Tuesday, 17 June 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Asad Tahir Jappa
    4. Bhikari Soch

    Bhikari Soch

    مانگ تانگ کی عادت ہمارے قومی مزاج میں سرایت کر چکی ہے۔ آبادی میں مسلسل بے پناہ اضافے کے مقابلے میں وسائل نہیں بڑھ سکے اور نہ ہی معیاری فنی تعلیم کی فراہمی اور روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکے ہیں۔ گورننس، امن عامہ اور مہنگائی کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ ان معروضی حالات کی موجودگی میں آبادی کی واضح اکثریت مانگ تانگ کر گزارہ کرنے کی عادی بن چکی ہے۔ سرکاری سطح پر ہر سال بجٹ کا خسارہ قرضوں سے پورا کیا جاتا ہے۔

    گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور آئی ایم ایف سمیت تقریباً تمام مالیاتی اداروں کے مقروض ہیں۔ سارا سال ہم مختلف قرضوں کے حصول کے لئے متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے مذاکرات کرتے رہتے ہیں اور اگلی قسط کی منظوری پر باقاعدہ شادیانے بجائے جاتے ہیں اور قوم کو نئے قرضوں کے اجراء کی خوش خبری سنا کر باقاعدہ مبارک بادیں وصول کی جاتی ہیں۔

    دوسری طرف اٹھارویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے کے تحت قومی خزانے میں جمع ہونے والے محصولات میں سے ایک خطیر رقم صوبوں کو منتقل ہو جاتی ہے مگر اس کے باوجود صوبائی سطح پر بھی عام آدمی کے لئے معاشی آسودگی کے امکانات روشن نہیں ہو سکے۔ اسی طرح کئی بڑے قومی ادارے اپنے اخراجات کے متحمل نہیں ہو پاتے تو وہ بھی ہر سال وفاقی حکومت کی جانب دیکھتے رہتے ہیں۔ مسلسل خسارے میں اضافے کے باعث کئی اداروں کو نجکاری کے عمل سے گزار کر پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل پاکستانی قومی ائیر لائن کی نجکاری کا عمل بھی شروع کیا گیا مگر بوجہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔

    مانگنے کی یہی روش ہمیں انفرادی سطح پر بھی نظر آتی ہے۔ مثلاً سگریٹ نوشی کے عادی افراد بھری محفل میں دوسروں کی سلگائی ہوئی سگریٹ اعلانیہ طور پر مانگ کر پینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ کچھ حضرات اس میں برابر کے حصے دار بن کر جس خود اعتمادی اور رعب و دبدبے سے مانگتے ہیں وہ عمل یقیناً دیدنی ہوتا ہے۔ کئی صاحبان بڑے دلکش انداز میں اپنی دو انگلیوں کو سگریٹ پکڑ نے کے لئے آگے بڑھا کر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں کہ جیسے وہ اپنے اس عمل پر شرمندگی محسوس کر رہے ہوں۔ مگر وہ یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جو مزہ مانگ کر سگریٹ پینے میں ہے وہ خرید کر پینے میں نہیں۔ اسی طرح اخبار مانگ کر پڑھنے کا رواج بھی ہمیشہ عام رہا ہے۔

    اب بھی سفر کے دوران پوری بس میں اگر کسی ایک شریف آدمی کے پاس اپنی حلال کی کمائی سے خریدا ہوا اخبار موجود ہو تو اس کے اردگرد بیھٹے کئی حضرات کے ذوق مطالعہ کی راکھ سے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور ان میں تین چار بیک وقت اسے مانگ کر پڑھنے کے خواہاں نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اخبار مختلف ہاتھوں میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرنے کے بعد پوری بس کے طول و عرض میں پھیل جاتا ہے۔ اس کا اصلی مالک محض اپنی بے بسی پر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اخبار مانگنے والوں کی اکثریت صرف تصاویر دیکھنے میں زیادہ گہری دلچسپی رکھتی ہے اسی لئے ان کی تمام تر توجہ رنگین تصویری صفحات کے حصول پر مرکوز رہتی ہیں جہاں شوبز سے وابستہ شخصیات جلوہ افروز ہوتی ہیں۔

