Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kon Kon ATM Hain?

Kon Kon ATM Hain?

جہانگیر ترین تو عمران خان کا اے ٹی ایم ہو گئے، سوال یہ ہے برادر مکرم سینیٹر طلحہ محمود کس کا اے ٹی ایم ہیں؟ ۔۔ یاد رہے یہ ایک ضمنی سوال ہے، اصل سوال کچھ اور ہے۔

تحریک انصاف تو دنیا داروں کی جماعت ہے، کسی کمزور لمحے میں اے ٹی ایم کو دل دے بیٹھی ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ طلحہ محمود صاحب میں وہ کون سی خوبیاں ہیں کہ " قائد ملت اسلامیہ " کی نگاہ ناز میں ان کے سوا کوئی جچتا ہی نہیں؟ تحریک انصاف کو اگر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے جہاز پر بہت جھولے لیتی رہی تو کیا جمعیت علمائے اسلام کے بارے بھی یہ شیطانی وسوسہ پالا جا سکتا ہے کہ اس کے سیاسی تحرک میں کچھ کردار " وولٹا بیٹری" کا بھی ہے؟ جہانگیر ترین کو عمران خان نے یقینا ان کی تجوری کا سائز دیکھ کر پارٹی میں لیا ہو گا لیکن سینیٹر طلحہ محمود کو علمائے اسلام نے ایوان بالا میں لا بٹھایا تو کیا یہ طلحہ محمود کی عظیم فقہی اور دینی خدمات کا اعتراف تھا؟ جہانگیر ترین اگر تبدیلی بنک لمیٹڈ کا اے ٹی ایم تھے تو طلحہ محمود کیا اسلامی بنکاری کا نقش اول بن کر مولانا کی دستار میں جگمگا رہے تھے؟

سینیٹر طلحہ محمود کا سیاسی سفر دیکھیے۔ 2006 میں وہ جے یو آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے، 2012 میں پھر سینیٹ کا ٹکٹ ان کی خدمت مبارک میں پیش کیا گیا اور وہ دوسری دفعہ علمائے اسلام کی جمعیت کے ٹکٹ پر ایوان بالا کے رکن بنے، 2018 میں بھی قائد ملت اسلامیہ کی نگاہ انتخاب اسی عقیق یمنی پر آن ٹھہری۔ سوال یہ ہے اسلام کے علماء کی جمعیت کے لیے سینیٹر طلحہ محمود اتنے ناگزیر کیوں ہیں؟ کیا وہ مفسر قرآن ہیں، شیخ الحدیث ہیں، مجتہد العصر ہیں، فقیہ دوراں ہیں؟ وہ ہیں کیا؟ ان کی وہ عظیم دینی، ملی اور فقہی خدمات آخر سامنے تو آئیں جن کی وجہ سے وہ مسلسل ایوان بالا میں علمائے اسلام پاکستان کی جمعیت کی نمائندگی فرما رہے ہیں؟

جہانگیر ترین پر اگر یہ الزام ہے کہ اس نے سیاسی حیثیت کو چینی وغیرہ کے ذاتی کاروبار کے لیے استعمال کیا تو کیا سینیٹر طلحہ محمود نے اپنی سیاسی حیثیت اعلائے کلمۃ الحق میں صرف کیے رکھی؟ ذرا یاد تو کیجیے، جب حکومت نے سولر سسٹم کے فروغ کے لیے بیٹریوں کی امپورٹ پر ڈیوٹی کم کی تھی تو وہ کون تھا جس نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں اس کی مخالفت کی تھی؟ کیا وجہ تھی کہ کمیٹی کے چیئر مین سلیم مانڈوی والا کو کہنا پڑا :"سینیٹر طلحہ بیٹریوں کے کاروبار میں ہیں "۔ وجہ معلوم ہوجائے تو پھر غور کیا جا سکتا ہے کہ طلحہ محمود صاحب کی مخالفت تحفظ اسلام کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تھی یا مقامی بیٹریوں کا تحفظ مقصود تھا؟ جس شعبے میں آپ کا اپنا کاروبار ہو کیا آپ کو زیب دیتا ہے اسی شعبے کی فیصلہ ساز کمیٹی کے رکن بن بیٹھیں اور فیصلے صادر فرماتے رہیں؟ کیا یہ کانفلیکٹ آف انٹرسٹ نہیں تھا؟ کیا اے ٹی ایم اگر اسلامی بنکاری کا ہو تو سارے اصول بدل جاتے ہیں؟

عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک اے ٹی ایم بلاک ہوا تو دوسرا اے ٹی ایم ایشو کروا لیتے ہیں۔ یہ طعنہ اپنی جگہ پر غلط نہیں ہے کیونکہ علیم خان حلف اٹھا چکے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دوسرے اے ٹی ایم کا اہتمام کیا صرف عمران خان رکھتے ہیں؟ کیا کوئی ہماری رہنمائی فرمائے گا کہ سینیٹر طلحہ محمود کے ہوتے ہوئے قائد ملت اسلامیہ نے اعظم سواتی کو سینیٹر کیوں بنوایا تھا؟ کیا یہ اعظم سواتی صاحب کی امریکہ میں انجام دی گئی عظیم دینی اور فقہی خدمات کا اعتراف تھا کہ علمائے اسلام کی جمعیت نے انہیں ایوان بالا میں اپنی نمائندگی کا شرف بخشا یا یہاں بھی وہی معاشی اصول کارفرما تھا کہ دو اے ٹی ایم ضرور پاس ہونے چاہییں کیا پتا کب کس اے ٹی ایم کی ضرورت پر جائے؟

اے ٹی ایم کی سیاست کا طعنہ صرف عمران خان کو نہیں دیا جا سکتا۔ ہر گروہ کے اپنے اپنے اے ٹی ایم ہیں۔ یہی اے ٹی ایم پارٹی قیادت کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں، کسی کو جہاز کی سیر کراتے ہیں تو کسی کو اسلام آباد میں عالی شان گھر تحفے میں پیش کرتے ہیں۔ افتادگان خاک تو گلے شکوے کریں لیکن مفت کے گھر میں بیٹھ کر مزے کرنے والا جہاز کے جھولے لینے والے کو طعنہ کیسے دے سکتا ہے؟ معاملہ یہ نہیں کہ ایک جہانگیر ترین اور علیم خان آئے اور سیاست یر غمال ہو گئی۔ معاملہ یہ ہے کہ سیاست کبھی آزاد تھی ہی نہیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ شاید ہی کسی جماعت کے ہاں چندہ سسٹم ہو جس سے پارٹی کے اخراجات پورے ہوتے ہوں۔ قریب قریب ہر جماعت اپنے اخراجات اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے اے ٹی ایمز کی محتاج ہے۔ اب اے ٹی ایم اگر خدمات بجا لاتے ہیں تو یہ فی سبیل اللہ تو نہیں ہوتا۔ کاروباری مفادات پھر ان کے ساتھ ہوں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

پارلیمان کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیے۔ یہاں کاروباری اراکین پارلیمان نے ان کمیٹیوں میں شمولیت اختیار کی جن کا تعلق ان کے کاروبار سے تھا، پھر ایسے فیصلے کروائے کہ کاروباری حریفوں کا ستیا ناس ہو جائے اور ان کے کاروبار ترقی فرما جائیں۔ کیا الیاس بلور صاحب اور قومی اسمبلی کی قائمی کمیٹی برائے فنانس کے چیئر مین قیصر شیخ پر ایسے ہی الزامات نہیں لگتے رہے کہ انہوں نے اپنے کاروباری مفادات کے لیے کمیٹی کو استعمال کیا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے جو ظاہر ہے ایک کالم میں نہیں سمیٹی جا سکتی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کا معاملہ اور ہے، وہ تو اصولوں کی سیاست کا علمبردار تھا، سوال یہ ہے قائد ملت اسلامیہ کیا بے اصولی کی سیاست کے دعوے کے ساتھ اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں؟ دعوے ہر طرف ایک جیسے ہیں۔ نامہ اعمال بھی مختلف نہیں۔

مسئلہ جہانگیر ترین نہیں کہ درویشوں کی سیاست میں وہ آ گئے اور ان قلندر مزاج نیک پاک نہ بکنے والے نہ جھکنے والے، آپ کے ووٹ کے جائز حقدار لوگوں کی سیاست کو خراب کر دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت نے سیاسی کلچر ہی پروان نہیں چڑھنے دیا۔ کارکنان کو کسی نے سٹیک ہولڈر بنایا ہی نہیں۔ کارکنان صرف بیگار کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ سٹیک ہولڈرز وہی ہوتے ہیں جو اے ٹی ایم کا کردار ادا کر سکیں۔