پاکستان کی صحافتی تاریخ میں متعدد ایسے اخبارات اور جرائد گزرے ہیں جنہوں نے نہ صرف خبر رسانی کا فریضہ انجام دیا بلکہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی شعور کو پروان چڑھانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ ان میں سے ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھنے والا اخبار "خیبر میل" ہے، جو 1932ء میں پشاور سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والا پہلا انگریزی زبان کا مقامی اخبار تھا۔ اس اخبار نے نہ صرف ایک صدی کے قریب کا سفر طے کیا بلکہ کئی نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج بھی اپنی صحافتی روشنی سے قارئین کو منور کر رہا ہے۔ یہ مضمون خیبر میل کی تاریخ، اس کی بنیاد رکھنے والی شخصیت شیخ ثناء اللہ، اس کے ارتقاء، زوال اور دوبارہ آغاز کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالتا ہے۔
خیبر میل کی بنیاد رکھنے والے شیخ ثناء اللہ، صحافت کے افق پر ایک درخشندہ ستارے کی مانند ابھرے۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز لاہور کے معروف انگریزی اخبار "مسلم آؤٹ لک" میں سب ایڈیٹر کے طور پر ہوا۔ ان کا انداز تحریر، خبری تجزیہ اور حالات و واقعات پر ان کی گرفت اتنی پختہ تھی کہ جلد ہی وہ مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات کے لیے خصوصی نمائندے کے طور پر کام کرنے لگے۔ 1930ء میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں برطانوی فوج کے ہاتھوں نہتے مظاہرین کے قتلِ عام کی رپورٹنگ کے دوران انہوں نے اپنی بے باک صحافت کا مظاہرہ کیا۔ لکھنؤ سے شائع ہونے والے اخبار "پاینیر" کے لیے انہوں نے کورٹ مارشل کی کارروائیوں کی رپورٹنگ کی جو ان کے صحافتی کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ ان کی جرأت مندانہ صحافت نے انہیں ایک معتبر اور قابلِ اعتماد رپورٹر بنا دیا۔
1932ء میں شیخ ثناء اللہ نے پشاور سے خیبر میل کے نام سے ایک انگریزی اخبار کا اجرا کیا، جو اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) سے شائع ہونے والا پہلا انگریزی زبان کا اخبار تھا۔ اس اخبار نے جلد ہی مقامی اور قومی سطح پر مقبولیت حاصل کر لی۔ یہ اخبار انگریزی زبان میں ہونے کے باوجود مقامی مسائل، ثقافت، سیاست اور سماجی معاملات پر مبنی معیاری مواد فراہم کرتا رہا۔
اس وقت صحافت پر اکثر ہندوستانی یا برطانوی اخبارات کی اجارہ داری تھی، مگر خیبر میل نے مقامی صحافتی خلا کو پُر کیا۔ اس کی رپورٹنگ میں دیانت، تحقیق اور صحافتی غیر جانبداری جھلکتی تھی۔
خیبر میل کے اداریاتی بورڈ میں اس دور کے کئی نامور صحافی اور دانشور شامل رہے جنہوں نے اس اخبار کو فکری اور ادبی لحاظ سے ایک بلند مقام دیا۔ ان میں شیخ ذکاء اللہ، قلندر مومند، عسکر علی شاہ، مشوانی، ضیاء الدین احمد اور صابر حسین شامل تھے۔ ان شخصیات کی تحریریں اخبار کی پہچان بن گئیں۔ قلندر مومند جیسے اہلِ قلم نے قوم پرستی، ادبی تنقید اور علاقائی ثقافت کو اخباری کالموں میں زندہ رکھا۔
خیبر میل نے پاکستان کے بننے سے قبل اور بعد کے حالات میں ایک پل کا کردار ادا کیا۔ برطانوی سامراج کے خلاف عوامی جذبات کی ترجمانی، تحریکِ آزادی کی خبروں کی اشاعت، مقامی سیاست دانوں کے انٹرویوز اور بین الاقوامی معاملات پر گہرے تجزیے اس اخبار کی خاصیت رہے۔ 1947ء کے بعد خیبر میل نے نو تشکیل شدہ پاکستان کی ریاستی پالیسیوں، آئینی معاملات، خارجہ تعلقات اور معاشی ترقی پر مسلسل لکھا۔
اخبار میں شائع ہونے والی خبروں اور اداریوں کا لب و لہجہ ہمیشہ معتدل، حقیقت پسندانہ اور اصلاحی رہا۔ صحافت کے معیار اور خبر کی صداقت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا۔ یہی وہ اوصاف تھے جن کی وجہ سے خیبر میل کئی دہائیوں تک قارئین کا اعتماد حاصل کرتا رہا۔
1989ء میں، تقریباً 57 برس کی مسلسل اشاعت کے بعد، خیبر میل کی اشاعت بند کر دی گئی۔ اس بندش کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما تھیں۔ ایک طرف مالی مشکلات، اشتہارات کی کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات تھے، تو دوسری جانب قارئین کی دلچسپی میں کمی اور اخبارات کی فروخت میں نمایاں کمی بھی ایک بڑا چیلنج تھی۔
اس کے علاوہ اس دور میں پاکستانی حکومت کی جانب سے میڈیا پر سخت سنسرشپ عائد تھی، جو آزادانہ صحافت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئی۔ ایسے ماحول میں کئی اخبارات اور جرائد بند ہو گئے اور خیبر میل بھی ان میں شامل ہوگیا۔
کئی دہائیوں بعد، خیبر میل کے بانی شیخ ثناء اللہ کے پوتے اور شیخ عنایت اللہ کے بیٹے رضوان عنایت نے اس اخبار کو دوبارہ زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ رضوان عنایت کا صحافت سے لگاؤ خاندانی ورثے کا حصہ تھا، مگر انہوں نے اسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
اخبار کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر لانچ کیا گیا، جہاں قارئین دنیا بھر میں کہیں بھی صرف ایک کلک سے تازہ ترین خبریں پڑھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا، ویب سائٹ اور موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے خیبر میل نے نئی نسل سے اپنا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی۔
نئے دور میں خیبر میل کا فوکس اب بھی معیاری صحافت پر ہے۔ اس میں بین الاقوامی خبروں، تجزیاتی آرٹیکلز، ملکی سیاست، معیشت، تعلیم، صحت اور ثقافت پر تفصیلی رپورٹس شائع ہوتی ہیں۔ نوجوان لکھاریوں اور تجربہ کار صحافیوں کی ٹیم اخبار کے لیے مستقل مواد تیار کرتی ہے۔
اخبار نے مختلف مواقع پر خصوصی ایڈیشنز بھی شائع کیے ہیں جن میں یومِ آزادی، یومِ دفاع، تعلیمی اصلاحات، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کی حالت اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے موضوعات کو اجاگر کیا گیا۔
خیبر میل صرف ایک اخبار نہیں بلکہ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا جیتا جاگتا باب ہے۔ اس نے کئی نسلوں کو سچ، دیانت، حق گوئی اور تحقیق پر مبنی صحافت سے روشناس کرایا۔ اس اخبار نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو اور مقصد حق کی سربلندی ہو تو صحافت صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک تحریکی مشن بن سکتی ہے۔
اخبار نے علاقائی مسائل پر بھی خصوصی توجہ دی، جنہیں قومی میڈیا اکثر نظر انداز کر دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں، تعلیم و صحت کی صورت حال اور مقامی سیاست کو قومی تناظر میں پیش کرکے اس نے ان مسائل کو اجاگر کیا جن پر اکثر پردہ پڑا رہتا تھا۔
اگرچہ خیبر میل نے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی ہے، مگر آج کے ڈیجیٹل دور میں ہر اخبار کو فیک نیوز، سوشل میڈیا کی یلغار اور قارئین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مسابقتی ماحول جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، رضوان عنایت کی قیادت میں اخبار نے تحقیق، حقائق اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو اپنا شعار بنایا ہے۔
مزید برآں، خیبر میل نوجوان صحافیوں کی تربیت اور صحافتی اصولوں کی ترویج کے لیے مختلف ورکشاپس اور پروگرامز کا بھی انعقاد کر رہا ہے، جو اس کے وژن کو مزید تقویت دیتا ہے۔
خیبر میل کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ معیار، دیانت، استقامت اور عوامی خدمت کا جذبہ کسی بھی ادارے کو زندہ رکھتا ہے، چاہے وہ وقت کے کٹھن امتحان سے گزرے۔ یہ اخبار محض کاغذ پر چھپنے والی خبریں نہیں بلکہ ایک صحافتی تحریک، ایک فکری ورثہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
اس کا دوبارہ آغاز اس بات کی علامت ہے کہ اگر نیت اور ارادہ مضبوط ہو تو وقت کی گرد پڑی ہوئی سچائیوں کو پھر سے روشن کیا جا سکتا ہے۔ خیبر میل جیسے اخبارات پاکستان کی صحافتی روح کے امین ہیں، جن کی قدر و قیمت آنے والے وقت میں مزید واضح ہوگی۔
رضوان عنایت اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر گامزن ہیں اور انھوں نے اپنے بزرگوں کی اس صحافتی مشعل کو عہد جدید کے عین تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ازسرنو منور کرکے ملکی و بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر منوایا ہے نیز خیبر میل کی تاریخی، صحافتی اور سماجی اہمیت کو اجاگر کرکے اپنی خاندانی روایت میں نئی روح پھونکی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ یہ قدرے تفصیلی جائزہ قارئین کرام کو پاکستان کی صحافتی روایت میں خیر میل کے تاریخی، بے باک و لازوال کردار اور اس تاریخی سفر میں آنے والے نشیب و فراز کے تناظر میں رضوان عنایت کی جہد مسلسل، علمی و ادبی و صحافتی شخصیات، صحافتی خدمات، بندش، احیاء اور عہد جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور انداز سے دنیا بھر میں روشناس کرانے کی کامیاب کوششوں کا احاطہ کرنے میں کسی حد تک معاون ثابت ہوگا۔