Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Sadar e Mohtaram Aur Israel

Sadar e Mohtaram Aur Israel

ایک ایسے وقت میں جب فلسطینیوں پر قیامت ٹوٹی پڑی ہے، صدر محترم جناب عارف علوی نے پاکستانی ریاست کے دیرینہ موقف کو پامال کرتے ہوئے ایک ریاستی حل، کی بات کر دی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ عارف علوی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے اور اسی لیے دفتر خارجہ نے صدر کے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی او آئی سی اور اقوام متحدہ کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے کہ عارف علوی کے بیان سے پاکستانی حکومت کا کوئی تعلق نہیں اور یہ ہماری پالیسی نہیں۔

غور فرمائیے کیا اس سے مضحکہ خیز صورت کوئی ہو سکتی ہے کہ صدر محترم کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے حکومت کو اقوام متحدہ اور او آئی سی کو بتاناپڑے کہ ریاست کے سربراہ نے جس موقف کا ااظہار فرمایا ہے ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے نزدیک البتہ یہ رویہ صدر کا غیر سنجیدہ رویہ نہیں ہے، نہ ہی یہ بات ان کے منہ سے بھولپن میں نکلی ہے۔ یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین اور تشویشناک لگتاہے اور اس بیان کے پیچھے یقیناکچھ عوامل ہوں گے ورنہ صدر کے منصب پر بیٹھاشخص اتنا سادہ اور معصوم نہیں ہوتا کہ اسے اپنے بیان کے معنی اور مضمرات کا علم نہ ہو۔

پہلے اس بیان کو سمجھ لیتے ہیں کہ اس بظاہر معصومانہ سے ارشاد میں کیا قیامت خیزی چھپی ہے۔ صدر صاحب فرماتے ہیں کہ" اگر اسرائیل کو دو ریاستی حل پسند نہیں تو پھر ایک ریاستی حل نکال لینا چاہیے جہاں سب مل کر رہیں"۔ یعنی پاکستان کا صدر اسرائیل کی پسند کا اتنا خیال رکھ رہا ہے کہ وہ اس کے لیے فلسطینیوں کے اس حق سے بھی دست بردار ہونے کو تیار ہے جو حق اقوام متحدہ نے اسی قرارداد میں فلسطینیوں کو دے رکھا ہے جس قرارداد میں یہودی ریاست بنانے کی بات کی گئی ہے۔

عارف علوی کی مجوزہ " ایک ریاست" کون سی ہوگی؟ اگر یہ فلسطین ہو تو پھر تو اچھی بات ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ فلسطین تو نہیں ہوگی، یہ اسرائیل ہی ہوگی۔ کیونکہ اسرائیل اقوام متحدہ کا رکن ہے جب کہ فلسطین کی ریاست نہ ابھی خود مختار ہو سکی ہے نہ ہی وہ اقوام متحدہ کی رکن بن سکی ہے۔ پھر چونکہ یہ تجویز اسرائیل کی خواہشات کو مدنظر رکھ کر دی گئی ہے کہ اگر اسرائیل کو دو ریاستی حل پسند نہ ہو تو ایک ریاستی حل کی طرف آ جائیں تو ظاہر ہے یہ ایک ریاستی حل یہی ہو سکتا ہے کہ سب فلسطینی اچھے بچوں کی طرح اسرائیل کے شہری بن جائیں کیونکہ اسرائیل کو دوسرا حل قبول نہیں اور تحریک انصاف کے عارف علوی بھی یہی چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ " اعزاز" بھی تحریک انصاف ہی کی ایک خاتون پارلیمنٹیرین کو حاصل ہے کہ اس نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر اسرائیل نواز ی پر قوم کو لیکچر دیا تھا۔ اعزاز تو اس قافلہ انقلاب کے پاس اور بھی ہیں لیکن صدر کے منصب پر بیٹھے شخص کو اسرائیل کی ترجمانی زیب نہیں دیتی۔ یہ سوال ایک عرصے سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی پالیسی کو کون سی قوت سٹریٹجائز کر رہی ہے؟ میرے جیسا طالب علم تو تسلسل سے لکھ رہا ہے کہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ جن غیر ملکی لابنگ فرمز کی خدمات انہوں نے حاصل کر رکھی ہیں و ہ صرف ان کی لابنگ کے فرائض انجام دیتی ہیں یا و ہ اس کی پالیسی بھی سٹریٹجائز کر رہی ہیں؟ عارف علوی کے حالیہ بیان کے بعد بھی اگر ریاست اس طرف توجہ نہیں دیتی تو یہ ایک غیر معمولی غفلت ہوگی۔

ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا حق فلسطینیوں کا آفاقی حق ہے۔ انٹر نیشنل لا کے مطابق پوری دنیا مل کر بھی یہ حق نہیں چھین سکتی۔ اقوام متحدہ نے بھی اس حق کو تسلیم کر رکھا ہے اور تکرار کے ساتھ آج تک اقوام متحدہ اس حق کودہراتی آئی ہے۔ اس آفاقی حق کی نفی کی تجویز اگر صدر پاکستان کی طرف سے آ رہی ہو تو یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے۔

اس حق کی نفی کرنے کی دلیل بھی دیکھیے کہ کیا دی جا رہی ہے؟ یہی کہ اگر اسرائیل دو ریاستی حل کو نہ مانے تو ایک ریاستی حل کی طرف بڑھا جائے۔ اور سارے فلسطینی اسرائیل ہی کے شہری بن جائیں۔ اسرائیل نہ ہوا، سسرائیل ہوگیا۔ اتنی خود سپردگی اور اتنی محبت اوراتنی وارفتگی اگر کسی نے سسرائیل، معاف کیجیے، اسرائیل کے ساتھ رکھنی ہے تو وہ ضرور رکھے لیکن پھر اسے صدر پاکستان کا منصب چھوڑ دینا چاہے۔

دلیل پر غور کیجیے: اگر اسرائیل کو پسند اور قبول نہ ہو۔ عارف علوی سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ ریاست پاکستان کے سربرا ہ کے نزدیک کسی معاملے میں اسرائیل کی پسند کو یہ حتمی حیثیت کب سے ملی ہے؟ ریاست پاکستان کے سربراہ کے لئے معاملات کو حل کرنے کا یہ پیمانہ کب سے ہوگیا کہ وہ کام کر لیا جائے جو اسرائیل کے لیے قابل قبول ہو۔ اور جو اسرائیل کے لیے قابل قبول نہ ہو اسے چھوڑ دیا جائے؟

فلسطین کے بارے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا معمار کوئی اور نہیں، خود قائد اعظم ہیں۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کے مقدمے کی ابتدائی صورت گری کرنے والا بھی کوئی اور نہیں، پاکستان تھا۔ یہ کام براہ راست قائد اعظم کی ہدایت پر ہوا تھا۔ محترم عارف علوی کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ قائد اعظم کی پالیسی سے انحراف کریں۔ سسرائیل اور اسرائیل سے کسی کو بہت محبت ہے تو یہ محبت ریاست کی پالیسی نہیں بن سکتی۔ نہ ہی کسی سسرائیلسٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ذاتی پالیسی کو ریاستی پالیسی کا درجہ دینے کی کوشش کرے۔

اسرائیلسٹ اور سسرائیلسٹ، دنیا کو اس اصول سے نہیں ہانک سکتے کہ فلسطینیوں کی ریاست کے حق کو چونکہ اسرائیل قبول نہیں کرتا تو سسرائیل کی محبت میں فلسطینی اس حق سے دست بردار ہو جائیں اور اسرائیل کے شہری بن کر زندگی بسر کرنا شروع کر دیں۔

ہر ریاست کی ایک خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔ ریاست کا کوئی بھی عہدیدار ہو وہ امور خارجہ پر گفتگو کرتے وقت اپنی ریاستی پالیسی کو مدنظر رکھتا ہے۔ عارف علوی صدر پاکستان ہیں، سوال یہ ہے انہوں نے اس موقف کے اظہار سے پہلے اپنی وزارت خارجہ سے مشاورت کرنا کیوں گوارا نہیں کی؟ کیا یہ رویہ صدر مملکت کے شایان شان ہے؟

یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ یہ غلطی تھی یا یہ اہتمام تھا اور جان بوجھ کر ایسا کیا گیا؟ بہر حال جو بھی وجہ رہی ہو یہ ایک پریشان کن رویہ ہے اور جناب رضا ربانی نے بالکل درست مطالبہ کیا ہے کہ عارف علوی صدر مملکت کے منصب سے مستعفی ہو جائیں۔ وزیر خارجہ نے بھی درست طور پر رضا ربانی کے اس مطالبے کی تائید کی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں ہر چیز کوبازیچہ اطفال بنائے رکھا اور جو کسر باقی رہ گئی تھی و ہ صدر محترم پوری کررہے ہیں۔

داخلی امور میں تو یہ ادائیں چل جاتی ہیں، امور خارجہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