Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Corona: Roos Mein Kyun Na Phail Saka?

Corona: Roos Mein Kyun Na Phail Saka?

کیا آپ نے غور کیا کرونا جس نے ساری دنیا کو سراسیمگی میں مبتلا کر رکھا ہے، روس میں کیوں نہ پھیل سکا۔

روس بھی تو چین کا پڑوسی ہے اور پڑوسی بھی ایسا کہ مشترکہ سرحد چار ہزار دو سو نو کلومیٹر پر پھیلی ہے۔ یہ دنیا کی چھٹی طویل ترین سرحد ہے۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے اور اس میں ہمارے لیے عبرت اور حکمت، دونوں کا سامان موجود ہے۔

31 دسمبر کو چین میں نمونیے کے کچھ ایسے کیس سامنے آئے جو عام نمونیا سے مختلف تھے۔ آپ چین کا رد عمل دیکھیے، اسی شام سائنسدانوں کو ڈیوٹی سونپ دی گئی کہ اس کے محرکات تلاش کریں۔

عمومی خیال تھا یہ سارس وائرس ہے۔ پانچ جنوری کو چین کے سائنسدانوں نے کہہ دیا کہ یہ سارس نہیں ہے۔ سات جنوری کو چین کے سائنسدان نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ یہ کورنا فیملی کا ایک نیا اور مہلک وائرس ہے۔ غور فرمائیے یہ سارا کام اکتیس دسمبر سے سات جنوری کے دوران ہو چکا تھا۔

اب روس کی سنیے۔ روس میں کرونا کا پہلا کیس ا کتیس جنوری کو سامنے آیا۔ اس سے ایک دن پہلے یعنی تیس جنوری کو روس سرحد پار کرنے والی مسافر ٹرینوں پر پابندی لگا چکا تھا۔ غور فرمائیے : پہلا کیس سامنے آنے سے ایک دن پہلے احتیاطی تدابیر لی جا چکی تھیں۔ پہلا کیس سامنے آیا تو تدابیر مزید سخت کر دی گئیں اور دو فروری کو روس نے وہ ساری مسافر ٹرینیں بھی تا حکم ثانی بند کر دیں جو روس اور چین کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کا ذریعہ تھیں۔

اکتیس جنوری کو روس میں جن دو افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ان دونوں کا تعلق چین سے تھا۔ روس اس ٹیسٹ کے نتائج آنے سے ایک دن پہلے منگولیا والی سرحد بند کر چکا تھا۔ چین سے صرف ان شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی جو اس سے پہلے ہی روس میں قیام پزیر تھے۔ ان کے لیے بھی لازم قرار دیا گیا کہ وہ چودہ دن قرنطینہ میں رہیں گے اور اس کے بعد روس میں داخل ہو سکیں گے۔ روس نے اسی دن فضائی رابطے بھی محدود کر دیے۔ چین کے صرف تین شہروں کے ساتھ یہ رابطہ باقی رکھا گیا۔

جس روز روس کے اندر کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا اسی روز چینی سرحد پر قرنطینہ فعال ہو چکے تھے۔ چنانچہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ روس میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت 19 مارچ کو ہوئی اور وہ بھی ایک 79 سالہ بوڑھی عورت کی۔ اس کے بارے میں بھی روسی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ اتنی بوڑھی نہ ہوتیں تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی۔

انیس مارچ تک چین میں کرونا وائرس کے کل 80 ہزار 9 سو سات کیس رپورٹ ہوئے اور 3 ہزار 2 سو بیالیس لوگ مارے گئے۔ اٹلی میں 35 ہزار سات سو تیرہ کیس رپورٹ ہوئے اور 2987 اموات ہوئیں۔ دوسری طرف روس ہے، جس کی ہزاروں کلومیٹر کی سرحد چین کے ساتھ ہے وہاں پہلی موت انیس مارچ کو ہوتی ہے۔ آپ روس کی کامیاب اور فعال حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ قریبا پندرہ کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں اکتیس جنوری سے اب تک کرونا کے صرف 253مریض موجود ہیں اور ان میں سے صرف ایک مریض مرتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ روس نے یہ غیر معمولی کامیابی کیسے حاصل کی؟ جواب بہت سادہ ہے۔ روس کی قیادت نے بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھا۔ اس نے صرف فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنی قابلیت کے جوہر نہیں دکھائے۔ اس نے آئندہ خطرے کو محسوس کیا اور فوری طور پر طے کیا کہ اس خطرے سے کیسا نبٹنا ہے اور پھر اسی وقت ساری ریاستی مشینری کو متحرک کر دیا۔ چنانچہ آج یہ عالم ہے کہ سی این این پر حیرت بھرا سوال پوچھا جا تا ہے : روس میں کرونا کے مریض اتنے کم کیسے ہیں؟ اس کا جواب ولادی میر پیوٹن ہے، جو اتنا ہینڈ سم بھی نہیں ہے، تھوڑا گنجا بھی ہے لیکن اس میں قیادت کے اوصاف موجود ہیں۔

