Sunday, 08 June 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Muqaddar Ka Sikandar

    Muqaddar Ka Sikandar

    اسے بچپن میں کرکٹر بننے کا جنون تھا جس کی بدولت وہ پڑھائی میں کم اور کرکٹ کھیلنے میں زیادہ دلچسپی لیتا۔ لڑکپن سے جوانی کے قیمتی ماہ و سال اس نے تعلیمی اداروں میں کم جبکہ کرکٹ کے میدانوں میں زیادہ گزار دیے کیونکہ وہ اپنے فطری ٹیلنٹ کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہو کر دنیا بھر میں وطن عزیز پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس کا خواب پورا نہ ہو سکا اور نہ ہی وہ چاہت بار آور ثابت ہو سکی۔ ہاں مگر اس کے کئی ساتھی قومی ٹیم کا حصہ بنے اور خوب نام کمایا۔ ان میں چند ایک تو سپر سٹارز بھی بن گئے تو یقیناً وہ اپنے اس دوست کو بھول گئے جو اپنے سارے ارمان دل میں سمائے فسٹ کلاس کرکٹ سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا اور ایک گمنام زندگی اس کا مقدر بن چکی تھی۔ وہ آج بھی اپنے کرکٹ کے دوستوں کے نام بڑے فخر سے لیتا ہے جو اس کے ساتھ کھیلتے کھیلتے آگے نکل گئے اور اسے یکسر بھلا بیٹھے۔

    یہ دنیا کی تلخ نوائی ہے اور یہی سچائی ہے کہ کامیابی اور ناکامی بچپن کے گہرے دوستوں کو دو مختلف دنیاؤں میں دھکیل دیتی ہیں اور پھر عمر بھر کے لئے ان کی راہیں جدا ہو جاتیں ہیں۔ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور زمانہ آگے بڑھ گیا۔ اس کی عمر ڈھلنے لگی اور کرکٹ کھیلنے کا جنون ماند پڑنا شروع ہوا جو جلد محض ایک ارمان اور حسرت نارسا میں بدل گیا۔ ہاں مگر اس کے خانہ دل میں کچھ بڑا کرنے اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی شاخ تمنا ہمیشہ سرسبز و شاداب رہی اور وہ مسلسل چپ چاپ اپنی اس خواہش ناتمام کو عملی جامہ پہنانے کے امکانات تلاش کرتا رہا۔

    اس کے بعد سوشل میڈیا کا زمانہ آن پہنچا تو اس کے سامنے ہر روز نئے نئے چہرے اجنبی گوشوں سے نکل کر شہرت، عزت اور دولت کمانے لگے۔ وہ خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا اور اپنے ارادوں کو مزید پختہ کرتا رہا۔ اس نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر ایسے لوگ دانشور بن بیٹھے ہیں جنہیں شاید اپنے گاؤں کے بچے بھی نہیں پہچان سکتے، وہ صاحبان اپنے نام کے ساتھ ممتاز قانون دان لکھتے ہیں جن کے لئے معمولی مقدمہ درج کرانے کی درخواست لکھنا بھی محال ہے۔

    اس نے سوشل میڈیا پر وائرل کئی ایسے حضرات و خواتین کو دیکھا جو اپنی عجیب و غریب حرکات و سکنات کی وجہ سے اچھے خاصے مشہور ہو چکے تھے۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ بظاہر باریش حضرات اپنے یو ٹیوب چینل پر ویوز بڑھانے کے لئے کئی بے ہودہ اور شرمناک حرکتیں بھی کرتے جارہے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں کیونکہ سوشل میڈیا کی دنیا میں عزت، دولت اور شہرت کے اپنے پیمانے ہیں، کامیابی اور ناکامی کے اصول بھی منفرد ہیں جو اب ہمارے معاشرے بھی کافی حد تک مقبول بھی ہو چکے ہیں اور قبول بھی۔ وہ بھی اپنے ادھورے خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے لئے کود پڑا۔

    اس نے سب سے پہلے اپنا نام تبدیل کیا، اپنے نیم گنجے سر کی دونوں اطراف میں موجود چند باقی ماندہ زلفوں کو دراز کیا، چمکیلا لباس زیبِ تن کرکے باقاعدہ فنکاروں والا حلیہ بنایا اور فن موسیقی کے بحر بے کراں میں چھلانگ لگا دی۔ حالانکہ وہ اگر چاہتا تو اپنی پہلی چھلانگ کے بعد ڈوب کر مر بھی سکتا تھا مگر اس نے ایسا ہرگز نہیں کیا کیونکہ اسے تو گمنام زندگی ختم کرکے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے ان ساتھیوں کو دیکھانا تھا جو قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کے بعد خود ہیروز بن کر اسے زیرو سمجھ کر یکسر بھول گئے تھے۔ اس لیے وہ ولیم شیکسپیئر کے جولیس سیزر کی طرح آیا، اس نے دیکھا اور فتح کر لیا۔

    اب یہ عالم ہے کہ لگ بھگ گزشتہ دو برسوں میں وہ کم وبیش پانچ درجن وڈیو گانے ریکارڈ کروا کر وائرل کر چکا ہے۔ اس حیرت انگیز کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ ہر فن مولا ہے۔ وہ شاعر بھی ہے اور موسیقار بھی، گائیک بھی ہے اور ماڈلنگ کا شاہکار بھی، وہ ایکٹر بھی ہے اور مایہ ناز فنکار بھی، مزاحیہ دلدار بھی ہے اور اپنے گیتوں کا مرکزی کردار بھی خود ہے۔ اسے فن گائیکی پر اس قدر ملکہ حاصل ہے کہ لوگ بڑے بڑے کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں اور اس کے خانوادوں کو بھلانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    بڑے بڑے نامور گائیک اس سے فن موسیقی میں سر تال کے پیچ و خم سیکھنے کے لئے بے تاب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ان بڑے بڑے سرکردہ متوقع شاگردوں کی فنی تربیت کے لئے اب اس نے ایک شاندار اکیڈمی کھولنے کا اعلان بھی کر دیا ہے جس اقدام کو پاکستان بھر میں پزیرائی مل چکی ہے۔ اسے باعث افتخار سمجھتے ہوئے اور اپنی شہرت کے نشے میں چور ہو کر مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ موسیقی، اداکاری اور ماڈلنگ کے فروغ کے لئے اس نے اکیڈمی بنا کر یقیناً ان فنون کو دائمی بنانے میں اپنا خطیر حصہ ڈال دیا ہے۔

    اب وقت آگیا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر پاکستان کرکٹ کی گرتی ہوئی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرے اور لاہور میں اپنی نگرانی میں ایک شاندار کرکٹ اکیڈمی قائم کرکے وطن عزیز پاکستان کے ابھرتے ہوئے نوجوان کھلاڑیوں کی کوچنگ کا بیڑہ بھی خود اٹھا لے اور انہیں اسی طرح کامیابی سے ہم کنار کر دے جس طرح اس نے فن گائیکی، ماڈلنگ اور اداکاری کے فنون کو لا زوال بنا ڈالا ہے کیونکہ وہ مقدر کا سکندر ہے اور اس کے لئے کچھ بھی کرنا ناممکن نہیں۔ آپ ابھی تک اس کالم میں مذکور ہیرو کا نام ڈھونڈ رہیہیں جس کے لئے احمد فراز کا یہ شعر پیش خدمت ہے۔

    میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
    کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے