Wednesday, 04 June 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Masnoi Mushra

    Masnoi Mushra

    محض چند دہائیاں قبل ذرائع ابلاغ ریڈیو، پاکستان ٹیلی ویژن کی محدود نشریات اور گنے چنے اخبارات تک محدود تھے۔ کچھ اخبارات نے رنگین تصویری صفحات کی داغ بیل ڈالی اور پھر ان پر شوبز کے ستاروں کی کہکشاں سجا دی تو ان کی مانگ میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا اور اخبار بینی کے شوقین افراد بڑھ گئے۔ کئی شرفاء گھر والوں کی نظروں سے اوجھل ہو کے پبلک پارکس میں ان رنگین تصویری صفحات کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کرتے پائے گئے۔

    اخبار مانگ کر پڑھنے والے اکثر رنگین صفحات اپنے پاس محفوظ فرما لیتے اور دیگر غیر مقبول اوراق واپس کرکے حجت تمام کرتے۔ یہ زیادہ دور کی بات نہیں کہ جب سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز ہماری زندگیوں میں شامل نہیں تھے تو میلوں ٹھیلوں پر سرکس، مجروں اور دیگر تفریحی مشاغل میں ہیجڑوں اور کنجریوں کو نچایا جاتا تو تماش بین حضرات اپنے دل بہلا لیتے۔ رقص و سرود کی ان محفلوں میں کئی حضرات اپنی دولت کا بے دریغ استعمال کرتے اور ان رقاصاؤں پر دیوانہ وار پیسے نچھاور کرتے نظر آتے۔

    لاہور کے شاہی محلے میں سر شام گھنگرو باندھ کر کئی حسیں دلربا چہرے دلنشیں محافل سجا کر اپنے دیوانوں کی آمد کے انتظار میں بے قرار ہو جاتے۔ دوسری طرف یہی شوق سینما گھروں اور تھیٹروں میں رونق کا سبب بنا اور لوگ غروب آفتاب کے ساتھ ہی اپنے دلکا رانجھا راضی کرنے کے لئے ٹکٹ لینے والی قطار میں کھڑے ہو جاتے، رات گئے گھر لوٹتے۔ 1990 کی دہائی کے اواخر میں کمپیوٹر کا استعمال بڑھنے لگا تو انٹرنیٹ کیفے سماجی روابط اور تفریح کا ذریعہ بن گئے۔ پھر موبائل فون کا استعمال عام ہونے لگا تو فاصلے سمٹنے لگے مگر اینڈرائڈ موبائل فون کی آمد کے ساتھ گویا اک انقلاب برپا ہوا جس کے باعث سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دنیا اک نئے دور میں داخل ہوگئی۔

    گزشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا نے جہاں سماجی روابط، تفریح اور انسانی تعلقات میں نئے امکانات پیدا کیے وہاں پوری دنیا میں معاشرت، معیشت، سیاست، تجارت اور ثقافت کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے کر تمام شعبوں میں نئے معانی، مفاہیم اور منفرد اصول و ضوابط متعارف کروائے ہیں۔ اس نئے عالمی منظرنامے میں ایک نیا کلچر وجود پا چکا ہے جس کے اصول و ضوابط یکسر مختلف بلکہ کئی اعتبار سے نرالے ہیں۔ سچ اور جھوٹ میں دو دنیاؤں کا فرق تھا وہ اب عنقا ہو چکا۔ شرم و حیا اور بے حیائی کے درمیان واضح حد فاصل تھی جس کی اب دھندلی سی لکیر بھی نہیں رہی۔ اسی طرح بھائی بہن، ماں باپ اور چھوٹے بڑے کی تمیز بھی جاتی رہی ہے۔

    اب صرف وائرل ہونے کے لئے تمام جائز وناجائز امکانات تلاش کئے جاتے ہیں جس کے باعث ایسا مواد تخلیق کیا جاتا ہے جس میں بے ہودگی، بے حیائی، جھوٹ، دروغ گوئی، سنسنی خیزی، ہیجان انگیزی کے ساتھ ساتھ سنگین الزامات پر مبنی بے سروپا کہانیاں گھڑی جاتیں ہیں۔ یوں سارا دن سوشل میڈیا کے اربوں اکاؤنٹس پر فیک نیوز اور مصنوعی امارت کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

