Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. Pakistan Kitna Faida Utha Raha Hai?

Pakistan Kitna Faida Utha Raha Hai?

دنیا نے کبھی سوچا نہ تھا جیسا ہورہا ہے۔ تیل جس کے لیے ماضی میں جنگیں ہو چکی ہیں، جس پر دنیا کی سیاست انحصار کرتی ہے، جس کے حصول کے لیے بڑے ممالک چھوٹے ممالک پر چڑھ دوڑتے ہیں، جس کی خاطر روس اور سعودی عرب جیسے طاقت ور ممالک ایک دوسرے سے ٹکر لے رہے ہیں۔ محض تیل کی بنیاد پر روس نے ایران کے قریب ہو کرخطے میں نیا بلاک بنا رکھا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا نہ تھا تیل اس قدر بے توقیر ہو جائے گا کہ اس کی قیمت منفی میں چلی جائے گی۔ جو کچھ تیل کے ساتھ آج ہو رہا ہے اس سے پہلے دنیا نے یہ منظر نہیں دیکھاتھا۔

صورتحال یہ ہے کہ تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ ختم ہو جانے کے باعث سٹوریج ہائوسز کے ریٹس اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ تیل کی اصل قیمت سے بھی زیادہ مہنگے ہو گئے ہیں۔ یعنی تیل دستیاب ہے مگر اس کو رکھنے کی جگہ نہیں۔ جس سٹوریج ہائوس کے پاس تھوڑی جگہ بچی ہے وہ منہ مانگی قیمت مانگ رہا ہے جو کہ تیل کی قیمت خرید سے بھی زیادہ ہے۔

آپ یہ دیکھئے کہ مئی کے لیے تیل کا کنٹریکٹ 37 ڈالر فی بیرل میں ہوا جبکہ جون کے لیے یہ قیمت گر کر 11 ڈالر فی بیرل پر آئی اور پھر مارکیٹ کریش کر گئی۔ کچھ دن پہلے سی این این کی ایک رپورٹ میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا تھا کہ جب تیل30 ڈالر فی بیرل میں بک رہا ہے تو صورتحال خراب ہے اور اگر یہ قیمت 20 یا 10 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تو یہ ایک ڈرائوناخواب ہو گا۔ اب تیل کی مارکیٹ کریش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ڈرائونا خواب حقیقت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ امریکہ کی تیل کی صنعت گھٹنوں پر آ گئی ہے۔ آئل ریفائنریز کے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ نہیں اور بیشتر کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر تیل کی قیمت 20ڈالر فی بیرل پہ آ گئی تو ماضی میں مہنگے داموں تیل خرید کر ذخیرہ کرنے والی 533 امریکی کمپنیاں چند ماہ میں دیوالیہ ہو جائیں گی اور اگر یہ قیمت 10ڈالر فی بیرل پر آگئی تو امریکہ کی 1100 کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ اب ایسا ہونا شروع ہو گیا ہے، جو ڈرائونا خواب دنیا بھر کی تجزیاتی رپورٹس دکھا رہی تھیں وہ اب بھیانک تعبیر کی صورت سامنے آنے لگا ہے۔

امریکہ کے ساتھ دراصل ہوا یہ تیل کہ ابھرتی ہوئی صنعت کو دیکھتے ہوئے بے شمار لوگوں نے بینکوں سے قرضہ لے کر سرمایہ کاری کی اور سٹوریج ہائوسز بنا لیے۔ دو طرح کے سرمایہ کاروں نے اس میدان میں قدم رکھا ایک وہ جنہوں نے اپنے سٹوریج ہائوسز کو لیز پر دینے کا کام کیا اور دوسرے وہ بڑے سرمایہ کار جنہوں نے مارکیٹ کے اتار کے دوران نسبتا سستا تیل خرید کر سٹوریج ہائوسز میں جمع کر لینے اور بعد ازاں منافع کے ساتھ بیچنے کے کاروبار شروع کیا۔ امریکہ میں اس کاروبار سے ہزاروں سرمایہ کار وابستہ ہو گئے اور صنعت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑے ہوئے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ تیل کا حالیہ بحران اس پوری صنعت پر بجلی بن کے گرا ہے اور خود امریکی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بن کے رہ گیا ہے۔

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ تیل ذخیرہ کرنے والی بڑی کمپنیاں انڈونیشیا سے میکسیکو تک تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ ڈھونڈ رہی ہیں لیکن مل نہیں رہی۔ یورپ کے کئی سمندری جہاز تیل لے کر سمندروں میں گھوم رہے ہیں مگرانہیں خالی کرنے کی کوئی جگہ نہیں بچی۔ اس صورتحال سے بچا جاسکتا تھا اگر تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی سپلائی کم کرنے کا بروقت فیصلہ کر لیتے۔ مگر روس اور سعودی عرب مارچ کی سپلائی کم کرنے پر جب متفق ہوئے تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ دوسرا یہ کہ روس اور سعودی عرب نے تاخیر سے ہی صحیح، سپلائی کو 10ملین بیرل کم کرنے پر اتفاق کیا لیکن دوسری جانب تیل کی ڈیمانڈ 30 ملین بیرل کم ہو گئی۔

اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ چین نے اٹھایا۔ چین نے بھلے وقتوں میں بنائی گئی اپنی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو موجودہ بحران میں سب سے بہتر استعمال کیا۔ چین دھڑا دھڑ سستا تیل خرید کر سٹور کر رہا ہے اور اس نے اپنے سٹریٹیجک ریزروز کو پچھلے کچھ دن میں دگنا کر لیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق چین نے جنوری سے مارچ تک جتنا تیل برآمد کیا اس میں سے دو ملین بیرل روزانہ تیل ریفائنریز کو نہیں بھیجا۔ گویا یہ دد ملین بیرل روزانہ چین سٹریٹیجک ریزروز میں جمع ہو رہا ہے۔ اس کے لیے چین الاسکا، کینیڈا اور برازیل سے "سپاٹ بائینگ " کر رہا ہے۔ یعنی موقع پر پیسوں کی ادائیگی کر کے تیل لے رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان نے اس صورتحال سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کے دو مسئلے ہیں ایک تو یہ کہ اس نے عوام سے ہمیشہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی تو وصول کی لیکن آئل ریزروز بنانے پر کبھی توجہ نہیں دی۔ لہذا پاکستان سستا ترین یا تقریبا مفت تیل خرید کر سٹور نہیں کر سکتاجبکہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کے پاس ایک مکمل کمپنی ہے جو سٹریٹیجک ریزروز بنانے کا کام کرتی ہے۔ لہذا انڈیا بھی سپاٹ بائنگ کر کے تیل جمع کر رہا ہے لیکن پاکستان یہ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے پاس فیوچر بائنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔

اب دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کے لیے اگر پاکستان فکس ریٹ پر تیل خرید نے کا معاہدہ کر لیتا ہے اور آنے والے دنوں میں تیل مزید سستا ہو جاتا ہے تو پاکستان کو نقصان ہو جائے گا، تیل کے مہنگا ہو جانے کے اگلے چند ماہ میں زیادہ امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ لہذا پاکستان تیل کے اس بحران سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہا اورحسرت و یاس کی امید بنا بیٹھا ہے۔