Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Hussain Ahmed Paracha/
  3. Subhdam Koi Agar Bala e Baam Aaya To Kya

Subhdam Koi Agar Bala e Baam Aaya To Kya

مشکلات میں گھری کسی حکومت کے لئے اس سے بڑی کیا نعمت ہو گی کہ اپوزیشن مائل بہ تنقید نہیں مائل بہ تائید ہو۔ مگر اس کا کیا کیجیے کہ جب جناب وزیر اعظم کے اردگرد ایسی دانش اجتماعی پھیلی ہوئی ہو جس کا ایک ادنیٰ شاہکار ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے اس بیان میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے آپشنز ختم ہو گئے تو پھر لاک ڈائون ہو گا۔ اللہ نہ کرے کہ آپشنز ختم ہوں اور یہ مرحلہ آئے کہ ع

صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

وزیر اعظم نے اپوزیشن کے سینئر رہنمائوں کی کوئی کانفرنس نہیں بلائی نہ ہی ان سے تعاون کی کوئی خصوصی اپیل کی، مگر اپنے طور پر اپوزیشن کی سبھی جماعتوں نے دست تعاون بڑھایا ہے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیش قدمی کی اور کہا کہ ان حالات میں حکومت پر تنقید نہیں بلکہ وفاق کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے۔ ایوان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ(ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بھی لندن سے واپس آ گئے ہیں۔ انہوں نے بھی حکومت کے ساتھ عملی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر آسمانی آفت یا قومی مصیبت کے موقع پر قوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ کبھی مہاجرین کی خدمت کرتی دکھائی دیتی ہے، کبھی سابق مشرقی پاکستان میں طوفانوں میں گھرے ہوئے بنگالی بھائیوں کی مدد کرتی نظر آتی ہے، کبھی زلزلہ زدگان تک خوراک اور امدادی سامان پہنچاتی، ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتی اور ان کے منہدم گھروں کی تعمیر نو میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ اب سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں ایک بار پھر جماعت اسلامی اپنی روایات کے مطابق کرونا کی وبا سے تحفظ کے لئے کمر بستہ ہو چکی ہے۔ اسی طرح آج کی عملی اپوزیشن کے متحرک رہنما مولانا فضل الرحمن نے اپنے رضا کاروں کو متحرک کرتے ہوئے حکومت کو اپنے بھر پور تعاون کی پیشکش کی ہے۔

پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی ایسی کوئی مشکل سامنے آتی ہے تو ساری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ بعض قومی نوعیت کی مشکلات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا مقابلہ صرف قومی یگانگت اور یکجہتی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ جب ستمبر 1965ء میں ہمارے دشمن بھارت نے بغیر کسی اعلان کے لاہور پر حملہ کر دیا اور بھارتی جنرل نے کہا کہ لاہور پر قبضہ محض چند گھنٹوں کی بات ہے تب اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے ایک طرف نام لے کر دشمن کو للکارا، تو دوسری طرف فی الفور سارے سیاست دانوں کی میٹنگ بلائی۔ جن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، نوابزادہ نصراللہ خان، میاں ممتاز دولتانہ، جناب ولی خان جیسی قد آور سیاسی شخصیات شامل تھیں۔ جناب وزیر اعظم کا کہنا بجا کہ اگر مکمل لاک ڈائون کیا جاتا ہے تو 25فیصد دیہاڑی دار مزدور اور ٹھیلے والے بھوک سے مر جائیں گے۔ جناب عمران خان اس غیر معمولی وبا سے تحفظ کے لئے اپنے تمام تر تحفظات و اختلافات کو خیر باد کہتے ہوئے سب کو اکٹھا کریں۔ تمام تر احتیاط ملحوظ خاطر رکھیں اور قومی کانفرنس میں اجتماعی فیصلے کریں۔ اگر سب سیاستدانوں اور کرونا وائرس کے ماہرین کی رائے میں لاک ڈائون ضروری ہو تو پھر ہرگز تاخیر نہ کی جائے۔ اس سے پہلے تفتان کے بارڈر پر ایران سے آنے والے پاکستانی زائرین کے سلسلے میں شدید غفلت سے کام لیا گیا اور بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر سکریننگ کا کوئی انتظام نہ کر کے کرونا مریضوں کو ملک میں داخل ہونے دیاگیا۔ اس سے شدید نقصان ہوا۔ ایسے طرز عمل کا اب اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ قوم کو حوصلہ دینے کے لئے یقینا نیک تمنائوں اور قوم پر مکمل اعتماد کا اظہار ضروری ہے مگر کنفیوژن اور عملی اقدام کا فقدان بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اٹلی اور ایران میں اسی لئے انسانی جانوں کا بہت ضیاع ہوا کیونکہ دونوں حکومتوں نے آغاز میں غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس وقت تک دنیا میں 14611کرونا کے مریض لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں سے چین میں 3265جبکہ اٹلی میں 5476اور ایران میں 1685اموات ہوئی ہیں۔ دیگر ممالک جن میں امریکہ اور یورپ شامل ہیں وہاں نسبتاً کم اموات ہوئیں۔ یہ اللہ کا فضل خاص ہے کہ ہمارے غیر محتاط رویے کے باوجود اس وقت تک پاکستان میں صرف 5اموات ہوئی ہیں جبکہ مشتبہ مریضوں کی تعداد 5650ہے جو بہت تشویشناک ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ساری دنیا کو ہدایت کی ہے وہ چین کے ماڈل کی پیروی کریں اور کرونا وائرس سے نجات پائیں۔ چین کا ماڈل یہ تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے وبا پھوٹنے کے مرکز ایک کروڑ دس لاکھ والے شہر ووہان کو لاک ڈائون کیا اور ساتھ ہی سارے ملک کے لوگوں کو مکمل حفاظتی تدابیر کا پابند بنایا۔ اس پالیسی کی بدولت آج چین میں کرونا کا کوئی مریض سامنے نہیں آ رہا۔

اب آئیے وزیر اعظم کے اہم ترین خدشے کی طرف۔ پنجاب سمیت سارے ملک میں لاک ڈائون سے دیہاڑی دار محنت کش تو بھوک کے ہاتھوں مر جائیں گے۔ میں نے پیر کی صبح الخدمت کے سینئر نائب صدر سید احسان اللہ وقاص اور اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ اکثر حفاظتی اقدامات کی خاطر لاک ڈائون کی طرف جانا پڑے تو کیا آپ بے روزگار ہونے والوں کو سنبھال لیں گے۔ دونوں حضرات نے حق الیقین سے کام لیتے ہوئے بتایا کہ انشاء اللہ خدا کے فضل اور اہل خیر کے بھر پور تعاون کی بنا پر وزیر اعظم اور قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کسی بھی پاکستانی کو بھوکا نہیں سونے دیں گے۔ اب جناب وزیر اعظم بلا تاخیر تمام سیاست دانوں اور الخدمت و اخوت جیسی فلاحی تنظیموں کے سربراہوں کی براہ راست یا ویڈیو کانفرنس بلائیں اور کرونا کے مقابلے کے لئے متفقہ عملی پلان قوم کے سامنے پیش کریں۔ اس سے قبل کہ بہت تاخیر ہو جائے۔ اللہ کبھی وہ وقت نہ لائے کہ جب ہمیں علامہ اقبال کے الفاظ میں یہ کہنا پڑے کہ:

آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ

صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا