Saturday, 13 September 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Aqwam e Muttahida Ke Saye Mein Shaitani Bisat, Insaf Kahan Hai?

    Aqwam e Muttahida Ke Saye Mein Shaitani Bisat, Insaf Kahan Hai?

    دنیا کی تاریخ ہمیشہ سے طاقت، اقتدار اور غلبے کی کشمکش سے عبارت رہی ہے۔ ہر دور میں چند طاقتور اقوام نے اپنے سیاسی، اقتصادی اور عسکری مفادات کی خاطر کمزور اقوام کو غلام بنانے، ان کے وسائل پر قبضہ جمانے، ان کی تہذیب و تمدن کو مسمار کرنے اور ان کے وجود کو مٹا دینے کی سعی کی۔ انسانی تاریخ میں جنگوں، فتنوں، معاہدات، سازشوں اور بغاوتوں کا جو جال بچھا ہے، وہ بظاہر کسی نظریے، کسی امن مشن یا کسی انسانی ہمدردی کے دعوے کے تحت پیش کیا جاتا ہے، مگر اس کے پس پردہ ہمیشہ طاقت کی ہوس، زمینوں کی بندر بانٹ اور مفادات کی سیاست چھپی ہوتی ہے۔

    اگر ہم حالیہ عالمی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی و عسکری شیطانی کھیل پہلے سے زیادہ منظم، مہلک اور عالمی سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر مشرقی یورپ، افریقہ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، کہیں بھی امن مکمل طور پر قائم نہیں۔ ہر خطہ کسی نہ کسی بحران، جنگ، سیاسی خلفشار یا معاشی بدحالی کا شکار ہے اور ان تمام حالات میں کچھ مخصوص طاقتیں، جو عالمی نظام پر قابض ہیں، اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے براہِ راست یا بالواسطہ مداخلت کرتی رہتی ہیں۔

    اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں، جب انسان چاند و مریخ پر پہنچ چکا ہے، زمین پر انسانیت کو شدید عدم تحفظ، جنگی خطرات، معاشی عدم مساوات اور سیاسی استحصال کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آزادی جیسے الفاظ صرف طاقتور قوموں کے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ جہاں ان کا مفاد ہو، وہاں جمہوریت کی بحالی کے نام پر حکومتیں گرا دی جاتی ہیں اور جہاں ان کی معیشت کو فائدہ ہو، وہاں بدترین آمریت کو بھی "مفاہمتی حکومت" قرار دے دیا جاتا ہے۔

    فلسطین کی موجودہ صورت حال اس شیطانی کھیل کی واضح مثال ہے۔ غزہ میں ہزاروں نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں اور معصوم شہریوں کی شہادت کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی اس امر کی غماز ہے کہ انسانیت اب ضمیر کے بجائے مفادات کی زبان بولتی ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے ادارے صرف رسمی قراردادیں منظور کرنے تک محدود ہو چکے ہیں، جب کہ بڑی طاقتیں اسرائیل کی کھلی جارحیت کو "دفاع کا حق" قرار دیتی ہیں۔ یہ کیسا دفاع ہے جس میں اسکول، ہسپتال، مسجدیں اور ریلیف کیمپ تباہ کیے جاتے ہیں؟ کیا معصوم بچوں کی لاشیں بھی اب عالمی سیاست کا ایندھن بن چکی ہیں؟

    یہ صرف فلسطین کی کہانی نہیں۔ شام کی زمین آج بھی خون آلود ہے۔ عراق، جو کبھی عرب دنیا کا علمی و تہذیبی مرکز تھا، اب جنگوں کے بعد زخموں سے چُور ہے۔ افغانستان بیس سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ایک تجربہ گاہ بن کر رہ گیا، جہاں پہلے القاعدہ، پھر طالبان، پھر داعش کے نام پر خون بہایا گیا۔ لاکھوں افغان جان سے گئے، مگر آج بھی وہاں امن کا نام و نشان نہیں۔ یمن، لیبیا، سوڈان جیسے مسلم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ ان تمام ممالک میں ایک مشترکہ نکتہ ہے: ہر جگہ عالمی طاقتوں نے مداخلت کی اور ہر جگہ ایک تباہ حال انسانیت نے ان کی قیمت چکائی۔

    روس اور یوکرین کی جنگ حالیہ برسوں کی سب سے بڑی جغرافیائی کشیدگی میں سے ایک ہے۔ اس جنگ میں بھی اصل فریق وہی طاقتیں ہیں جو پردے کے پیچھے سازشیں کرتی ہیں۔ یوکرین کو نیٹو کا رکن بنانے کا شوشہ، روس کو گھیرنے کی کوشش اور پھر جنگ کو ہوا دینا یہ سب امریکی اور مغربی مفادات کے لیے تھا۔ جنگ کے نتیجے میں یورپ مہنگائی، توانائی کے بحران اور لاکھوں مہاجرین کا سامنا کر رہا ہے، مگر امریکہ کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اسلحے کی فروخت، توانائی کی برآمدات اور جغرافیائی برتری کی خواہشات نے یوکرین کے معصوم عوام کو میدانِ جنگ بنا دیا۔