    کسی دور میں نام کمانے کے لئے محنت، دیانت، ذہانت اور عمر بھر کا ریاض درکار ہوتا تھا مگر اب چند لمحات پر مشتمل محض ایک ٹک ٹاک کلپ وائرل ہو جائے تو اک اجنبی شخص شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے، دولت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے اور یوں وہ گمنام عام آدمی مسند توقیر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپ، قابل غور اور کسی حد تک خوفناک امر یہ ہے کہ جھوٹ موٹ کی اس امارت اور جعل سازی پر مبنی مقام و مرتبہ کے دیوانوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس نے ہمارے معاشرے کی اصل روح اور اساس پر کاری ضرب لگائی ہے۔

    سستی شہرت، مصنوعی عزت اور ڈالروں سے مالامال اس مذموم کاروبار کا سب سے شرمناک پہلو خاندانی نظام اور ان پاکیزہ رشتوں سے جڑی اخلاقی قدروں کی سر بازار رسوائی ہے۔ ہمارے قابل قدر اسلامی معاشرے اور قابلِ فخر مشرقی روایات میں احترام عورت کو اک خاص مقام حاصل تھا جسے اب چند ڈالروں کی کمائی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ جس ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی طرف ایک میلی آنکھ دیکھنے والے کی دونوں آنکھیں نوچ لی جاتی تھیں اسے اب بڑے اہتمام سے خود سر عام نیلام کیا جارہا ہے۔

    شرم و حیا کے سات پردوں میں چھپے ان مقدس رشتوں کو سینہ ٹھوک کر نیم عریاں لباس میں فیملی وی لاگنگ کے نام پر سوشل میڈیا کی زینت بنایا جا رہا ہے۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ میاں بیوی کے عائلی زندگی کے سارے پردے چاک کئے جارہے ہیں اور وی لاگنگ کا کیمرہ اب بیڈ روم تک پہنچ چکا ہے۔

    افسوس کہ اب اس مکروہ دھندے میں کئی شادی شدہ جوڑے بھی کود پڑے ہیں جو اپنے بچوں کے سامنے بوس و کنار سمیت کئی قبیح حرکات کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کا واحد مقصد ویوز بڑھا کر چند ڈالروں کی کمائی اور سستی شہرت کا حصول ممکن بنانا ہے اور تو اور کئی باریش حضرات بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع ہو گئے ہیں اور شعائر اسلام کا سر عام مذاق اڑانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہیں بے شرم کرداروں میں ایک حضرت خود کو ممتاز عالم دین کے طور پر متعارف کراتے پھرتے ہیں مگر اپنی جواں سال بیوی کے ساتھ ایسے چونچلے کرتے نظر آتے ہیں کہ گویا بالی وڈ کی کسی فلم کے نیم عریاں سین کی عکسبندی میں مصروف ہیں۔

    یہ درست ہے کہ انسان نے یوم ازل سے مال و زر کے حصول کے لئے جائز وناجائز ذرائع اختیار کئے اور بے پناہ دولت کے انبار لگا کر حرص و ہوس کا شکار ہوتا رہا مگر اس کے باوجود وہ ہمیشہ خاندانی رشتوں، ازدواجی زندگی اور عائلی تعلقات کی طہارت و پاکیزگی کی مکمل پاسداری اور حفاظت کا امین رہا۔ اب یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر قائم کردہ اس مصنوعی معاشرے میں سچ کی جگہ جھوٹ اور شرم و حیا کی بجائے بے حیائی کی پذیرائی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔

    مجھے یہ اندیشہ ہے کہ جہاں اخلاق قدریں مفقود اور عائلی زندگی کے سارے پردے متروک ہوئے جاتے ہیں کہیں کسی روز کوئی سر پھرا ٹک ٹاکر اپنی سہاگ رات کی عکسبندی پر مشتمل وڈیو کلپ وائرل کرنے پر نہ تل جائے کیونکہ سوشل میڈیا پر قائم کردہ اس مصنوعی معاشرے کے سارے ضابطے اور پیمانے عجیب و غریب ہی تو ہیں۔