Sunday, 06 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Abu Nasr
    4. Tum Abhi Bhi Nahi Sudhre?

    Tum Abhi Bhi Nahi Sudhre?

    یوں تو اور لوگ بھی لکھتے بولتے اور بڑبڑاتے ہیں، مگر ہمارے ایک ماہرِ اطلاعات قومی رہنما اپنی گفتگو میں بار بار فرماتے ہیں کہ "ابھی بھی سبق نہیں سیکھا"۔

    "بھی بھی" کرنے سے کہیں اچھا ہوگا کہ وہ"بھیں بھیں" کر لیا کریں۔ اس طرح کم ازکم عوام کی ہمدردیاں تو حاصل ہوجائیں گی کہ "رنج لیڈر کو بہت ہے، "قومی رہنماؤں کی بولی ٹھولی کے اثرات قوم پر بھی پڑتے ہیں اور قومی ذرائع ابلاغ پر بھی۔ یادش بخیر ہمارے ملک کے ایک سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو اپنی تقریروں میں تواتر سے اِقدام اُٹھایا، کرتے تھے سو آج تک ہمارے اخبارات، ہمارے برقی ذرائع ابلاغ اور ہماری قوم کے قائدین و مقررین اِقدام اُٹھاتے، پھرتے ہیں۔ جونیجو صاحب مرحوم کے اِقدام اُٹھانے، سے قبل قوم کے قائدین اور مقتدیان صرف قدم اُٹھایا، کرتے تھے اورالف کے نیچے زیر لگا کر اِقدام کیا، کرتے تھے۔ مگر اب آوے کا آوابگڑ گیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب کسی میں قدم اُٹھانے کی ذرا بھی طاقت نہیں رہی۔ لہٰذا سب کے سب اِقدام اُٹھائے رکھتے ہیں، بجائے کرنے کے۔

    ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی فرماتے ہیں: "ذرائع ابلاغ کو اللہ جانے کون سا مرض لاحق ہوگیا ہے۔ یوں تو دنیا بھر کی خبر پر اُن کی نظر رہتی ہے، ہر طرف کی سُن گُن رکھتے ہیں، غیروں کی نقالی تُرنت کرتے ہیں، ذرا تاخیر نہیں کرتے۔ لیکن قومی تہذیب و ثقافت، قومی تمدن اور قومی زبان کا معاملہ ہو تو کانوں سے سنائی دیتا ہے نہ آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے، نہ قدموں سے اُٹھائی، دیتا ہے"۔

    چچا کی اس چُہُل سے نظریں نہیں چُرائی جاسکتیں۔ دنیا بھر کے مشّاق ماہرینِ ابلاغیات کا معمول ہے کہ وہ نہ صرف علومِ ابلاغیات پراچھی دسترس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ جس زبان کو اپنی صحافت کے ذریعۂ ابلاغ کے طور پر منتخب کرتے ہیں، اُس زبان میں بھی خوب خوب مہارت حاصل کرتے ہیں۔ ہماری قوم کے ورقی اور برقی ماہرین ابلاغیات بھی اگر قومی زبان کے قواعد سیکھ کر لکھا اور بولا کریں تو وہ بھی بنتے بنتے اُردو صحافت کے اسلاف کی طرح کی روایتی اور افسانوی شخصیات (Legend) بن جائیں۔ بشرطے کہ بننا چاہیں۔

    جو صاحبان "ابھی بھی" بولتے اور لکھتے ہیں اُنھیں معلوم ہو کہ ابھی، میں لفظ بھی، پہلے سے موجود ہے۔ ہمارے محولہ بالا قائدِ محترم جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ انھیں یوں کہنا چاہیے تھا کہ "ہم نے اب بھی سبق نہیں سیکھا"۔

    (اُن کے فقرے میں ہم نے اپنی طرف سے ہم نے، کا اضافہ اس حقیقت کے پیش نظر کیا ہے کہ اس کالم کی اشاعت کے بعد بھی یقیناََ وہ سبق نہیں سیکھیں گے، ماسبق فقرہ ہی بولتے رہیں گے۔)

    بولنے سے پہلے تولنا اور لکھنے سے پہلے پڑھنا لوگوں نے چھوڑ دیا ہے۔ ادیب اور انشا پرداز بھی اپنی تحریروں میں ابھی بھی، کا استعمال کثرت سے کر رہے ہیں۔ محترم افتخار عارف صاحب، جوآج کل علیل اور صاحبِ فراش ہیں، اللہ انھیں صحتِ کاملہ عاجلہ عطا فرمائے، برسوں سے یہ اعلان فرماتے رہے ہیں:

    اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
    دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے

    وہ بھی چاہتے تو "ابھی بھی" کہہ سکتے تھے، مگر نہیں کہا۔ لفظ ابھی، قواعد کے اعتبار سے تابعِ مہمل، ہے۔ تنہا استعمال نہیں ہوتا۔ یہ لفظ در اصل اب اور ہی، کا مرکب ہے اب ہی، یعنی ابھی۔ اس لفظ کا مفہوم ہے: اسی وقت، اب تک، تاحال، فوراً، یا ایسی جلدی؟

    ذرا ان مفاہیم کا بالترتیب جملوں میں استعمال دیکھیے:

    "یہ حادثہ ابھی ہوا ہے۔ "

    "صاحب ابھی نہیں آئے۔ "

    "ابھی نتیجہ نہیں سنایا گیا ہے۔ "

    "ابھی جاؤ اور ماموں جان کو بلا لاؤ۔ "

    "تم ابھی آگئے؟"

    مستقبل قریب کے لیے بھی لفظ ابھی، کا استعمال عام ہے، جیسے:

    "تھوڑی دیر رُک جائیے، والد صاحب قریب ہی گئے ہیں، ابھی آ جائیں گے"۔

    اس وقت، اِس لمحے یا اس گھڑی کی جگہ بھیابھی، بول دیا جاتا ہے، مثلاً:

    "ابھی وہ گھر ہی میں ہوں گے"۔

    اس کے علاوہ، مستقبل قریب کی طرح، ماضی قریب کے لیے یعنی تھوڑی دیر قبل یا چند ساعت پہلے بولنے کی جگہ بھیا بھی، بول دیا جاتا ہے:

    "آپ ذرا پہلے آ جاتے، چچا ابھی چکڑالہ شریف جانے کے لیے نکل گئے ہیں۔ "

    کبھی کبھاریہ ابھی، کا لفظ حسنِ کلام کے لیے، کلام سے زائد بھی استعمال کر لیا جاتا ہے، جیسے ساحرؔ لدھیانوی نے اس شعر کے پہلے مصرعے میں کیا ہے:

    ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
    کہ دل ابھی بھرا نہیں

    دوسرے مصرعے میں ابھی، کا مطلب تا حال، ہے۔ میرؔ کا یہ مشہور شعر بھی دیکھ لیجے:

    سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    ابھی، کو دو مرتبہ استعمال کر لیا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اسی وقت، فوراً، اسی دَم، بہت ہی جلد، آناً فاناً میں۔ احمد ندیمؔ قاسمی کو ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے حافظے کی شدید کمزوری کا ذکر کرنے کے لیے انھیں نے دونوں مصرعوں میں ابھی ابھی، استعمال کرنا پڑا:

    ابھی ابھی تمھیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
    ابھی ابھی تو ہم اِک دوسرے سے بچھڑے تھے

    صاحبو! تمہید طولانی ہوگئی۔ بات بس اتنی سی کہنے کو تھی کہ "ابھی بھی"بولنا یا لکھنا درست نہیں ہے۔ اس کی جگہ "اب بھی" بولنا اور لکھنا چاہیے۔ "اب بھی" کے معانی اور مفاہیم میں بڑی وسعت ہے۔ اس کاایک مطلب ہے: اس وقت بھی، اس صورت میں بھی۔ اوردوسرا مطلب ہے: پھر بھی، تب بھی، اس حال میں بھی، اس پر بھی یا اس کے باوجود۔ پہلے مفہوم کی مثال میں یہ جملہ دیکھیے:

    "ہماری امت پے بہ پے حوادث سے گزری ہے اور بار بار غداروں کی چوٹیں سہی ہیں، مگر اب بھی اس کے اندر سے جاں بازی اور سرفروشی کی آگ سرد نہیں ہوئی۔ اس نے ظلم وعدوان کے سامنے اجتماعی طور پر کبھی سرتسلیم خم نہیں کیا"۔

    دوسرے مفہوم کی بھی ایسی ہی ایک مثال لے لیجے۔

    "مسلمان سیاسی ومعاشی اعتبار سے زوال کا شکار ہیں مگر اب بھی مسلم معاشروں کی اخلاقی حالت دوسروں سے بدرجہا بہتر ہے"۔

    زبان و بیان کی غلطیاں عادت کا حصہ بن جائیں تو ان سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ عادت آسانی سے نہیں چھوٹتی۔ کالم نگار چشمِ تصور سے دیکھ رہا ہے کہ ایک صحافی بھائی یہ کالم پڑھ کر ایک طرف پھینکتے ہوئے فرماتے ہیں:

    "کمال ہے۔ لوگ ابھی ابھی چھوٹی چھوٹی غلطیاں پکڑ کر پورے پورے کالم لکھ مارتے ہیں"۔

    اس پر دوسرے صحافی بھائی ہنستے ہیں کہ

    "پورا کالم پڑھ گئے اور تم ابھی بھی نہیں سدھرے؟"