    ادھر چین کو اقتصادی طور پر روکنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی مسلسل تائیوان، ہانگ کانگ، جنوبی بحیرہ چین جیسے مسائل کو ہوا دے رہے ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت مغرب کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیانیہ سازی، پابندیاں، سفارتی مداخلت اور فوجی مشقوں کے ذریعے چین پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ یہی وہ شیطانی انداز ہے جو عالمی طاقتیں ہر اس ملک کے ساتھ اختیار کرتی ہیں جو ان کے معاشی یا سیاسی غلبے کو چیلنج کرنے کی کوشش کرے۔

    مسلم دنیا کی حالت خاص طور پر قابلِ افسوس ہے۔ او آئی سی جیسے ادارے بے اثر ہو چکے ہیں۔ پاکستان، ترکی، ایران، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک اندرونی سیاسی خلفشار، معاشی کمزوری اور بیرونی دباؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، مگر بدلے میں عدم استحکام، ایف اے ٹی ایف کی تلوار اور آئی ایم ایف کی غلامی ملی۔ ایران مسلسل پابندیوں، اسرائیلی دھمکیوں اور داخلی احتجاج کا سامنا کر رہا ہے۔ ترکی داخلی سیاسی تقسیم، شامی مہاجرین اور اقتصادی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ سعودی عرب اگرچہ اصلاحات کے راستے پر گامزن ہے، مگر اس کی علاقائی پالیسی واضح نہیں۔

    اس صورتحال میں یہ سوال نہایت اہم ہو جاتا ہے کہ یہ شیطانی کھیل کب، کہاں اور کیسے رکے گا؟ کیا اقوام متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، یا دیگر عالمی ادارے اس کھیل کو روکنے کے اہل ہیں؟ کیا عالمی ضمیر بیدار ہوگا؟ کیا دنیا کے عوام اپنی حکومتوں سے سوال کریں گے؟ یا یہ سب کھیل یونہی جاری رہے گا اور مظلوم قومیں اپنی نسلوں کے ساتھ مٹی میں دفن ہوتی رہیں گی؟ ان سوالات کے جواب پیچیدہ ضرور ہیں، مگر ناممکن نہیں۔

    اس کھیل کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے عالمی اداروں کو آزاد، بااختیار اور غیر جانب دار بنایا جائے۔ اقوام متحدہ کی ساخت میں اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ طاقتور ممالک کو ویٹو جیسے ہتھیار کے ذریعے دوسروں پر ظلم کرنے کی اجازت نہ ہو۔ اسلحے کی پیداوار اور تجارت پر عالمی پابندیاں عائد کی جائیں اور انسانی فلاح کو مرکز بنایا جائے۔ ترقی پذیر ممالک کو بیدار ہونا ہوگا۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، دفاع، سفارتکاری اور معیشت میں خود کفالت ہی واحد راستہ ہے۔ جب تک ہم اپنی بقا دوسروں کی مرضی سے وابستہ رکھیں گے، ہم ہمیشہ ان کے کھیل کا مہرہ بنے رہیں گے۔

    عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا ہوگا۔ میڈیا کا کردار مرکزی ہے۔ اگر صحافت ایمانداری سے سچ بولے، اگر تعلیمی ادارے صرف ڈگری نہیں بلکہ سوچنے کی صلاحیت پیدا کریں، اگر مذہبی رہنما امن، برداشت اور انسانیت کا درس دیں اور اگر سیاستدان محض اقتدار نہیں بلکہ خدمت کو مقصد بنائیں، تو دنیا کا چہرہ بدل سکتا ہے۔

    آج دنیا کو صرف اقتصادی و عسکری طاقت نہیں، بلکہ اخلاقی قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ قیادت جو مذہب، رنگ، نسل سے بالاتر ہو کر انسان کو انسان سمجھے، جو ظلم کو ظلم کہنے کی جرأت رکھے اور جو امن کو جنگ پر ترجیح دے۔ وہ قیادت جو اپنے مفادات سے زیادہ انسانیت کو اہمیت دے۔ جب تک ایسی قیادت پیدا نہیں ہوتی، تب تک یہ شیطانی کھیل جاری رہے گا کبھی اسرائیل کی صورت میں، کبھی نیٹو کی شکل میں اور کبھی معاشی اداروں کے نام پر۔

    لیکن یہ سچ بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہر اندھیرے کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ ہر فرعون کے مقابلے میں کوئی موسیٰ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ ہر ظالم نظام آخرکار اپنی عمر پوری کرتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بیداری، اتحاد اور اجتماعی قوت کو پہچانیں۔ اگر ہم تماشائی بنے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ لیکن اگر ہم ظلم کے خلاف آواز بنیں، چاہے وہ آواز کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، تو یہ دنیا ایک دن ضرور بدل سکتی ہے۔