سوشل میڈیا یونیورسٹی آف لیسٹر برطانیہ میں جاری میری پی ایچ ڈی کی ریسرچ کے بنیادی موضوعات میں سے ایک ہے اور گزشتہ تین سال سے اس سلسلے میں مجھے بے شمار تحقیقی مضامین اور مقالات پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ سوشل میڈیا نے پیغام رسانی اور معلومات کی ترسیل و ترویج میں عام لوگوں کو برابر شریک کیا ہے جو اب موبائل فون کے ذریعے اپنی خبر اور اپنا نقطہ نظر نہ صرف آزادانہ طور پر شائع کرنے کے قابل ہو گئے ہیں بلکہ اسے چند لمحات میں وائرل کرنے پر ملکہ حاصل کر چکے ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ کے امتزاج سے نشرو اشاعت کے شعبوں میں انقلاب برپا ہو چکا ہے اور اس نئے میڈیا نے خبر رسانی کے پورے نظام اور روائتی ذرائع ابلاغ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کاایک نیا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے اور یوں مفت ٹیکنالوجی کے ان حیرت انگیز ذرائع ابلاغ نے عام لوگوں کو اظہار رائے اور اس کی نشریات پر مکمل طور پر خود کفیل بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی اس آزادی کے جہاں بے پناہ فوائد ہیں وہاں بہت سے مضمرات بھی سامنے آئے ہیں۔
میں اپنے گزشتہ کئی کالموں میں اس امر کی نشاندھی کرتا آیا ہوں کہ روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا کو ایک لاش درکار ہوتی ہے جس پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے دنیا بھر سے لاکھوں صارفین نہ صرف اپنے غم و غصّے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اس متعلقہ شخص یا ادارے کی عزت، نیک نامی، سماجی رتبے اور سیاسی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ سارا عمل فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کی برق رفتاری کے باعث چند لمحوں میں مکمل ہو جاتا ہے اور متاثرہ شخص یا ادارے کے پاس وضاحت پیش کرنے یا اس ضمن میں تردیدی بیان دینے کا انتہائی قلیل وقت میسر ہوتا ہے اور تھوڑی سی تاخیر کے نتیجے میں متعلقہ فرد یا ادارے کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔
یہ تماشا ہم روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی اس مادر پدر آزادی کو کئی حوالوں سے تنقید کا سامنا ہے جس میں خبر کی صحت اور معلومات کی درستگی پر بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے الگورتھم میں سنسنی خیز مواد، بے ہنگم اور عجیب و غریب خبریں فوری طور پر وائرل ہوتی ہیں کیونکہ صارفین انہیں زیادہ توجہ سے سنتے اور دیکھتے ہیں جبکہ ان کی صداقت پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔ لہٰذا اب سچائی اور حقیقت اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
میرے پی ایچ ڈی کے سپروائزر پروفیسر جیمز اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ جب سوشل میڈیا مارکیٹنگ میں کوئی اور پروڈکٹ نظر نہ آئے تو سمجھ لیں کہ ہم خود پروڈکٹ ہیں۔ یہ سارے کا سارا کھلواڑ دراصل انسانی نفسیات اور جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کے پیچھے بلینز ڈالرز کی مارکیٹنگ اکانومی ہے جو سوشل میڈیا پر اشتہارات کی صورت میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی نظر آتی ہے۔ اسی آمدن کے ساتھ جڑے وہ مونیٹائزڈ سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں جن کے ذریعے ٹک ٹاکرز اور ولاگرز ڈالرز کما رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سارا دن سوشل میڈیا پر سنسنی خیز انکشافات اور بسا اوقات بے بنیاد معلومات پر مبنی تبصروں اور جائزوں کے شیش محل کھڑے کیے جاتے ہیں جو اگلے ہی لمحے حقائق کے پہاڑ سے ٹکرا کر دھڑام سے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمہ وقت مختلف سیاسی جماعتوں کے متوالوں اور مذہبی عقائد و نظریات کے پیروکاروں کے درمیان مڈ بھیڑ کا سماں باندھا جاتا ہے اور اس ضمن میں باقاعدہ جنگی ماحول برپا کردیا جاتا ہے۔
اس متعصب اور متنفر ماحول کا مقصد اختلاف رائے کو بھڑکا کر مخاصمت میں تبدیل کرنا اور مکالمے کی بجائے تصادم کو ہوا دینا ہوتا ہے تاکہ گرما گرم بحث میں فریقین اور ان کے حمایتی سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں جس سے اشتہارات کی مد میں آمدنی میں ہوشربا اضافہ ممکن بنا کر سوشل میڈیا کمپنیوں کے مالکان کے لئے اربوں ڈالرز کی خطیر رقوم اکٹھی کی جا سکیں۔ چونکہ اب اینڈرائڈ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ ہر شخص خود کو صحافی، دانشور، شاعر، فنکار، حکیم، طبیب، تجزیہ نگار اور لکھاری تصور کر رہا ہے لہٰذا وہ کسی نہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خود کو ریلیونٹ بنانے کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔
گزشتہ ہفتے اسی موضوع پر ہماری ملاقات یونیورسٹی آف لیسٹر میں تعینات معروف پروفیسر ڈاکٹر عاشق انجم صاحب سے ہوئی جو مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے شعبہ میں انتہائی جدید ترین تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ میرے پی ایچ ڈی سپروائزر ڈاکٹر عبد الجبار اور ڈاکٹر عاشق انجم نے سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کئی اہم نکات اٹھائے اور انسانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی خلیج، فکری کشیدگی اور ذہنی تناؤ کے سبب اپنے اپنے نظریات پر کٹ مرنے پر تیار لوگوں کی ذہنی حالت اور نفسیاتی ہیجان کو زیر بحث لایا گیا۔
ڈاکٹر عاشق انجم اور ان کی زیر نگرانی کام کرنے والی ریسرچ ٹیم اس امر کا کھوج لگانے میں مصروف ہے کہ جس طرح سوشل میڈیا کی پروگرامنگ اور الگورتھم کے ذریعے مسلسل ایک خاص قسم کے بیانیے اور نظریہ پر لوگوں کو مائل کرکے اس پر سخت ترین مؤقف اختیار کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انہیں ان کی طرز فکر سے دور کرکے دوبارہ ایک متوازن نکتہ نظر پر لایا جاسکے اور اپنے راسخ خیالات و نظریات سے الگ کرکے دوسرے کی بات سننے، اختلاف رائے کا احترام کرنے اور برداشت کرنے پر مائل کیا جاسکے۔
ڈاکٹر عاشق انجم اور ان کی ٹیم کی یہ منفرد تحقیق اگر کامیاب ہوگئی تو یقیناً سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں اک نئی جہت کا آغاز ہوگا جس سے سماجی تقسیم، ذہنی تناؤ اور فکری انتشار کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے اور انسانی زندگی میں دوبارہ تحمل، برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کا عمل شروع ہو سکے گا۔ بصورت دیگر یہ عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا پر لڑی جانے والی یہ فکری اور نظریاتی جنگ انسانی معاشرے میں تقسیم کے عمل کو مزید تیز کرتے ہوئے اقوام عالم کو کسی بڑے ٹکراؤ کی طرف نہ دھکیل دے۔
دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ سوشل میڈیا پر جاری جھوٹا پروپیگنڈا اور فیک نیوز کا پھیلاؤ خود اس نئے میڈیا کے جلد زوال کا سبب بن سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے بریکنگ نیوز کلچر اور یک طرفہ بیانیہ سے بیزار ہو کر لوگوں کی واضح اکثریت اب ٹیلیویژن چینلز کو دیکھنا چھوڑ چکی ہے۔