اب آپ ذرا پاکستان کی طرف آئیے۔ چین میں کرونا 31 دسمبر سے پھیل چکا تھا۔ ہم نے اس دوران کوئی حفاظتی قدم نہیں اٹھایا۔ ایران میں 19 فروری کو پہلا کیس کنفرم ہوا۔ یہ کیس قم کے مقام پر سامنے آیا۔ ایران اور سعودی عرب دو ایسے ممالک ہیں جہاں پاکستان سے لاکھوں زائرین جاتے ہیں۔ تہران ٹائمز ( 2 جنوری )کے مطابق دو ماہ میں 75 ہزار پاکستانی زائرین ایران گئے۔

سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت نے ان زائرین کی واپسی پر ان کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا طبی اقدامات اٹھائے؟ کیا وفاق اور صوبائی حکومت کو علم نہیں تھا کہ ایران سے کتنے ہزار زائرین واپس اپنے وطن آ رہے ہیں؟ کیا ان زائرین کی سکریننگ اور ان کی رہائش کا کوئی معقول انتظام کیا گیا؟ کیا وفاقی اور صوبائی وزراء کے لشکر اس لیے دھرتی پر اتر چکے ہیں کہ پہلے پہر حریفوں کی تضحیک کریں، پھر بیپر دیں اور ٹویٹ فرمائیں اور دوسرے پہر ملک بھر میں واٹس ایپ فرماتے رہیں کہ آج ہمارے کمالات کی یہ فہرست ہے؟

روس اگر فوری طور پر ایک خطرے کو بھانپ کر سرحدوں پر قرنطینہ قائم کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ قرنطینہ قائم کرنے کے لیے اربوں ڈالر نہیں چاہیے صرف بصیرت، حکمت اور احساس کی ضرورت ہے۔ ی مصیبت یہ ہے کہ یہ چیز آپ کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھی نہیں مل سکتی۔ یہ مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے کہ سفر سے تھکے زائرین واپس اپنے وطن پہنچیں تو آپ کے پاس نہ ان کی سکریننگ کا کوئی بندابست ہو نہ ان کی اچھی رہائش کا اور آپ قرنطینہ بھی قائم کریں تو ایسی بد انتظامی کے ساتھ کہ زائرین کی چیخیں نکل جائیں۔ کیا قرنطینے ایسے ہوتے ہیں کہ ہجوم اکٹھا کر دو تا کہ جو متاثر نہ ہو اسے بھی کرونا ہو جائے۔ کوئی بد انتظامی سی بد انتظامی ہے۔

صر ف سندھ حکومت تھی جس نے اس خطرے کو محسوس کیا۔ غریبوں اور متاثرین کے لیے عملی اقدامات بھی صرف سندھ حکومت نے اٹھائے ہیں۔ سندھ حکومت چیختی رہی کہ ایک وزیر کے کہنے پر تفتان سے زائرین کو سکریننگ کے بغیر نکال دیا گیا ہے اور کسی نے اس دہائی کو سننا گوارا نہ کیا۔ یہاں ایک لمحے کو رک کر سوچیں کیا پیوٹن حکومت کے کسی وزیر پر ایسا الزام لگا ہوتا کہ اس نے منگولیا کی سرحد پر کچھ لوگوں کو بغیر سکریننگ کے روس میں داخلے کی اجازت دی تو وہ ہینڈ سم ابھی تک پیوٹن کی کابینہ کا حصہ ہوتا؟ سندھ حکومت درخواست پر درخواست کرتی رہی کہ بغیر سکریننگ کے چار سو زائرین پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں خدا کا واسطہ ہے انہیں تلاش کر کے ان کا چیک اپ کرائیں لیکن پنجاب میں کسی نے ان کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اب بلا سر پر ہے۔ صحافی سوال پوچھ لے تو وزیر صحت کوتوال بن جاتی ہیں۔

عزیزہم وطنو! بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے!