Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. March Ya Karkardagi?

March Ya Karkardagi?

تحریک انصاف نے اسلام آباد میں اجتماع کی درخواست دی جو 35 شرائط کے ساتھ منظورکر لی گئی تو تحریک انصاف نے اسلام آباد کی بجائے اپنی حکومت سے راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر اجتماع کی اجازت طلب کر لی۔ پنجاب حکومت نے بھی اجازت تو دے دی لیکن شرائط 35 سے بڑھا کر 56 کر دیں۔

ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے مطابق یہ اجازت صرف ایک روز کے لیے ہے اور 26 نومبر کی رات ہی جلسہ گاہ خالی کرنا ہوگی۔ لائوڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت ہوگی لیکن مخصوص اوقات میں۔ مذہبی جذبات ابھارنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کسی گروہ کے خلاف بات نہیں کی جائے گی۔ اسلحہ کی نمائش نہیں کی جائے گی اور عدلیہ اور اداروں کے خلاف بات کی ممانعت ہوگی۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کے اس جلسے پر یہ شرائط پنجاب حکومت نے عائد کی ہیں کیونکہ پچھلی بار انہوں نے جس طرح اچانک سڑکیں بند کر کے لوگوں کو تکلیف سے دوچار کیا تھا، اس پر ہائی کورٹ نے نوٹس لے لیا تھا اور اب اس طرح کا تجاہل عارفانہ ضلعی انتظامیہ کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی جماعت عین سڑک پر آ کر بیٹھ جائے اور حکومتی مشینری منہ دوسری طرف کر لے۔

ان شرائط کے ساتھ اب تحریک انصاف لانگ مارچ لے آئے یا فرلانگ مارچ، زمینی حقیقتیں نہیں بدل سکتیں۔ کہاں طنطنے کا یہ عالم کہ سیدھا امریکہ سے متھا لگا لیا اور کہاں اب یہ نوبت آ پہنچی ہے کہ بند گلی میں داخل ہونے کے بعد عملا اب کسی فیس سیونگ کی تلاش ہے۔ سیاسی جماعت جب ہمہ وقت احتجاج پر مائل ہو جائے اور اپنی توانائیاں اوروسائل لایعنی مہم جوئی میں جھونک دے تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے جو اس وقت تحریک انصاف کو در پیش ہے۔

سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر جب اس معاملے کو دیکھا جائے تو ایک ہی بات سمجھ میں آ تی ہے کہ یہ ہیجان اپنی کارکردگی سے توجہ ہٹانے کی ایک شعوری کوشش تھی۔ امریکی سازش سے لے کر آرمی چیف کی تعیناتی تک جو بھی بیانیہ اختیار کیا گیا، نوجوان اور جذباتی ووٹر کو ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے اپنایا گیا تا کہ کارکردگی زیر بحث نہ آئے۔ یہ سوال نہ اٹھے کہ دور حکومت میں تحریک انصاف نے کیا کام کیا بلکہ ایسے تمام سوالات جذبات کے سونامی میں غرق ہو جائیں۔

یہ مقصد تو شاید کسی حد تک حاصل کر لیا گیا ہو لیکن اس کی قیمت کا حجم شاید اس مقصد سے زیادہ ہو چکا۔ حالات جیسے جیسے معمول کی طرف بڑھیں گے، کارکردگی زیر بحث آنی ہی آنی ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں۔ ایک نہ ایک دن سوال اٹھے گا کہ عالی جاہ کارکردگی کیا ہے؟

سپریم کورٹ میں اگلے روز اسی سوال کی بازگشت سنائی دی جب پولیس کے معاملات پر سماعت ہوئی۔ جناب چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے جب پنجاب میں گزشتہ چار سالوں کے دوران پولیس کے شعبے میں کیے جانے والے تبادلوں کی تفصیلات پیش کی گئیں تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی پی او کی اوسط مدت صرف پانچ ماہ رہی۔ چیف جسٹس ہی کے ریمارکس سے یہ حقیقت بھی قوم تک پہنچی کہ پنجاب میں گزشتہ چار سالوں میں 268 ڈی پی اوز کے تبادلے کیے گئے۔