    مانگ تانگ کی یہی عادت انسانی شخصیت اور کردار میں کئی خرابیاں پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے۔ بھکاری سوچ کے حامل افراد خودی اور خود داری کا گلہ گھونٹ کر خود انحصاری کی بجائے دوسروں کے مال اور وسائل پر نظر رکھنے بلکہ ان پر اپنے حقوق ملکیت جتانے کے درپے رہتے ہیں۔ اپنی محنت اور صلاحیت کو بروئے کار لانے کی بجائے یہ مانگنے کی عادت پختہ کر لیتے ہیں اور اس پستہ سوچ کو پروان چڑھانے میں لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں گداگری ایک باقاعدہ سیکٹر آف اکانومی بن چکا ہے۔

    ہمارے کوچہ و بازار بھکاریوں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ اب بھکاریوں کی واضح اکثریت ڈاکو بن چکی ہے کیونکہ وہ مانگتے ہوئے باقاعدہ دھمکی آمیز لہجے میں بڑے نوٹ کا مطالبہ کر تے ہیں۔ اگر کوئی صاحب ثروت صدقہ و خیرات کی غرض سے کچھ تقسیم کرنے روڈ پر نکل آئے تو یہ اس شریف آدمی پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اس سے چھینا جھپٹی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی ڈاکو نما بھکاری اب قومی حدود سے نکل کر اپنا دائرہ کار بین الاقوامی سطح تک پھیلا رہے ہیں۔ لوگوں کے مذہبی عقائد اور جذبات سے کھیل کر بھاری رقوم بٹورنے کے لئے یہ عمرے کی ادائیگی کی آڑ میں سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں اور وہاں حرمین شریفین میں زائرین کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔

    اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر آج کل ایک وڈیو کلپ وائرل ہے جس میں چند پاکستانی خواتین مسجدِ نبوی ﷺ کی چھتریوں کے نیچے کسی دوسرے اسلامی ملک سے تعلق رکھنے والی خاتون جو تسبیاں تقسیم کر رہی تھی پر ٹوٹ پڑتی ہیں اور اس سے باقاعدہ چھینا جھپٹی کرتے دکھائی دیتی ہیں حتیٰ کہ وہ عورت اسی دھکم پیل میں گر جاتی ہے۔ رمضان کریم کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہونے اور حرمین شریفین کی حرمت کا لحاظ کرنے کی بجائے یہ خواتین نہ صرف شہر رسول کا تقدس پامال کرنے کی مرتکب ہوئیں بلک اس کے ساتھ ساتھ وطن عزیز پاکستان کی جگ ہنسائی کاسبب بھی بن گئیں۔

    بدقسمتی سے بھکاری سوچ ہماری قومی مزاج کا خاصہ بن چکی ہے اور ہر دوسرا شخص اوروں کے مال، وسائل اور اشیاء پر اپنے حقوق ملکیت ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مانگ تانگ سے بات بڑھتے ہوئے اب باقاعدہ لوٹ کھسوٹ تک آن پہنچی ہے۔ پاکستانی بھکاریوں نے حرمین شریفین میں اللہ اور اس کے پیارے حبیب نبی کریم ﷺ کے مہمانوں کا جینا دوبھر کردیا تو اس ضمن میں سرکاری سطح پر حکومت پاکستان کی توجہ مبذول کرائی گئی۔

    ملکی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور مختلف ہوائی اڈوں سے عمرے کی نیت سے سعودی عرب جانے والے بھکاری افراد کے کئی گروہوں کی سفری اجازت منسوخ بھی کی گئی مگر یہاں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ بھکاری سوچ کا خاتمہ کس طرح ممکن بنایا جائے؟