Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Arif Nizami/
  3. Nazar Nahi Araha

Nazar Nahi Araha

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) جسے تشکیل پائے بمشکل پانچ ماہ ہی گزرے ہیں، اپنے اہداف کے قریب نہ پہنچنے کے باعث بکھرنا شروع ہوگئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں لانگ ما رچ اورا جتماعی استعفوں کے ذریعے حکومت کی رخصتی کی منزل ابھی بہت دور ہے لیکن پی ڈی ایم کے غنچے بن کھلے ہی مرجھا نے لگے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب 19جنوری کو پیپلز پا رٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے عمر کوٹ میں اپنی مصروفیت کا بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج میں شرکت ہی نہیں کی، اس سے پہلے بھی بلاول ایک اہم اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن بھی نسبتا ً احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے رویئے پر کھل کر تنقید نہیں کی۔ بلاول بھٹو اور ان کے والد آصف علی زرداری نے جو نیا شوشہ چھوڑا وہ حکومت کے خلاف وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پیش کر نے کا ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سمیت کئی وزرانے پیپلز پارٹی کی اس نئی حکمت عملی کا خیرمقد م کیا ہے۔ شیخ رشید کا تو کہنا ہے کہ بلاول بھٹو ان کا مشورہ مان کر راہ راست پر آ گئے ہیں۔ ظاہر ہے اپوزیشن میں دراڑیں پڑیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت خوش ہی ہو گی۔

دوسری طرف حکمران جماعت نے بھی ارکان اسمبلی سے براہ راست رابطے بڑھا دیئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں دیر، سوات اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کیں اور سیاسی امور کے علاوہ زرعی پیکیج کے حوالے سے بھی گفتگو کی، گویا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا نہ، یک دم ارکان اسمبلی کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا کھیل صرف اسی صورت میں کامیاب ہو گا جب اپو زیشن کو پچھلے سینیٹ الیکشن کی طرح کسی نادید ہ ہاتھ کی حمایت حاصل ہو گی، فی الحال تو ایسا نہیں لگتا۔

اس میں بھی اب کوئی شک نہیں کہ بلاول بھٹو شعلہ نوائی کے باوجود خود، ان کے والد اور پیپلزپارٹی مقتدر اداروں کے بارے میں معتدل لائن اختیار کر رہے ہیں جبکہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز جس انداز سے اسٹیبلشمنٹ کو رگڑا لگا رہے ہیں جیسے وہ ایک انقلاب برپا کرکے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہوں، گو کہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی قومیت پرست جماعتیں بھی ایسا ہی چاہتی ہیں۔ موجودہ حکومت جو اپنی نصف مدت پو ری کر چکی ہے، اپنی نالائقیوں، نااہلیوں اور بے تدبیریوں کے باوجو د فی الحال کہیں جاتی نظر نہیں آ رہی۔ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اکٹھی بھی ہو جائیں تو بظاہر نمبر پورے نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اکٹھے ہو کر اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں، وہ ایسا کیونکر کریں گے وہ تو اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے پی ٹی آئی کے حلیف بنے ہیں۔ اس سے پہلے ن لیگ سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین بھی منتخب نہیں کر اسکی تھی چہ جائیکہ موجودہ اپوزیشن وفاق اور پنجاب میں حکومتیں گرادے۔

آصف علی زرداری نے جو اپنی صا حبزادی بختاور کی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں ایک ٹیلی فونک پیغام میں کہا ہے کہ اگلے چھ ماہ بہت اہم ہیں۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کو گھر چلے جانا چاہیے کیونکہ حکومت کی نااہلی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے ملک کسی بڑے حادثے کاشکار ہو سکتا ہے۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت کے گرد گھیر اتنگ کیا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم اتنی ہی مخلص ہے تو تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑنے سے پہلے اس پر پی ڈی ایم کے اجلاس میں سیر حاصل بحث کر لی جاتی تو کم از کم اپوزیشن کے اتحاد کی ہنڈیا بیچ چورا ہے نہ پھوٹتی۔ مسلم لیگ (ن) نے خود اپنے آ پ کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپو زیشن لیڈر اور پا رٹی کے صدر شہباز شریف کوٹ لکھپت جیل میں دن گن رہے ہیں، جہاں ان کی اپنی جماعت نے انہیں سوکھنے ڈال دیا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ڈکٹیٹر کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ (ن) پاکستان میں آمریت کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے وہ ویسی ہی سیاست کر رہی ہے جو اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے احتیار کی تھی۔ ایک طرف لاڑکانہ پلان کے چرچے تھے جب اس وقت کے آمر مطلق جنرل یحییٰ خان ذوالفقا ر علی بھٹو سے مذاکرات کرنے کے لیے لاڑکانہ پہنچ گئے تھے۔ دوسری طرف بھٹو نعرہ لگاتے تھے جو انتقال اقتدار کے لیے مشرقی پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا یعنی کہ بھٹو فوج کے ساتھ بیک ڈور چینل بھی کھلا رکھتے تھے اور انہیں آنکھیں بھی دکھاتے تھے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے پی ڈی ایم کی حالیہ تحریک سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کم از کم سندھ میں ان کی پارٹی کو نہیں توڑ سکی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پورا زور لگایا کہ ان کو سندھ سے آؤٹ کیا جا سکے لیکن پی پی پی کا حامی ووٹ بینک صوبے میں ان کے پیچھے کھڑا ہے۔ حال ہی عمر کوٹ میں ضمنی انتخاب میں سند ھ کے سابق وزیر اعلیٰ، جی ڈی اے کے امیدوار ارباب غلام رحیم کو برے طریقے سے شکست ہوئی اور پیپلز پارٹی کے امید وار امیر علی شاہ 25ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیاب ٹھہرے۔ مسلم لیگ (ن)کے برعکس پیپلز پارٹی اب بھی سندھ میں برسر اقتدار ہے اور آئندہ الیکشن میں بھی اس کی حکومت بننے کے امکانات روشن ہونگے۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو کو ملنے والے حالیہ مواقع سے دوسرے صوبوں میں بھی نشستیں حاصل ہونگی۔

عمران خان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی پارٹی کی آئند ہ الیکشن کے لیے کیا تیاریاں ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ "میں " کی گردان اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ انہیں اپوزیشن اور حکومت میں کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا۔ بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اکانومی کا حال پتلا ہے۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے الیکشن جیت لیا لیکن آئند ہ الیکشن صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے نہیں بلکہ کسی حد تک اپنی کارکردگی کی بنا پر لڑنا پڑے گا لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