اس سماعت کی جو رپورٹنگ اخبارات میں ہو چکی، اس کے مطابق پنجاب کے 8 آئی جیز کو 7 جون 2018 سے 29 اگست 2022 تک تعینات کیا گیا، جس کی اوسط تقرر کی مدت 6 ماہ 25 روز بنتی ہے، اسی طرح حکومت نے 6 ماہ 56 روز کی اوسط مدت کے لیے لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسران کو تعینات کیا۔

عالم یہ ہے کہ ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے اس دورانیے میں راولپنڈی میں 7 آر پی اوز رہے۔ ان کی اوسط پوسٹنگ مدت صرف 6 ماہ 14 روز رہی۔ یعنی ہر سال میں دو آر پی اوز۔

تحریک انصاف کے اس دور اقتدار میں گوجرانوالہ میں کل 8 آر پی اوز نے کام کیا۔ ان کی اوسط مدت 5ماہ 2 روز۔ یعنی ایک سال سے بھی کم مدت میں تیسرا آر پی او آ چکا ہوتا تھا۔

یہی صورت حال باقی شہروں میں بھی رہی۔ ملتان کے 6 آر پی اوز کی اوسط مدت 7ماہ 33 روز، شیخوپورہ کے 9 آر پی اوز کی اوسط مدت 4 ماہ 56 روز، ساہیوال کے 6 آر پی اوز کی مدت ملازمت 7ماہ 33 روزرہی۔

سرگودھا میں تحریک انصاف کے دور اقتدار میں 7 آر پی اوآئے۔ یعنی اوسطا ہر 6 ماہ 16 روز کے بعد ایک نیا آر پی او۔ بہاولپور میں اس دوران 6 آر پی او آئے یعنی ان کی ا وسط مدت 7 ماہ 33 روز بنتی ہے۔ ڈی جی خان میں پانچ آر پی او اس دوران آ ئے اور ان کی اوسط مدت 9 ماہ بنتی ہے۔

یعنی ان میں سے کوئی بھی کسی بھی ایک جگہ پر ایک سال بھی پورا نہیں کر سکا اور اس کا تبادلہ کر دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں پولیس کے ساتھ یہ تماشا کیا گیا کہ اس میں ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ کا اوسط دورانیہ 3 رہا۔ یعنی ہر تھانے میں اوسطا ہر سال میں چار ایس ایچ او تشریف لاتے اور پھر لے جاتے رہے۔

سپریم کورٹ نے اب تمام صوبوں سے یہ ریکارڈ منگوا لیا ہے۔ ریکارڈ سامنے آنے پر معلوم ہوگا کہ کہاں کہاں کیا صورت حال رہی۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کے تبادلے یوں کرکٹ کے اوورز کی طرح ہوتے رہیں اور ایس ایچ او ٹی ٹوینٹی کے بلے بازوں کی طرح آتے اور جاتے رہیں تو کیا پولیس کانظام درست ہو سکتاہے؟

یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ پولیس میں اس پیمانے پر آئے روزتبادلے کیااعلائے کلمۃ الحق، کے لیے ہوتے رہے یا وہ ساری کہانیاں سچی ہیں جو ان تبادلوں کے حوالے سے بیان کی جاتی رہی ہیں اور ہمارے قومی سینہ گزٹ کا اہم حصہ قرار پا چکی ہیں؟

دعوے تو یہ تھے کہ ہم تحریک انصاف ہیں اور ہم پولیس کا نظام درست کر دیں گے لیکن عملا یہ صورت حال ہے کہ تبادلوں کے سوا شاید ہی کچھ کیا گیا ہو۔ کیا عجب کہ ان تبادلوں پر مزیدتحقیقات ہوں تو معلوم ہو کہ یہ تو نیب کا مقدمہ بنتا ہے کہ تبادلے کیسے اور کیوں ہوتے رہے۔

اس وقت بھی عمران خان کے سیاسی بیانیے کا اہم حصہ نظام قانون و انصاف سے متعلقہ اقوال زریں ہیں۔ وہ مغرب کی مثالیں دے دے کر لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ہم پیچھے کیوں رہ گئے اور دنیا آگے کیسے نکل گئی۔ راز کی یہ بات بھی اگر وہ عثمان بزدار سے پوچھ کر بتا دیں کہ یہ تھوک کے حساب سے پولیس افسران کے تبادلوں کے پیچھے کون سا راز کون سی حکمت اور کون سا اصول کارفرما تھا تو عین نوازش ہوگی۔