں کے تحفظات کو دور کرنے اور پاکستان کی خوراک اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی، کمیٹی دو متفقہ دستاویزات کے مطابق پاکستان کی طویل مدتی زرعی ضروریات اور تمام صوبوں کے پانی کے استعمال کے حل تجویز کریگی، آئین کے تحت آبی وسائل کے تمام تنازعات کو اتفاق رائے سے حل کرنے اور کسی بھی صوبے کے خدشات کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان حل کرنے کا پابند بنایا گیا ہے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے نمائندے وفاقی حکومت کی پالیسی کی توثیق کریں گی اور کسی بھی تجویز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے متعلقہ ادارے کو واپس بھیج دی جائیں گی۔ اس طرح یہ دیرینہ مسئلہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