Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kya Urdu Mein Css Nahi Ho Sakta?

Kya Urdu Mein Css Nahi Ho Sakta?

سی ایس ایس کا ایک پرچہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ یہ اصل میں فکری افلاس کا ایک شاہکار ہے۔ سماج کو احساس کمتری اور مرعوبیت نے جکڑ نہ رکھا ہوتا تو اس پرچے میں پنہاں فکری افلاس پر سنجیدہ گفتگو شروع ہو چکی ہوتی۔ لیکن ہمارے "مقامی جنٹل مین" چند دنوں سے اقوال ز ریں پر مشتمل اس دستاویز جہالت پر یوں سخن آرا ہیں کہ گویا سماج پر کسی نولود آفاقی صداقت نے ظہور کیا ہے۔ لارڈ میکالے کی تیار کردہ اس فکری اقلیت کی اچھل کود دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کیا سی ایس ایس کا امتحان اردو میں نہیں ہو سکتا؟ کیا یہ گواراکیا جانا چاہیے کہ محض ایک زبان کی وجہ سے ملک میں طبقاتی تقسیم پیدا کر دی جائے؟ یہ رد عمل کی کیفیت میں جنم لینے والا سوال نہیں، یہ پوری شعوری کیفیت میں اٹھایا گیا سوال ہے جس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

زبان کیا ہے؟ محض ابلاغ کا ذریعہ۔ جن دنوں میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کر رہا تھا، میرا بھی یہی خیال تھا کہ اس زبان جیسی تو کوئی زبان ہی نہیں۔ یہ غلط فہمی مگر ہمارے اساتذہ ہی نے دور کر دی اور اچھی طرح سے سمجھا دیا کہ زبان ابلاغ کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ زبان سیکھیے اور پڑھیے مگر غیر ضروری مرعوبیت کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔

انگریزی آنی چاہیے، یہ ضروری ہے لیکن اس کا استعمال بھی اتنا ہی ہونا چاہیے جتنی یہ ضروری ہے۔ محض انگریزی زبان پر عبور ہوناقابلیت کا معیار بنا دینا ایک بیمار نفسیات ہے اس سے نکلنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز افسر شاہی سے ہی ہونا چاہیے جو آج بھی ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کے اصولوں کو آخری آفاقی صداقت سمجھ کر گلے سے لگائے ہوئے ہے۔

پاکستان کے اہم ترین مناصب پر فائز رہنے والوں سے کبھی ملاقات ہوتی ہے اور جب وہ ایک شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر فرماتے ہیں کہ آصف صاحب ہماری اردو اچھی نہیں تو گھن آنے لگتی ہے۔ یہ جملہ قسم کی افسر شاہی اردو نہ آنے کا یہ اعتراف بظاہر تو ایک کمزوری کے طور پر کر رہی ہوتی ہے لیکن ا یسا کرتے وقت ان کی آنکھیں احساس تفاخر سے جگ مگ کر رہی ہوتی ہیں کہ ہم روئے زمین پر افضل لوگ ہیں اور ہمیں عام اردو میڈیم پاکستانی جیسا نہ سمجھا جائے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو تمام زبانیں متروک قرار دیتے ہوئے علم و فضیلت کا معیار صرف انگریزی کو قرار دے دیا۔ نظام تعلیم اور نظام قانون ہر دو کے خالق لارڈ میکالے تھے۔ لارڈ صاحب کی فکری جہالت اور تکبر کا یہ عالم تھا کہ ان کا دعوی تھا کہ عربی، اردو، فارسی اور دیگر تمام زبانوں میں آج تک جو لکھا گیا ہے اس کی حیثیت انگریزی زبان کی کسی لائبریری کے ایک شیلف میں رکھی چند کتابوں سے بھی کم ہے۔

میکالے نے لکھا کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں تمام کار آمد علوم کا ترجمہ انگریزی میں کیا جا چکا ہے اور اب انگریزی کے سوا ہر زبان فرسودہ ہے۔ یہ دعوی جہالت کے سواکچھ نہیں تھا۔ کوئی زبان برتر نہیں ہوتی، نہ ہی کوئی زبان کم تر ہوتی ہے۔ یہ سب زبانیں ایک دوسرے کی معاون ہوتی ہیں اور انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہوتی ہیں۔ خود انگریزی کی ترقی میں دیگر زبانوں کا بڑا کردار ہے۔

مسلمانوں کے فکری کام کا اور ان کے ہوئے یونانی تراجم کا لاطینی میں ترجمہ ہوا اور یہ ترجمہ جب یورپ میں پڑھا گیا تو یہ یورپ کی نشاہ ثانیہ قرار پائی۔ یورپ نے ایسی فکری بد دیانتی کی کہ تراجم کرتے وقت بعض نمایاں اہل علم نے مسلمانوں کا کام اپنے نام سے شائع کر دیا۔ اب یہ واردات چھپی نہیں رہی اور ساری دنیا کو معلوم ہو چکا ہے۔

فلکیات کے سب سے بڑے مغربی ماہر نکولس کوپر نیکوس کی تحقیق، اب معلوم ہو چکا ہے کہ اصل میں جابر بن سنان البتانی کی تحقیق ہے۔ کوپر نیکوس کی ایک اور تحقیق نصیر الدین طوسی کا کام تھا۔ چنانچہ اب اسے طوسی سے منسوب کرتے ہوئےTusi Couple کہتے ہیں۔ کوپر نیکوس نے ریاضی کے جو اصول وضع کیے یہ اصل میں موید الدین اردی العامری کی تحقیق تھی۔ چاند کی حرکیات کا سارا کام یورپ کے اس سب سے بڑے سائنسدان نے ابو الحسن علاوالدین(ابن الشاطر) کا چوری کیا تھا۔

ریاضی کے اصول فیبو ناچی نے خوارزی کے چوری کیے تھے۔ نکولاوس کی کتاب نور الدین بطروجی کا سرقہ نکلی۔ رائمنڈ لولوس کی ایک یا دو نہیں پوری بیس کتابیں مسلمانوں کی کتابوں کا سرقہ نکلیں۔ میگنس البرٹس نے ابن رشد پر ہاتھ صاف کیا۔ اس ساری علمی بد دیانتی کے بعد دعوی یہ کیا گیاکہ ہمارا ایک شیلف باقی تمام زبانوں کی تمام کتابوں پر بھاری ہے۔

ایسٹ انڈیاکے دور میں جو مقامی جنٹل مین تیار کیے گئے، انہی کو 1858 کے بعد دھیرے دھیرے ملکہ وکٹوریہ کی افسر شاہی میں شامل کیا گیا۔ یہ افسر شاہی فکری طور پر اس بات کی قائل تھی کہ انگریزی زبان جیسی زبان کوئی نہیں، انگریزی قانون جیسا قانون کوئی نہیں اور انگریزی تہذیب کے ہم پلہ کوئی تہذیب نہیں۔ ان میں سے کسی کی والدہ محترمہ کا بچپن شیکسپیئر کی نانی اماں کے ساتھ نہیں گزرا تھا لیکن یہ اردو میں بات کرنا آج بھی شرف انسانی کی توہین سمجھتے ہیں۔ (یہ الگ بات کہ انگریزی انہیں آتی نہیں اور یہ مقامی نوعیت کے ا ینگلو وائو معدولہ بنے پھرتے ہیں)۔

جہاں ضروری ہو انگریزی بولنی چاہیے لیکن کیا انگریزی کو ایک غیر ضروری بوجھ کی صورت معاشرے کی کمر پر لاد دینا چاہیے؟ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر سبزی فروشوں اور تنور والوں کو انگریزی زبان میں حکم نامے جاری کر رہاہو؟ کیا یہ کام اردو میں نہیں ہو سکتا؟

زبان کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم پیدا کرنا تو نہ صرف جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں ایک سنگین جرم بھی ہے۔ معاشرے میں شرح خواندگی کیا ہے؟ قریب نصف آبادی نا خواندہ ہے۔ اس معاشرے میں سی ایس ایس کا امتحان اردو میں کیوں نہیں لیا جا سکتا؟ کیا وہ سب جاہل ہیں جنہیں انگریزی نہیں آتی؟ آئین کی رو سے قومی زبان اگر اردو میں ہے تو امتحان اردو میں کیوں نہیں لیا جا سکتا؟ ایک اجنبی زبان پر اصرار کیوں؟

یہ اصل میں ایک بندوبست ہے کہ افسر شاہی میں ایک خاص طبقہ مسلط رہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جسے نو آبادیاتی دور میں مقامی جنٹل مین، کہا جاتا تھا اور جس کے بارے میں لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہمیں ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا ہے جو رنگ نسل اور خون کے اعتبار سے تو مقامی ہولیکن جو سوچ، فکر اور ذوق کے اعتبار سے انگریز ہو۔ یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کاگماشتہ ہو۔ (گماشتہ گالی نہیں ہے، اس دور کی دستاویز کے مطابق یہ کارندہ خاص کاباقاعدہ منصب تھا)۔

زبان کی بنیاد پر ہم نے جو بالادست طبقہ پیدا کیا ہے اس کی کارکردگی کیا ہے؟ سوائے اس کے کہ اسے انگریزی پر دسترس ہے۔ کوئی اور کارنامہ اس نے انجام دیا ہو تو بتائیے۔ اگر ترکیہ، چین، فرانس جیسے ممالک اپنی زبان میں ترقی کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ غلامی کی یہ نفسیاتی گرہیں کب کھلیں گی؟